اپنی ذمے داری محسوس کریں
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ہمارا دین اسلام زندگی کے ہر شعبے میں جامع رہنمائی عطا کرتا ہے
قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے اور سونے اگلنے والی زرخیز زمین موجود ہونے کے باوجود، پاکستانی قوم غربت کا شکار ہے۔ اس قوم کے پاس دریا ہیں۔ لیکن یہ قوم پانی کی کمی کا شکار ہے۔ پانی سے انتہائی سستی بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہونے کے باوجود یہ قوم تیل امپورٹ کر کے تھرمل بجلی پر انحصار کرتی ہے۔ اس قوم کے پاس نظام مملکت و حکومت میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہے۔
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ہمارا دین اسلام زندگی کے ہر شعبے میں جامع رہنمائی عطا کرتا ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو سچ بولنے کی تلقین کرتا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن جھوٹ بولنے والا نہیں ہو سکتا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جھوٹ تو ہمارے اردگرد پوری طرح چھایا ہوا ہے۔ رہا سچ۔۔۔۔تو اس کی جھلک ایسے دکھائی دیتی ہے، جیسے برسات کی راتوں میں چاند کچھ دیر کے لیے بادلوں کی اوٹ سے نکل کر اجالا پھیلا دے۔
اس کے بعد پھر وہی تاریکی جھوٹ کی تاریکی۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جھوٹ بولنے والے پر اعتماد کرتے ہیں اور سچ بولنے والے کے بارے میں شکوک اور بدگمانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دین ہمیں اپنے وجود، اپنے گھر، اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ ہم اس ہدایت پر کس طرح عمل کرتے ہیں اس کا مشاہدہ، گلیوں، محلوں میں کچرے کے ڈھیروں، ابلتے ہوئے گٹروں، ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور دیگر مناظر سے ہو سکتا ہے۔
معاشرے کو استحکام بخشنے میں سب سے اہم کردار عدل وانصاف کا ہے۔ پاکستان میں حق دار کو اس کا حق دلانے اور انصاف کی فراہمی کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ہمارے معاشرے کا یہ حال کیوں ہے؟ اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ یہاں کے معاملات کس طرح سدھریں گے؟ کون سدھارے گا۔ بہت سے لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی نجات دہندہ آئے گا وہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کرے گا جس سے ہمارے مسائل راتوں رات حل ہو جائیں گے۔
کاش کہ ایسا ہو سکتا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہو گا کیوں؟ کیونکہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کی سنت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ایک آیت کا ترجمہ ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (سورۃ نجم۔آیت 39-41)ہمارے معاشرے کے حالات بھی قوم کی اجتماعی کوشش سے ہی تبدیل ہوں گے۔ جب ہم اجتماعی طور پر بھلائی کی طرف بڑھیں گے تو قدرت ہماری مدد کرے گی۔ راستے کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں لیکن راستہ بہرحال طے کرنا ہو گا۔
راستہ کتنی سہولت اور تیز رفتاری سے طے ہوا اس کا تعلق بھی ارادہ اور کوشش سے ہے۔اصلاح احوال کے لیے کیا ہمیں نئے قوانین بنانا ہوں گے؟ جہاں تک زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق قوانین کی موجودگی کا تعلق ہے اس میں ہم دنیا کی کسی بھی مہذب اور ترقی یافتہ قوم سے پیچھے نہیں۔ ہمارا مسئلہ قانون کی غیر موجودگی نہیں۔ ہمارا مسئلہ قانون کا موثر اور منصفانہ نفاذ ہے۔ قوانین بنانا، ان کی تشریح کرنا اور انھیں نافذ کرنا پارلیمنٹ، عدلیہ اور حکومت کی ذمے داریاں ہیں۔
قوانین کی موجودگی کسی بھی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، لیکن کسی بھی معاشرے میں اصلاح کا عمل صرف قوانین کے ذریعے ہی ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ملاوٹ کا ارتکاب کرنے والے شخص کے لیے کسی ملک کا قانون سزا کا تعین کر دیتا ہے کوئی شخص وہاں ملاوٹ کا جرم کرے گا تو اس سزا کا حقدار ٹھہرے گا۔ لیکن تمام افراد معاشرہ ملاوٹ کے فعل سے نفرت کرنے لگیں اور معاشرتی دباؤ کے باعث معاشرہ میں ملاوٹ کا تصور بھی نہ ہو۔ یہ کام محض قانون سازی سے نہیں ہو سکتا۔
برائیوں سے نفرت اور اچھائیوں سے رغبت کے لیے اصلاح و تزکیہ کے ایسے عمل کی ضرورت ہے جس کے اثرات معاشرے کے تمام طبقات اور تمام سطحوں تک پھیل جائیں۔ یہ کام اپنے معیار اور حجم کے اعتبار سے بہت بڑا دکھائی دیتا ہے لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ حکمران اور عوام کے درمیان قربت نہیں ہے۔ بات ہے بھی صحیح۔ کیا کوئی سیکریٹری۔ جنرل، وزیر، صدر اس تکلیف و اذیت سے ذاتی طور پر واقف ہیں جو بسوں میں لٹک کر سفر کرنے والوں کو ہوتی ہے؟ کیا ایوان صدر، ایوان وزیراعظم،گورنر ہاؤس کے مکینوں کو لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے؟ کیا حکمران طبقے کے لوگ اس تکلیف سے واقف ہیں جو کروڑوں لوگوں کو پانی کے حصول کے لیے اٹھانا پڑتی ہے۔ ایک بار صرف عوام کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ حکومت کرنے والا بھی عوام میں سے ہے، ان کی تکالیف سے واقف ہے اور ازالے کے لیے خلوص دل سے کوشاں ہے۔
اپنے معاشرے کی خرابیاں دورکرنے اور ایک منظم و مستحکم معاشرے کے قیام کے لیے اصلاح کا عمل بالائی طبقات سے شروع کرنا ہو گا۔ صحیح معنوں میں قانون کا موثر نفاذ اسی وقت ہو گا جب ہر شخص سے خواہ اثر و رسوخ کا حامل یا عام فرد ہو۔ یکساں طور سے قانون پر عمل درآمد کروایا جائے۔ کمزوروں کو پکڑ لینے اور طاقتوروں کو چھوڑ دینے سے معاشرے میں سدھار کبھی نہیں آ سکتا بلکہ اس روش پر عمل پیرا معاشرے تو اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔