کچھ سمجھ میں آیا

میں اب اور پریشان ہوا کہ یہ کہہ کیا رہا ہے اسے میرے مسئلے کے بارے میں کیا معلوم ہے؟


قادر خان September 01, 2015
[email protected]

میں عارف میاں کے پاس پہنچا وہ کرسی اٹھا کر سائیڈ میں بیٹھنے لگا، تو میں نے غمگین نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا اور اس سے کرسی زبردستی لے کر خود بیٹھ گیا۔ عارف میاں سمجھ گئے تھے کہ آج پھر قادر بھائی ٹینشن میں ہیں، لیکن میں بس ایک بات کہے جا رہا تھا کہ میرا کیا قصور ہے، میرا کیا قصور، وہ سادگی سے بولے، بھائی مجھے بہت افسوس ہوا، میں نے قدر حیرانی سے اس کی جانب دیکھا کہ اسے کیسے پتہ چلا ، میں نے پوچھا کہ تمھیں کیسے پتہ چلا؟ کہنے لگا کہ بھائی یہ تو ساری دنیا جان چکی ہے۔

میں اب اور پریشان ہوا کہ یہ کہہ کیا رہا ہے اسے میرے مسئلے کے بارے میں کیا معلوم ہے؟ میں تھوڑا سے بھڑکا، کیونکہ حسد کی آگ کی تمازت سے کافی جل چکا تھا، لہذا غصے کے شعلے زیادہ بلند نہ ہو سکے۔ عارف میاں بولے، بھائی آپ بھول جائیں اور نئی زندگی شروع کریں یہ سب صرف آپ کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ ان گنت لوگوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔

مجھے اب کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا، میں نے اپنا سر پکڑ لیا کیونکہ انسان کے پاس پکڑنے کے لیے یہی رہ جاتا ہے اور بول اٹھا کہ عارف میاں، مانا کہ تم دانشمند ہو، اسکول جاتے ہو، کام بھی زیادہ کرتے ہو، لیکن اب پڑھائی سے زیادہ گیم کھیلنے میں تمھاری دلچسپی بڑھ گئی ہے، لیکن اب تم اتنے ماہر بھی نہیں ہو کہ میرے مسائل کا ادراک کر سکو۔ عارف میاں دوبارہ سادگی سے بولے، بھائی، ادراک اس معاملے میں کتنا مفید ہے، مجھے نہیں معلوم، لیکن ہر غم کا مداوا، خوشی ہے آپ بے غم رہو، غم خود بخود ختم ہو جائے گا۔

میں نے فیصلہ کر لیا کہ عارف میاں کی ذہانت کا مکمل فائدہ اٹھاؤں گا لیکن پہلے اس کی ایک غلط فہمی دور کر دوں، میں نے کہا کہ بھائی، میرا کیا قصور سے مراد، پنجاب والے واقعے کی بات نہیں ہے، میں صرف ایک مرتبہ وہاں نورجہاں کے لیے اس کے آبائی شہر قصور گیا تھا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان جیسا اب کوئی نہیں تو چلا آیا، میرے ساتھ قصور میں ایسا کچھ نہیں ہوا کہ بلیک میل ہوتا۔

عارف میاں نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ اچھا اچھا (عارف میاں کے پاس ہلانے کو سر ہی ہوتا ہے)، میں سمجھا کہ شاید، لیکن قادر بھائی، بلاشبہ قصور جیسا اندوہناک واقعہ تو آپ کے ساتھ نہیں ہوا، لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ' قصور' کی طرح آپ کی محنت کی بھی ویڈیو بنا کر آپ کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے اور آپ اپنی عزت کے خاطر خاموش ہو جاتے ہو۔ ہمت کریں، احتجاج کریں۔ عارف میاں نے بات تو بڑے پتے کی کہی تھی لیکن مجھے ہمیشہ بغیر چونا لگائے پان کھانا کی عادت رہی ہے، اس لیے سلیمانی پان کھانا مجھے اچھا لگا ہے۔

حالانکہ میرے سامنے کئی لوگ سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہو جاتے ہیں اور میں دور کی عینک لگائے لگائے اندھا بن کر اندھیرے میں ماچس تلاش کرتا رہ جاتا ہوں۔ شاید نزدیک کی نظر بینی میں کمزوری واقع ہو گئی ہے۔ ویسے ماچس بھی بڑی عجیب سے چیز ہے، 'چیس' کر چھوٹا سا شعلہ اٹھتا ہے تو تن بدن کے جذبات و احساسات کو جھلسا دیتا ہے۔

میں نے کہا کہ عارف میاں، قصور والے واقعے میں متاثرہ خاندان تو زندگی بھر اپنی عزت کی پامالی کا ازالہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ میڈیا نے ایک ایک بچے کے گھر جا کر پوری دنیا کو بتا دیا کہ یہ ہے وہ بچہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی، اب تو وہاں کے لوگ ہاتھ جوڑ رہے ہیں کہ پہلے ہمارے بچے کے کپڑے اتار کر ہماری عزت اچھالی گئی اب آپ پورے خاندان کی عزتیں اچھال کر بریکنگ نیوز بنا رہے ہیں، خدارا ہمیں بخش دو۔ اب بتاؤ کہ اس میں ان کے بچوں کے خاندان کا کیا قصور تھا کہ انھیں اس طرح سر راہ رسوا کیا جا رہا ہے۔

عارف میاں میرا دکھ سمجھ کر بولے کہ بھائی جب انسان دکھی ہو تو اسے سکھی کے پاس جانا چاہیے، میں نے پوچھا کہ یہ سکھی کون ہے، تو کہنے لگا کہ ہمارے علاقے میں جو صفائی کر کے علاقے کی گندگی صاف کرتی ہے وہ سکھی ہے، ہاتھ میں جھاڑو لے کر کچرا اس طرح اٹھاتی ہے کہ جیسے دنیا پر احسان کر رہی ہو ، آپ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ آپ دکھی بھی بہت جلد ہو جاتے ہو اور خود کو سکھی سمجھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ آپ کے جھاڑو پھرنے سے گند صاف ہو جائے گی، کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری قوم کی کیا حالت ہے، کہ وہ وہیں کچرا پھینکتی ہے جہاں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں کچرا پھینکنا منع ہے۔

عارف میاں کی لفظوں کی پختگی بتا رہی تھی کہ اس کے مالک نے آج ایسے اجرت دے دی ہے ورنہ عالمی شیر، کسی نازک اندام کو سیلفی بنانے کے لیے اپنا قیمتی موبائل ایک دن کے نام پر عمر بھر دے دیتا ہے لیکن بچارے کو وقت پر تنخواہ نہیں دیتا۔ اسکول کھل گئے ہیں لیکن اس کے پاس تین ماہ کی فیس، نئی یونیفارم اور جوتے نہیں ہیں۔ میں نے اس کے مالک سے پوچھا کہ بھائی، تم ریس کورس کے شوقین ہو، گھوڑیوں پر پیسے لگاتے رہتے ہو، لیکن اس بے چارے پر توجہ کیوں نہیں دیتے، مانتے ہو کہ ذہین ہے۔

اچھا کام سنبھالا ہوا ہے، تعریف بھی کرتے ہو، لیکن اس کا حق ایسے نہیں دیتے، تم بھی الیکشن کمیشن کی طرح ہو گئے ہو کہ بے ضابطگی ان کا عملہ کرے، لیکن سزا سیاست دان کو ملے، مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ یہ الیکشن کمیشن والے جعلی ڈگری پر منتخب نمایندے کو تو گھر بھیج دیتے ہیں لیکن انتخابی سنگین غلطیوں پر انھیں گھر کیوں نہیں بھیجا جاتا۔ سیاست دان ساری زندگی اپنا کیرئیر بنانے میں لگا دیتا ہے۔ وہ الیکشن جیتنے کے لیے جو کچھ بھی کرے لیکن قصور تو الیکشن عملے کا ہی ہوتا ہے نہ کہ وہ سنگین غلطیاں کرتے پھریں۔ پھر انھیں سزا کیوں دی جاتی ہے۔

عمران خان چاہے کتنی بار موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلا کر یوٹرن لے چکے ہوں، ایم کیو ایم ان گنت بار استعفے دیکر واپس لے چکی ہو، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ الیکشن کمیشن کو ان کی نااہلی کی سزا ملی ہو، کروڑوں روپے خرچ ہونے کے بعد بھی مدعی اور مدعا علیہ کو کچھ نہیں ملتا۔

عارف میاں بڑے کائیاں ہو گئے ہیں، کہنے لگے بھائی، آپ کہہ مجھے رہے ہیں اور سنا کسی اور کو رہے ہیں، میں روہانسا ہو گیا کہ بھائی میری سنتا کون ہے؟ میں تو لکھ لکھ کر پریشان ہو گیا ہوں، عارف میاں میں تو لکھتا ہی رہوں گا کہ ایک بات سچ کہوں کہ پہلے ہم پختونوں کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ اپنے دوست کو اکیلے جہنم میں بھی نہیں جانے دیتا۔ اپنے ساتھ اس کی ٹانگ پکڑ کر جنت سے جہنم میں لے جانے کی کوشش کرتا ہے یعنی اس کی ٹانگ کھینچتا ہے۔ لیکن اب تو یہاں جس کا بس چلے، ٹانگ ہی نہیں کھینچتا بلکہ ایسے گود میں پیار سے اٹھا کر کنوئیں میں پھینک دیتا ہے۔ عارف میاں مجھے تسلی دیتے ہیں کہ ، پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ۔ میں بھی بہار کے انتظار میں ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں