گڈ گورنس کیوں نہیں
وطن عزیز کے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں، جہاں غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے
وطن عزیز کے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں، جہاں غیر معمولی اقدامات کرنے ہوں گے، ہمارے بڑے بڑے ادا رے اس لیے مفلوج ہو گئے کہ ان اداروں کے سربراہ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ بڑوں کی آشیرباد کی وجہ سے سربراہ بن گئے۔
جس کے نتیجے میں وہ اپنے ماتحت تجربہ کار لوگوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہوتے ہیں اور خوشامدیوں کے مشورے پر اداروں کو چلاتے ہیں، یہی کمزوری ہے جس سے اس کے ماتحت افسران اور مختلف شعبوں کے سربراہان انتہائی سست رفتاری سے اداروں کو ایڈہاک ازم پر چلاتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں وہ نتائج سامنے نہیں آتے جو آنے چاہییں جس طرح 1970ء تک کمشنر اور سیکریٹری صاحبان کے لیے ISS,PCR جیسے مستند بیوروکریٹس ہوا کرتے تھے انھی کو ان عہدوں پر فائز کیا جاتا تھا وہ پبلک سروس کمیشن کے توسط سے سیلکٹ ہو کر آتے تھے، ویسے ہی آج بھی ضرورت ہے لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ جب سول حکومت آتی ہے تو ان پر پارٹی دباو ٔہوتا ہے اس لیے ان سب کو پاکستان کے تما م اداروں میں کھپا دیا جاتا ہے۔
ان کی صلاحیتوں کا امتحان لیے بغیر اس لیے کم از کم گریڈ 16 سے لے کر گریڈ 22 تک کے افسران کے منصب پر ان کی تعیناتی خالص میرٹ کی بنیاد پر اور تمام اداروں میں کام کرنے والے افسران کو ہی ترقی دی جائے باہر سے وہی لوگ بھرتی ہوں جو ماتحت ہوتے ہیں۔ گریڈ 20 سے گریڈ 22 تک کے افسران کے ٹرانسفرز کم سے کم 3 سال تک نہ ہو۔ اگر اس میں کوئی نااہل ہے تو اسے قانون اور قاعد ے کے مطابق سبکدوش کر دیا جائے۔
تما م بیوروکریٹ افسران حکومت کے معاون ہوتے ہیں ان کے ذاتی ملازم نہیں کیونکہ یہ ریاست کے ملازم ہوتے ہیں۔ اگر ہماری اعلیٰ عدالتیں اور چیف جسٹس صاحبان گاہے بگا ہے سوموٹو ایکشن لیتے رہیں تا کہ اداروں کے سربراہ پر یہ دباؤ رہے کہ ہمیں بھی کوئی پوچھنے والا ہے۔
آج کل بڑے شہروں میں سب سے بڑا عوامی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تمام بازاروں کے پاس جتنے بھی فٹ پاتھ بنے ہوئے ہیں جن پر پیدل چلنے والوں کا حق ہے وہ سب کے سب 80 فیصد تجاوزات سے بھر گئے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان فٹ پاتھوں سے بلاخوف و خطر لوگ سائیکلیں، موٹرسائیکل اورکاریں بھی چلانے لگے ہیں بہت کالم اس موضوع پر لکھے مگر کسی نے ان تجاوزات کو نہ ہٹایا یہ تجاوزات ان کے دم سے قائم ہیں جو ان سے روزانہ ہفتہ وار یا ماہانہ بنیاد پر بھتہ یا نذرانہ وصول کرتے ہیں۔
اگر چیف جسٹس کمشنر کراچی یا تجاوزات کے ادارے کے سر براہ کو بلا کر سرزنش کریں تو یہ عوام کا بنیادی مسئلہ حل ہو گا، اسی طرح پورا شہر کوڑا کرکٹ ڈھیر نظر آ رہا ہے، تمام ذمے دار وزیر سے لے کر مشیروں تک صرف تنخواہ لیتے ہیں، سہولتیں اور مراعات لیتے ہیں ان کے ذمے جو کام ہے وہ 10 فیصد بھی نہیں کرتے۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جب حکومتیں صرف اپنا وقت پورا کرنے کی منتظر ہوں اور شہر گاؤں بنتا جا رہا ہو، عوام آئے دن مہنگا ئی بے روزگاری، پانی، بجلی، گیس جیسے مسائل میں گھرتے جا رہے ہوں تو ایسی صورت میں میری نظر میں پاکستان کے دو ادارے ایسے نظر آتے ہیں۔
اگر وہ آپس میں اس بات پر اتفاق کر لیں کہ ہم ان تمام بگڑے ہوئے معاملات کو اپنے اختیارات کے ساتھ بہترین انداز اور جذبہ حب الوطنی کے تحت عدل و انصا ف کے ساتھ اس طرح حل کریں گے کہ عام آدمی کو سہولت میسر ہو سکے وہ ادارے ایک ہماری معزز اعلیٰ اور سپر یم عدالت ہے اور ان کے چیف جسٹس صاحبان جو ان تمام معاملات کا سوموٹو ایکشن لیں اور دوسرا ادارہ ہمارا پاک افواج اور اس کے ساتھ پیرا ملٹری فورسز کا ہے اور یہ بڑی اطمینان بخش بات ہے کہ پارلؑیمنٹ نے ان کے اختیارات کو قانونی قرار دیا۔
اب ملٹری کورٹس پوری طرح با اختیار ہیں اور کراچی شہر میں ان کی کاوشیں رنگ لارہی ہیں اور پورے پاکستان کی عوام ان پر یہ یقین رکھتی ہے کہ پاکستان کو حقیقی صفوں میں ملک دشمن، دہشت گردوں، کرائے کے قاتلوں، بھتہ خوروں سے پاک کر کے ہی دم لیں گے اور مجرموں کے معاملے پر کسی سودے با زی کا نہ حصہ بنیں گے اور نہ ہی کسی قسم کا مُک مُکا کریں۔ تا کہ ایک طرف جمہوریت کا سایہ بھی رہے اور دوسری طر ف ملک کی غلاظت بھی ختم ہو۔ ان دونوں معزز اداروں کے سر براہوں پر عوام کا بھرپور اعتماد بھی ہے اور ان کی کاوشوں سے کراچی میں تجارتی تعلیمی کاروباری سرگرمیوں میں اور معیشت میں بہتری آ رہی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف جن پر 18 کروڑ عوام نے اعتماد اور یہ بھروسہ کیا ہے کہ وہ اس ملک کو ترقی بلندیوں تک لے جائیں گے اور ان میں ایسی صلاحیت بھی ہے، ایک نڈر بے باک خود مختار فیصلے کرنے کی قو ت بھی رکھتے ہیں وہ کسی مصلحت کو سامنے نہ آنے دیں انھوں نے پاک افواج اور پیرا ملٹری کو جو ذمے داری سونپی ہے۔
اسے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھنے دیں اور وہ عوام کے لیے ٹرانسپورٹ، سڑکیں، بجلی، پانی، گیس اور روزگار کے وسائل میں اضافہ کریں اور خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کے شہر کراچی کو ایک با ر پھر ایشیاء کا بہترین تجارتی، ثقافتی شہر بنائیں۔
اس شہر کراچی کی یہ خوبی ہے کہ یہاں ساحل بھی ہے اور بڑی بڑی صنعتیں بھی ہیں۔ اگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس شہر میں خوب صورت پارکس، تفریح گاہیں، سینما گھر، تھیڑ سروس بہتر ین ٹرانسپورٹ چلا نے کی دعوت دی جائے تو ترکی، متحدہ عرب امارات، یورپ، امر یکا اور چین جیسے ممالک یہاں سرمایہ کاری کے لیے بے تاب ہیں۔ جیسے انھیں امن و سلا متی کا شہر نظر آئے گا ان کا رُخ ادھر ہو گا۔ حکومت تو صر ف انھیں زمین کی سہولت دے باقی کا وہ اپنی سرمایہ کاری کریں گے۔
جس طرح بحریہ ٹا ؤن بنایا اسی طرز کی اور بھی سوسائٹی بنائی جا سکتی ہے، لہٰذا جو ادارے اس شہر اور دوسر ے بڑے شہروں میں ملک دشمنوں، امن کے دشمنوں، سماج دشمنوں سے ضرب عضب کی طرح مقابلہ کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی بھی یقینی بنائی جائے، ان کے شہداء کے ورثاء کا خیال رکھا جائے۔