خوابوں کے سوداگر

انہیں زندگی بھر منزل نہیں ملتی، منزل تو بیوقوفوں کو ملتی ہے، عقلمند آدمی ہمیشہ سفر میں رہتا ہے۔


پاکستانیوں کی تین قسمیں ہیں۔ شکوہ، جواب شکوہ اور خوابوں کے سوداگر۔

پاکستانیوں کی تین قسمیں ہیں۔ شکوہ، جواب شکوہ اور خوابوں کے سوداگر۔ شکوہ پارٹی میں وہ لوگ آتے ہیں جن کی زبان پر ہر وقت ملک کے لئے کوئی طعنہ، برائی، گالی، بُری بات، کسی بدقسمتی کا رونا، اور شکوہ در شکوہ ہوتا ہے۔

یہ لوگ خوابوں کے گورکن ہوتے ہیں اور امیدوں کے قبرستان میں قبریں بنانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ مسئلے کا حصّہ ہوتے ہیں اور تاحیات اس میں اپنا حصّہ ڈالتے رہتے ہیں۔ آپ ان کے پاس کوئی خواب لے جائیں، کوئی اچھی بات، کوئی کامیابی یا غلطی سے کبھی کسی کامیاب آدمی کا ذکر کر بیٹھیں، یہ آپ کو اس میں وہ وہ نقائص نکال کر دیں گے، وہ وہ مصائب بیان کریں گے کہ آپکو اس کام یا شخص سے ہی نفرت ہوجائے گی۔ یہ لوگ پنج وقتہ حاسد ہوتے ہیں اور تاعمر اپنی حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ انہیں اپنے مرنے سے زیادہ لوگوں کے جینے کا غم ہوتا ہے اور یہ سجدوں میں بھی دوسروں کو بد دعائیں دیتے رہتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ لوگ معاشرے میں دانشور اور لکھاری شمار ہوتے ہیں۔

دوسرے گروہ میں جو لوگ آتے ہیں وہ جوابِ شکوہ ہوتے ہیں۔ یہ پہلے گروہ کی ہر اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں، یہ ملک کے گیت گاتے ہیں، اور روز کسی چوراہے پر کھڑے ہو کر پازیٹو تِھنکنگ کا منجن بیچتے ہیں۔ ان لوگوں کی رگوں میں خون کے بجائے جذبات پارہ بن کر دوڑتے ہیں اور یہ ہر خامی، ہرغلطی، ہر کوتاہی کا جواب کسی غیر ملکی سازش یا کفّار کی کسی دقیق پلاننگ سے جوڑ دیتے ہیں۔ ان کے جذبات کے آگے کوئی اہلِ دین آجائے تو اسے کافر و ملحد ثابت کرکے چھوڑتے ہیں۔ اسلام آجائے تو روشن خیالی کا ڈھول پیٹنے لگتے ہیں، کوئی کاروباری شخصیت آجائے تو اسکی زندگی بھر کی محنت کو حرام کا پیسہ بنا کر چھوڑتے ہیں۔ اور اگر کبھی غلطی سے کسی نے ان کے سامنے اپنا نظریہ بیان کرنے کی جسارت کرلی تو اسکی وہ کردار کشی کرتے ہیں کہ اسے عمر بھر کو چپ لگ جائے۔

انہیں نہ ملک میں کوئی ظلم نظر آتا ہے، نہ نا اِنصافی، نہ ہی کوئی زیادتی نہ جبر۔ بیوقوفوں کی جنّت میں رہنے والا یہ ٹولہ بھی مسئلے کا حصّہ ہوتا ہے۔ امّت کے غم میں نڈھال، ملکی محبّت سے سرشار، حب الوطنی کے علمبردار، خدائی فوجدار جب چاہیں، جسے چاہیں، غیر ملکی ایجنٹ قرار دیدیں، کفر کی سند ہاتھ میں تھما دیں، بد کرداری کی تہمت جاری کردیں یا حرام کی کمائی کا راگ الاپنا شروع کردیں۔ حب الوطنی کے چابک سے جتنی کھالیں انہوں نے اتاری ہیں، اور جتنے خواب ان کے ہاتھوں دفن ہوئے ہیں اتنے تو پہلے گروپ نے دیکھے بھی نہیں ہونگے۔ اس پارٹی کے لوگوں کو بڑے بڑے حکومتی عہدے، بیورو کریسی اور ان اداروں میں جگہ ملتی ہے جو سفید وسیاه کے مالک ہوتے ہیں اور بلیک اینڈ وائٹ زندگی گزار دیتے ہیں۔

تیسرا اور آخری گروپ، آہ کیا بات ہے ایسے لوگوں کی، خوابوں کا سوداگر ہوتا ہے۔ انہیں خواب دیکھنے کی پیدائشی بیماری ہوتی ہے۔ یہ سوتے ہیں تو خواب دیکھتے ہیں، جاگتے ہیں تو خواب دیکھتے ہیں، روتے ہیں تو خواب دیکھتے ہیں، ہنستے ہیں تو خواب دیکھتے ہیں۔ یہ لوگ مسئلے کا حل نکالتے ہیں، یہ خوابوں کے معمار ہوتے ہیں۔ اپنے خواب بھی بناتے ہیں اور دوسروں کے بھی، انہیں صرف مسئلے کے حل کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ کس نے کیا کیا، کب کیا، اور کیوں کیا، یہ تمام سوال لا یعنی ہوجاتے ہیں۔ مزاج کے اتنے ٹھنڈے ہوتے ہیں کے لوگ بے غیرت کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں، جنازے اٹھ رہے ہیں، گھر جل رہے ہیں مگر یہ چپ سادھے، سر جھکائے اپنے خوابوں کی آبیاری میں لگے رہتے ہیں۔ یہ سب فطری طور پر فقیر ہوتے ہیں، وہ نہیں جو بھیک مانگے بلکہ وہ جو مٹی میں ملے ہوئے ہوں، ویسے بھی بھکاری اور فقیر میں ایک ہی تو فرق ہے۔ بھکاری سب سے مانگتا ہے، فقیر ایک سے مانگتا ہے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ جو سنتا ہے، وہ چنتا ہے۔ ان لوگوں کی ساری عمر خواب بُنتے گزر جاتی ہے۔ یہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے، بس کہیں نہ کہیں، چپ چاپ، معاشرے میں اپنا حصّہ ڈال رہے ہوتے ہیں بغیر کسی توجہ، کسی شہرت، بدلے، انعام اور غرض کے، نہ زندہ ہوتے ہیں تو کوئی جانتا ہے، نہ مرنے پر چار بندے جنازہ پر جمع ہوپاتے ہیں۔ خوابوں کے یہ سوداگر، عادی ظالموں کے اس ملک میں روز زکوٰۃ دیتے ہیں۔ لوگوں کا ظلم، حسد، جبر اور جھوٹ سہہ کر۔

ان لوگوں کو شکوہ پارٹی والے بے وقوف کہتے ہیں اور کسی لائق نہیں سمجھتے اور جوابِ شکوہ والے جاہل کہتے ہیں کہ انہیں دنیا میں کیا ہورہا ہے اسکا کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ ڈسے جاتے ہیں، دھمکائے جاتے ہیں، مار دیے جاتے ہیں، ملک بدر ہوتے ہیں۔ یہ جنہیں بناتے ہیں وہی انہیں مٹی میں دفن کر دیتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہ ختم ہونے والے نہیں کیونکہ یہ تو بیج ہوتے ہے، جتنی بار بھی کاٹا جائے یہ پھر نکل جاتے ہیں، سر چھڑتے ہیں اور پھر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ ان کی تھالی میں لوگ چھید کردیتے ہیں، یہ سوچے بنا کہ کنویں میں تھوکنے والوں کی پیاس چِھن جایا کرتی ہے اور بھلا پیاس سے معتبر بھی کوئی چیز ہوتی ہے کیا؟

یہ لوگ اکیلے رہ جاتے ہیں، گونگے ہوجاتے ہیں کہ بات سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا، اپنے خوابوں کو بچانے کے لئے آنکھیں تک بیچ دیتے ہیں، منزل کو پانے کے لئے راستے بناتے چلے جاتے ہیں، کہ کوئی تو اٹھے گا، کوئی تو آئے گا، کوئی تو چلے گا۔ انہیں زندگی بھر منزل نہیں ملتی، منزل تو بیوقوفوں کو ملتی ہے، عقلمند آدمی ہمیشہ سفر میں رہتا ہے۔ ان لوگوں کے دل میں سکون اور دماغ میں ہمیشہ خِلجان رہتا ہے۔ خواب بیچتے بیچتے یہ ایک دن اپنے خوابوں کے ساتھ دفن ہوجاتے ہیں، مگر زندگی بھر کی کار گذاری میں سینکڑوں آنکھیں چھوڑ جاتے ہیں جو خواب دیکھنا جانتی ہیں۔
جس خاک سے پھوٹا ہے، اس خاک کی خوشبو

پہچان نہ پایا تو ہنر کس کے لئے تھا

اے مادر گیتی تیری حیرت بھی بجا ہے

تیرے ہی نہ کام آیا تو سر، کس کے لئے تھا

[poll id="650"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں