یوم جشن اور فتح دفاع پاکستان
بھارتی انتہا پسند حکومت کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی جس میں تشدد، جھوٹ اور انتشار نہ ہو۔
بھارتی انتہا پسند حکومت کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی جس میں تشدد، جھوٹ اور انتشار نہ ہو۔6 ستمبر1965ء کی جنگ میں پسپائی کے باوجود ''مودی سرکار'' کی جانب سے '' فتح کا جشن' منانے کا سرکاری اعلان کیا گیا۔
یہ اعلان بھارتی انتہا پسند جارحیت پسند ملک کے صدر پرنب مکھر جی نے دارالحکومت دہلی میں دہلی گیٹ پر فوجیوں کی یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بھارتی ہندو انتہا پسند حکومت اپنے مرنے والے فوجیوں کے لیے شہید کا لفظ استعمال کرتی ہے حالانکہَ اسلام میں مسلمانوں کے لیے '' اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کو شہید کے درجہ پر قرار دیا ہے۔''
اسلام کے علاوہ شہید کی درست تعریف کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں ہے اور پھر ہندو مذہب میں ' شہید' کا متبادل ہی موجود نہیں ہے، لیکن ڈھٹائی کے ساتھ اسلام کا سب سے بڑا درجہ 'شہادت' کو ہندو انتہا پسندوں سمیت دیگر غیر مسلم بھی اپنے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔
چھ ستمبر 65ء کا دن پاکستان کے لیے یوم دفاع تھا اور کامیاب یوم فتح منانے کا حق بھی پاکستان کو ہی حاصل ہے، کیونکہ اگر بھارت کو فتح حاصل ہوئی ہوتی تو آج بھارتی میجر جنرل نرنجن پرشاد کی جیپ اور ڈائری کی نمائش نہ ہوتی جو جی او سی 15 انڈین ڈویژن کے فرار کے بعد 18 بلوچ رجمنٹ نے واہگہ سیکٹر سے قبضے میں نہ لی ہوتی، پاکستان پر حملے میں بھارت نے دعوی کیا تھا کہ 'لاہور جم خانہ میں جشن فتح ' منائیں گے۔
ایک غیر ملکی نیوز چینل نے تو بھارت کے بڑے بول دعوے کو نشر بھی کر دیا تھا اور آج کل اسی حوالے سے پاکستان مخالف مضامین کو نمایاں طور شایع بھی کر رہا ہے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی سازش سے باز نہیں آ رہا۔ جنگ ستمبر میں پاک افواج کے کامیاب دفاع پر پاکستان کے عوام فخر کرتے ہیں اور پاکستانی عوام نے اپنے تمام اختلافات بھلا کر اپنے سے کئی گنا فوج کو مسل کر رکھ دیا تھا۔ سترہ دنوں تک جاری رہنے والی اس جنگ میں بھارت کو عبرت ناک شکست ہوئی تھی ۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان، دو قومی نظریے کے تحت انگریزوں اور ہندؤوں کی غلامی سے آزاد ہوئے تھے۔
تقسیم ہند کے بعد سے ہی باؤنڈری کمیشن کی جانبداری کی وجہ سے پاکستان کے کئی سرحدی علاقوں میں نوزائیدہ پاکستان کو کمزور کرنے قائد اعظم محمد علی جناح کو کرم خوردہ پاکستان دیا گیا۔ پاکستان، بھارت کے درمیان تمام مسائل میں مسئلہ کشمیر سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے، اسی مسئلے کی وجہ سے پاکستان چار جنگیں بھارت سے لڑ چکا ہے لیکن مسئلہ کشمیر کے علاوہ دوسرے سرحدی تنازعات بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں جس میں ایک Rann of Kutch کا مسئلہ تھا۔
بھارت کی شر انگیزیاں اور سرحد پار بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 8 اپریل1965ء میں سرحدی خلاف ورزیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں ، 6 ستمبر 1965ء کی رات بھارت نے پاکستان پر اعلان جنگ کیے بغیر حملہ کر دیا، پاکستان بے حملہ نہ صرف روک کر پسپا کر دیا بلکہ 1200 کلومیٹر بھارتی علاقہ پر قبضہ بھی کر لیا ۔ پاکستانی فضائیہ اور توپخانے کی لڑائی کے دوران پاکستانی دفاع نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کے زیرنگرانی جنگ بندی عمل میں آئی اور معاہدہ تاشقند کا اعلان ہوا، پاکستان نے بھارتی جارحیت کے بعد لیے گئے مفتوحہ علاقے واپس کر دیے ۔
لائبرئیری آف کانگریس کے ملکی مطالعہ جات، جو امریکی وفاقی تحقیقی ڈویژن نے، کے مطابق جنگ غیر نتیجہ خیز ثابت ہوئی، اگرچہ پاکستانی افواج کا بھارتی جارحیت کو روک لینا، اس دعوے کے تردید کے لیے کافی ہے۔ پاکستان بھارت کی جانب سے جارحانہ فکر سے بخوبی واقف تھا، جس کا نتیجہ بھارت کی جانب سے اچانک لاہور پر حملے کی صورت میں نکلا اور بھارت انتہا پسند اتنے پُر اعتماد تھے کہ اپنے فتح کا اعلان بھی کر دیا کہ لاہور جمخانہ میں فتح کا جشن منائیں گے لیکن بھارتی میجر جنرل نرنجن پرشاد کو اپنی جیپ اور ڈائری چھوڑ کر فرار ہونا پڑا، جو آج تک اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی افواج نے اپنی سرزمین کا کامیاب دفاع کیا اور بھارتی جارحیت کو سبوتاژ کیا۔
جون1965ء میں برٹش پرائم منسٹر Harold Wilson نے ٹریبونل بنایا تھا جس کے فیصلے کے مطابق 1968ء میں آیا، پاکستان کو رن آف کچھ (گجرات بھارت) کا 910 کلومیٹر کا علاقہ دے دیا گیا تھا۔ گو کہ پاکستان 9100 کے علاقے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ یہ فیصلہ بھارت کے لیے ناقابل برداشت جنگ کا اہم سبب بنا، دفاع پاکستان میں کشمیر یوں کو درگاہ حضرت بل کی بے حرمتی نے شدید مشتعل کر دیا تھا اور بھارتی پارلیمان کی جانب سے پیش کردہ قانون کی وجہ سے بھی کشمیر کے مسلمانوں میں شدید اضطراب پایا جاتا تھا۔ دفاع پاکستان میں، پاکستانی افواج نے بھارتی بزدلوں کو ایسا سبق دیا کہ بھارت کو دیگر ممالک سے مدد لینا پری۔ سوویت یونین کے وزیر اعظم الیکسی کوسیجن نے ثالثی کا کردار ادا کیا اور 4 جنوری 1966ء کو مستقل تصفیے کی کوشش کے طور پر تاشقند، ازبک سوویت اشتراکی جمہوریہ، سوویت یونین ( موجودہ ازبکستان) میں اجلاس منعقد کیا گیا۔
تاشقند کانفرنس کے نتیجے میں اقوام متحدہ، امریکا اور سوویت یونین کے دباؤ پر ہوئی اور پاکستان، بھارت نے اپنی سرحد اور کشمیر میں 1949ء کی جنگ لائن کو بحال کرنے پر راضی کر لیا۔ اس معاہدے پر ایوب خان کے خلاف عدم اطمینان اور احتجاجی مظاہرے ہوئے، جب کہ بھارتی وزیر اعظم بھارت کی شکست کی بنا پر اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ اگلے دن ہی دل کا دورہ پر جانے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ کیونکہ تاشقند معاہدے میں کشمیر میں کوئی جنگ کا معاہدہ یا گوریلا جنگ کی کوئی بھی شق شامل نہیں تھی جس پر اس معاہدے کو بھارت میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
بھارت اور اس کے حواری چاہے جتنا مکارانہ پروپیگنڈا کریں، لیکن دنیا نے دیکھا ہے کہ ایک لاکھ فوج کے مقابلے میں پاکستان کی ساٹھ ہزار افواج نے کئی گنا زیادہ ہتھیاروں والے اُس ملک کو شکست دی، جسے 1962ء میں چین بھی بُری طرح شکست دے چکا تھا۔ اپریل1965ء میں رن آف کچھ کے مقام پر ایک مختصر جنگ بھی لڑی گئی، جس طرح آج کل بھارتی فوج کے سربراہ نے نام نہاد جشن فتح کی ایک تقریب میں دوران خطاب چھوٹی جنگوں کے لیے دھمکی دی۔
بھارت اتنا تو سمجھ چکا تھا کہ پاکستان کو زمینی محاذ پر شکست دینا ناممکن ہے اس لیے اس نے مشرقی پاکستان میں اپنے سازشوں کو تیز کر دیا اور وہی حالات پیدا کر دیے جو آج بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ہیں۔ بھارت میں چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کی جانب سے، یا پھر خود بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی اپنے ہی ملک میں اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کا ملبہ ہر بار پاکستان پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی جاتی رہی، لیکن بھارتی انتہا پسند حکومت کا وہی میڈیا جو جنگ کو ہوا دیتا ہے، اپنی پھیلائی ہوئی سازش کی ناکامی کا ذمے دار بھی بن جاتا ہے۔
گورداسپور واقعہ، سمجھوتہ ایکسپریس، قصاب کیس، پارلیمنٹ حملہ کیس کے علاوہ مہاتما گاندھی، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کے قتل کا ذمے دار بھی پاکستان کو سمجھنے سے عار نہیں سمجھتا، اس لیے آپریشن جبرالٹر ہو یا آپریشن کارگل، سیاچن یا سرحدوں پر مسلسل گولہ باری یا پاکستان میں ملک دشمن عناصر کی دہشت گرد کاروائیوں کے لیے سرپرستی سمیت ہر معاملے میں بھارت کا خود معصوم بن جانا اور پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرانا، مودی سرکار کی سرشت اور بھارتی تاریخ کا حصہ ہے۔ جشن فتح کے نام پر بھارت کا 28 اگست سے دو ہفتے تک تقریبات کا آغاز بھارت کی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے انھیں حقیقت سے دور لے جانا ہے۔ اس سازش میں جنگ ستمبر میں بھارت کی فتح کے ترانے گانے والے بھی شامل ہیں تو بھارت نواز، پاکستان میں لابی بھی کسی سے کم نہیں، جو 1947ء سے 2015ء تک مسلسل دفاع پاکستان پر پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی سے باز نہیں آ رہے۔
آج بھی ملک کے چپے چپے میں بھارت کے پھیلائے ہوئے دہشتگردوں کے خلاف عسکری طاقت بے پناہ قربانیاں دی رہی ہیں۔ لیکن جہاں جہاں مفاد پرست سیاست دانوں اور ان کے حواریوں پر ضرب غصب پڑتی ہے تو وہ بلبلا اٹھتے ہیں اور پاک فوج کے خلاف غیر ملکی نشریاتی اداروں کی مدد سے پروپیگنڈا کرتے نظر آتے ہیں۔
نام نہاد دانشوروں کو پاک فوج کی قربانیاں پر لکھنے پر تکلیف ہوتی ہے اور سوشل میڈیا میں نوجوان اذہان میں پاکستان کی اساس اور 68 سالہ حالت جنگ کو خطاوار پاکستانی افواج کو ٹھہرانے میں ''انوکھا انکشاف'' خوشی محسوس کرتے ہیں بصورت دیگر پاکستان کے کامیاب دفاع پر بھارت کے اس پروپیگنڈے کی حمایت کرتے ہیں کہ پاکستان بہت جلد اکھنڈ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ جمہوریت کے حامی، آمریت کے خلاف ہوتے ہیں لیکن اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔