اردو زبان نئے مرحلہ میں

ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی۔ محترم چیف جسٹس جواد خواجہ کے منزل مقصود پر آتے آتے زمانہ بخیل ہو گیا


Intezar Hussain September 11, 2015
[email protected]

ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی۔ محترم چیف جسٹس جواد خواجہ کے منزل مقصود پر آتے آتے زمانہ بخیل ہو گیا۔ وہ جب منصف اعلیٰ کی کرسی پر رونق افروز ہوئے تو اس کرسی نشینی کو کتنے دن میسر آئے۔ صرف تئیس دن ع

ورنہ عالم کو زمانے نے دیا کیا کیا کچھ

مگر فراق گورکھپوری نے چار روزہ زندگی کے محاورے کو اپنی شعری بصیرت سے کتنی دست بخش دی ہے ؎

یہ مانا زندگی ہے چار دن کی
بہت ہوتے ہیں یارو چار دن بھی

تو واقعی وہ جو چیف جسٹس بن کر اس رنگ سے آئے تھے کہ جھونکا ہوا کا ادھر آیا ادھر گیا۔ وہ جھونکا کتنے تاریخی فیصلوں سے لد پھند کر آیا تھا۔ ایسے تاریخی فیصلے' بس یوں سمجھو کہ ع

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

تئیس روزہ انصاف پروری کا آغاز بھی خوب ہوا۔ انجام بھی خوب ہوا۔ پہلا فیصلہ۔ اس مظلوم پرندے کو جسے تلہور کہتے ہیں اسے شکار کرنے کی یارو اغیار کو کھلی چھٹی تھی اب کیا ہوا۔ کھلی چھٹی یک دم بند۔ شکاریوں کو ملے ہوئے سارے اجازت نامے' سارے لائسنس یک قلم کالعدم۔

چلتے چلتے آخری فیصلہ۔ عدالتی حکم کہ اردو کو قومی اور دفتری زبان کے طور پر فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ فیڈرل سطح پر بھی۔ صوبائی سطح پر بھی۔ کہاں التوا کا یہ عالم کہ آج نہیں کل۔ کل نہیں پرسوں۔ پھر وہی کل۔ اور پھر کل۔ اور پھر کل۔ کہاں نفاذ کا حکم یک دم۔ کل کس نے دیکھا ہے۔ جو ہونا ہے آج ہی ہو جائے۔

حکم تو صادر ہو گیا۔ باقی تیل دیکھو' تیل کی دھار دیکھو۔ اس کے نفاذ میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں۔ بہر حال عدالت عالیہ نے تو دو ٹوک فیصلہ سنا دیا ع

اور اس پر بھی نہ سمجھے تو تو تجھ بت کو خدا سمجھے

مگر لیجیے اسی کے ساتھ ایک شگوفہ اور پھوٹا۔ بڑی باریک ہیں یاروں کی چالیں۔ دوسرے تیسرے دن ہم نے ایکسپریس کے رپورٹر کی لائی ہوئی یہ خبر اخبار میں پڑھی کہ قومی اسمبلی نے ترنت اردو کو قومی دفتری زبان بنانے کے سلسلہ میں قدم اٹھایا۔ اردو لغت بورڈ سے فرمائش کی کہ بورڈ کی مرتب کردہ اردو لغت کی ساری جلدیں فوراً سے پیش تر فراہم کی جائیں۔

اب گیند اردو لغت بورڈ کے پالے میں تھی۔ بورڈ کی طرف سے معذرت موصول ہوئی کہ بورڈ کو لغت کا پورا سیٹ مہیا کرنے سے معذور سمجھا جائے۔ پورا سیٹ بائیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ مگر اس وقت یہ ساری جلدیں دفتر میں موجود نہیں ہیں۔ پندرہ جلدیں موجود تھیں۔ وہ بھجوا دی گئیں۔

اگر لغت کی جلدیں ختم ہو گئی ہیں تو دوبارہ چھپوائی کیوں نہیں گئیں۔ دوسرے اڈیشن کی اشاعت میں کیا قباحت تھی۔ قباحت سی قباحت۔ پہلے تو مرکزی حکومت یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ جب لغت مرتب ہو کر شایع ہو گئی تو اب یہ بورڈ کیوں قائم ہے۔ کام ختم ہوا۔ بورڈ کی چھٹی ہو جانی چاہیے یہ علمی کاروبار ہے۔ اس کی اپنی باریکیاں ہیں۔ ان باریکیوں کو افسروں' وزیروں' امیروں کی بلا جانے۔ پتہ نہیں کن مشکلوں سے وہ اس راہ پر آئے کہ اچھا بورڈ قائم رہے۔ مگر کیا ضرور ہے کہ زبان کا کوئی عالم فاضل یہاں آ کر بورڈ کی سربراہی کرے۔ کسی کو بھی یہاں کرسی پہ بٹھایا جا سکتا ہے۔ کوئی انجینئر کوئی ماہر تعمیرات۔ ارے کوئی کالا چور ہو وہ بھی کرسی پر آ کر بیٹھ جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ سنا ہے کہ مزار قائد کے کوئی انجینئر ہیں جو لغت بورڈ کے سربراہ بنے ہوئے ہیں۔ ارے جب ان کی سمجھ میں یہ بات آئے گی کہ ان بائیس جلدوں کا نیا ایڈیشن لایا جائے۔ تب ہی تو وہ خود سمجھنے کے بعد متعلقہ حکام کو یا متعلقہ وزیر کو سمجھا پائیں گے۔ اور پھر لغت کا دوسرا ایڈیشن شایع ہو گا۔ انجینئر کو لغت کے کاروبار کو سمجھانا مشکل کام ہے۔

مطلب یہ کہ اب جس مرحلہ میں یہ زبان داخل ہوئی ہے اس کے اپنے بھید بھاؤ ہیں۔ سرکاری دفتری بھید بھاؤ۔ آج کی خبر میں ہم نے پڑھا کہ چیف جسٹس خواجہ جواد کے اعزاز میں جو رخصتی کی تقریب منعقد ہوئی اس میں رخصت ہونے والے محترم چیف جسٹس نے اور تشریف لانے والے چیف جسٹس محترم انور ظہیر جمالی نے یعنی کہ دونوں ہی بزرگوں نے صاف ستھری بے عیب اردو میں تقریریں کیں۔ مطلب یہ کہ یہ کوئی ہنگامی اقدام نہیں تھا۔ سپریم کورٹ میں بیٹھی معزز شخصیتیں کتنے دنوں سے اس کے لیے تیاریاں کر رہی تھیں اور خود کو بھی اس طرح تیار کر رہی تھیں کہ خود ان پر جو یہ انقلاب لا رہے ہیں ان کی زبان و بیان پر انگشت نمائی نہ کر سکے کہ یعنی دوسروں کو کہہ رہے ہو خود بھی تو ویسا بن کر دکھاؤ۔ سو اس باب میں اچھی مثال قائم کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں