زینب کا حوصلہ
آنکھوں میں روشنی ہو مگر باطن کی دنیا تاریک تو کبھی بھی منزل کا سراغ نہیں مل سکتا
آنکھوں میں روشنی ہو مگر باطن کی دنیا تاریک تو کبھی بھی منزل کا سراغ نہیں مل سکتا، آنکھیں بھی ذہن کی سمجھ اور سوجھ بوجھ ساتھ لے کر تاثر قائم کرتی ہیں۔ بعض اوقات انسان دیکھنے کی حس رکھنے کے باوجود زندگی کے معاملات کو حقیقی تناظر میں نہیں پرکھ سکتا، لہٰذا وہ اپنی عمر گمان میں گزار دیتا ہے، وہم، گمان اور غیر حقیقی سوچ ذہن کی پیداوار ہیں۔
زینب پیدائشی طور پر آنکھوں کی نعمت سے محروم ہے مگر اس کے احساس کی آنکھ بہت روشن ہے۔ اسے علم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک لگاؤ ہے ایک دن زینب کلاس میں آگے کی سیٹ پر نظر آئی اس دن کلاس میں کم لڑکیاں تھیں اس کی آنکھیں بالکل سفید تھیں۔
یہ دیکھ کر ٹیچر کو بہت دکھ ہوا، ٹیچر کے استفسار پر اس نے بتایا کہ اس کی آنکھوں کے دو ناکام آپریشن ہو چکے ہیں اب کوئی امید باقی نہیں رہی کہ وہ یہ خوبصورت دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ پائے گی۔ اس نے بتایا کہ وہ پہلی کلاس سے آج تک اول آئی ہے۔ اس سال انٹر میں اس کے اچھے نمبر متوقع ہیں۔ گریجویشن کے بعد وہ سی ایس ایس کی تیاری کرے گی۔ بات سن کر ٹیچر نے ان لڑکیوں کی طرف دیکھا جو آنکھوں کی نعمت پانے کے باوجود احساس ہنر سے محروم تھیں وہ وقت ضایع کرنے کالج آتی تھیں۔ محض تفریح کی خاطر۔
زینب کی آواز من کا اجلا پن لیے ہوئے تھی، پر اعتماد اور زندگی سے بھرپور ایسا لہجہ جس میں فطرت کے تمام تر منظر دکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ نقل کے رجحان نے علم کی حقیقی روشنی چھین لی ہے۔ علم فقط ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے اور ڈگری فقط پیسہ کمانے کا وسیلہ، کوئی زمانہ تھا کہ والدین کا تمام تر زور بچے کو اچھا انسان بنانے پر ہوا کرتا تھا زندگی گزارنے کے اچھے اصول، ذاتی تنظیم اور ذہن کی وحدت کا سلیقہ انھیں سکھایا جاتا تھا۔ذہنی انتشار اور بے عمل زندگی معاشرتی اقدار میں نقب لگاتے ہیں۔
مادیت پرستی کے اس دور میں انسان کی پرکھ کا پیمانہ مثبت سوچ کے بجائے پیسے کی چکا چوند ہے والدین بچے کو اچھا پیشہ ور ماہر بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تمام تر شعبے محض پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ انسانی ہمدردی اور اخلاقی اقدار کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔
ایک طرف بچے او لیولز کر رہے ہیں تو دوسری طرف انھیں میٹرک کا امتحان دلوایا جاتا ہے۔ ان کی عمروں کا فطری پن کھو چکا ہے۔عمر کی بے ساختہ خوشی ان سے دور بھاگتی ہے وہ محض سانس لیتی مشینیں بن چکے ہیں ایک تحقیق کیمطابق ایشیا میں اے گریڈ اور پوزیشنز کا کریز ہے۔ لہٰذا ایشیا کے ٹین ایجرز بچوں میں ڈپریشن و خودکشی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔
دہرا معیار زندگی ہر شعبے میں پایا جاتا ہے، لہٰذا تعلیم بھی کسی طور اس معیار سے پیچھے نہیں ہے دہرے نظام تعلیم نے بچوں کو دو طبقوں میں تقسیم کردیا ہے نجی تعلیمی ادارے کامیابی کی سند سمجھے جاتے ہیں جب کہ گورنمنٹ کے ادارے فقط غریبوں اور متوسط طبقے کے لیے محدود ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گورنمنٹ کے اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے لوگ ہی قوم و ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جن کی وجہ سے آج مادری زبان کی اہمیت قائم ہے۔
ثقافت و تہذیب کے رنگ پائیدار ہیں جب کہ نجی تعلیمی ادارے الگ ہی نہج پر چل رہے ہیں جن میں علم حاصل کرنیوالے نوجوان راکرز، گیؤ یا ایمو بنے پھرتے ہیں۔ یہ کھردرے میلے بڑے بالوں والے موٹر بائیک پر گھومتے رہتے ہیں۔
موٹے فریم کے چشمے (چاہے نظر خراب نہ ہو) متضاد میچنگ، سیاہ رنگ کا زیادہ استعمال، اداس گانے، ٹائیٹ جینز، کانوں میں بالیاں، ٹیٹوز، فلسفہ بگھارنیوالے، سگریٹ نوشی کے رسیا، دنیا جہاں کی معلومات رکھتے ہیں، سوائے اپنی تاریخ و ثقافت کے۔ یہ نسل آئی فونز وکمپیوٹرز کے تو قریب ہے مگر گھر کے افراد سے کوسوں دور۔ رابطے اپنی معنی کھو بیٹھے ہیں، دوستی دنیا داری نبھانے کا ذریعہ۔ موبائل، قیمتی لباس، مہنگی گاڑیاں، پہچان اور ترجیحات بن چکی ہیں۔
چاہے ذہن کا رتبہ کم ہی کیوں نہ ہو، ایسے حالات میں زینب کا جذبہ اور مضبوط قوت ارادی ایک آئینے کی طرح ہے۔ زینب کے دو بھائی بھی جسمانی معذوری کا شکار ہیں مگر انھوں نے علم سے منہ نہیں موڑا غربت اور بدحالی کے دنوں میں والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرتے ہیں۔ آج بھی بے شمار بچے شوق و لگن رکھتے ہوئے بھی علم حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی صاحب حیثیت لوگ ایسے بچوں کے لیے کچھ کر پاتے ہیں۔
فلاحی کاموں میں حصہ لینے کا گراف دن بدن نیچے آ رہا ہے، ذاتی خوشی اور آسائش کو فوقیت دی جاتی ہے سالگرہ ہو، شادی یا دیگر تقریبات ہوں بے تحاشا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ Hi Fi یا یو پیپل کا لفظ بہت سنائی دے رہا ہے۔
ہم انگریزوں کی ذہنی غلامی سے نجات حاصل نہیں کر سکے ہیں، ویسے حب الوطنی کی باتیں تو خوب کی جاتی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ جن بچوں کو علم حاصل کرنے کا شوق ہے ان کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر ان کے تعلیمی اخراجات ادا کرتے ہیں جب کہ امیروں کے بچے بری صحبت اور بری عادات اپنا لیتے ہیں، ان بچوں کے گھر خوشحالی کے باوجود بے اطمینانی اور ذہنی کشمکش کے اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں ان بچوں کا مستقبل لاپرواہی اور خاندانی بدنظمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جتنا زیادہ پیسہ اتنے زیادہ مسائل نئی نسل نشے کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جو سگریٹ سے شروع ہو کے تباہ کن راستوں کی طرف سفر کرتا ہے۔
ہم اپنی نئی نسل کو ڈوبتا ہوا دیکھ رہے ہیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے سوائے ہاتھ ملنے کے۔ بدی کے مہیب سائے تعلیمی اداروں کے ارد گرد گھومتے ہیں کیونکہ اخلاقی پسماندگی سے ملک زوال پذیر ہوتے ہیں۔ قانون بھی غفلت کی غاروں میں بھٹکتا ہے۔ کہیں کوئی بھی برائی اگر جڑ پکڑ جائے تو اس کا قانونی حل ڈھونڈھا جاتا ہے۔
جیسے امریکا نے برائی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنے کے بجائے اسے قانونی حیثیت دے دی یہ فیصلہ اخلاقی رو سے درست نہ بھی ہو مگر ہم جنس پرستی کے ناسور کو قانونی حیثیت دے کر اوباما نے اس رجحان کو معاشرتی اقدار کا حصہ بنا دیا جب کہ ہم آج تک لڑکیوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکے۔
پسند کی شادی کو کاروکاری کی اندھی رسم کا حصہ بننے سے روک نہیں سکتے جب کہ مذہب کی رو سے لڑکیوں کی اس حوالے سے رائے اہمیت رکھتی ہے۔ شادی کے معاملے میں انھیں انتخاب کا حق حاصل ہے لہٰذا کئی خوبصورت زندگیاں معاشرتی بے حسی و لاپرواہی کی نذر ہوجاتی ہیں۔ مگر ناسمجھی اور بے خبری کے اندھیروں میں یکا یک امید کی کرن جھلملانے لگتی ہے جب زینب کا روشن چہرہ سامنے آن کھڑا ہوتا ہے جذبے کی سچائی اور حوصلے کے آگے ہر بڑی رکاوٹ پسپا ہو کے رہ جاتی ہے۔
زینب نے دنیا نہیں دیکھی مگر وہ من کی راہوں کی مسافر ہے کہا جاتا ہے کہ دنیا کی تمام تر بصیرت افروز ہستیاں من کے داخلی راستوں پر سفر کرتی ہیں اور کائنات کی سچائیوں کو پالیسی ہیں بظاہر روشنی محض نظر کا فریب ہے۔ بند آنکھوں سے بھی منزل کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔ زینب کا حوصلہ بے حسی کی دھند میں ڈوبے ہوئے معاشرے کے لیے ایک روشن مثال ہے۔