کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں

مگر کب تک لاوا پھٹنے سے قبل کچھ تو ذرا سا، تھوڑا سا عوامی بہبود کے لیے بھی ہونا چاہیے


نجمہ عالم September 11, 2015
[email protected]

KARACHI: ہمارا ملک دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔ جتنی دولت ہمارے یہاں سے ممالک غیر روانہ کی گئی، کتنی بدعنوانی لاکھوں ،کروڑوں سے کم تو ہرگز نہیں ،جو ملک کے مختلف تقریباً ہر سرکاری و غیر سرکاری اداروں، محکموں میں ہوچکی (اور اب بھی جاری ہے) کتنے ارب سمندر برد ہوئے کس کس کے ذریعے کس کس طرح باہر بھیجے گئے، پکڑی ایک ایان گئیں، مگر یہ بھی ابتدائے عشق۔۔۔۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا کے مصداق پکڑا جانا پھر ثابت ہو جانا اورکچھ وصول ہوجانا مختلف باتیں ہیں۔

دروغ برگردن راوی ایک دوکشتیاں اربوں روپوں (ڈالروں) سے بھری کوسٹ گارڈز کے ہتھے بھی چڑھیں، اب ان کا کیا بنا؟ جس ملک کے اہم ترین عہدوں پر (ماضی اور حال میں) فائز حضرات دبئی، یورپ، امریکا کچھ اور ممالک میں جائیدادیں بنا رہے ہوں۔ اپنی اولاد کے لیے ایک محل چلیے محل نہ سہی ایک پرآسائش اپارٹمنٹ، شاپنگ مال یا کم ازکم ایک سپر اسٹور خرید رہے ہوں تو خود سوچیے کہ وہ ملک دنیا کا امیر ترین ہوگا کہ نہیں؟ جتنا روپیہ ملک سے باہر مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے جاچکا ہے، جتنا اداروں اور شعبوں سے لوٹا گیا، جو پکڑا گیا، جو سمندر میں ڈوب گیا یا جس کو پکڑے جانے کے خوف سے نذرآتش کردیا گیا، اب اس سب کو جمع کیجیے کتنی دولت بنتی ہے؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ موصوفہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھی ہیں کہ پاکستان جیسے ملک کو دنیا کا امیر ترین ملک قرار دے رہی ہیں۔

جس ملک کی تقریباً 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، جی ہاں یہی تو وہ ثبوت ہے جو ہمیں فاتر العقل کے بجائے ''دانشور'' قرار دے سکتا ہے۔ جناب کیا آپ انکار کریں گے کہ محکمہ صحت، تعلیم، خارجہ، بلڈنگ اتھارٹی کا شعبہ، پل سڑکیں بنانے کے ذمے دار اداروں اور تو اور قیدیوں کی غذا، علاج تک میں خرد برد۔ حتیٰ کہ حج ڈسپنسریوں میں بھی زائد المیعاد ادویہ دے کر صحیح المیعاد دواؤں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔

یہ سب کچھ ہم سے زیادہ آپ کی نظر سے روز اخبارات اور برقی ذرایع ابلاغ میں آپ کی نظر و سماعت سے ٹکرایا ہوگا۔ چلیے محض ایک ہفتے کے اخبارات اٹھائیے اور صرف بدعنوانی کی خبروں کو نشان زد کریے(یہاں اگر میں تاریخ وار چند سرخیاں ہی درج کروں تو کاغذ اور وقت کا زیاں ہی ہوگا) یہ سب خبریں نہ صرف ذرایع ابلاغ پر آ چکی بلکہ روز آ رہی ہیں۔ بڑے بڑے محکمے اور اداروں کے علاوہ اب تک بظاہر غیر اہم شعبوں تک میں کروڑوں کے ہیرپھیر کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بن رہی ہیں۔

چلیے یہ سب حقائق آپ کو معلوم ہیں تو اب روز کی خبروں سے کروڑوں، اربوں روپوں نہیں بلکہ ڈالر، پاؤنڈ اور یورو کو جمع کرنا شروع کیجیے یہ کام زبانی یا انگلیوں پر مشکل ہوگا کیلکولیٹر کی مدد سے کیجیے جو حاصل جمع آئے وہ دولت اتنی ہی ہوگی جتنی کسی امیر ترین ملک کے کل اثاثے۔ رہ گئی یہ بات کہ ہمارے یہاں لوگ کیوں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں؟ تو یہ تو ہونا ہی ہے کہ اتنی دولت ہو مگر وہ ملکی ترقی اور افراد کی بحالی کے بجائے وی آئی پیز کے لیے ہو ملکی ترقی کے بجائے ممالک غیر کے بینکوں میں جمع ہو۔

آرمی چیف نے دہشت گردی کے خلاف جو آپریشن شروع کیا تھا اس میں طرح طرح کی پرتیں کھلتی چلی گئیں۔ دہشت گردوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا؟ کس نے فراہم کیا؟ کن مقاصد کے لیے فراہم کیا؟ وہ سہولت کار کون ہیں؟ جو دہشت گردوں کو رہائش، ضروریات زندگی کے علاوہ اسلحہ تک فراہم کر رہے ہیں۔ اب تک جو بھی اس الزام کی زد میں آئے وہ کوئی معمولی فرد تو ہے نہیں۔ سب بڑی بڑی شخصیات ہی ہیں۔

کہنے والوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افراد نے ملکی خزانے میں جو لوٹ مار مچائی ہے اس کا تصور تو ایک عام آدمی کر ہی نہیں سکتا۔ اور بھلا کر بھی کیسے سکتا ہے جس شخص کو سو روپے یا ہزار روپے خواب میں بھی نظر نہ آتے ہوں وہ بھلا اربوں کے ہیر پھیر میں کیسے ملوث ہوسکتا ہے؟ کہتے ہیں کہ روپے کو روپیہ ہی کھینچتا ہے تو جس کے پاس پہلے ہی کچھ ہوگا وہی مزید کے لیے ہاتھ پاؤں مارے گا۔ لہٰذا ایسے افراد ایسے ادارے، ایسی جماعتیں جو خود چندے اور خیرات سے اپنا کام چلا رہی ہوں وہ کیا کسی کی سہولت کار بنیں گی۔

سہولت تو لوٹ مار کرنے والوں کو وہ فراہم کریں گے جن کے پاس دینے کو کچھ ہوگا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بلا وجہ اور وہ بھی دہشت گردوں کو دیں کیوں؟ اپنے پاس ہی کیوں نہ رکھیں تو جناب وہ اتنے بے وقوف بھی نہیں، روپیہ پھینک تماشا دیکھ۔ کے مصداق وہ اس روپے سے جو مزید دولت حاصل کر رہے ہیں وہ کبھی ماڈل ایان علی کے ذریعے کبھی کشتیوں کے ذریعے کبھی مختلف راز دار و غیر ملکی دوستوں کے اکاؤنٹس میں اور کبھی ہنڈی کے ذریعے ملک سے باہر بھیجی جا رہی ہے وہ صوبائی حکومت ہو یا وفاقی کسی ترقیاتی منصوبے کا اعلان کردے بس صاحب لوگوں کی تو لاٹری نکل آتی ہے 25-20 کروڑ کا منصوبہ، 45-40ارب کا ہوجائے گا۔

جس کا ٹھیکہ اپنے ہی بھائی بھتیجوں کو ملے گا اور جس دور حکومت میں شروع ہوگا اس میں کچھ کھدائی وغیرہ سے آگے نہ بڑھ سکے گا، اب آنے والی حکومت پھر نئے عزم سے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کرے گی، گزشتہ بجٹ تو جانے والی حکومت کھا کر جاچکی لہٰذا نئی حکومت اعلان کرکے کام کا ازسر نو آغاز کرے گی مگر مزے کی بات کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی لاگت میں مزید اضافہ ہوچکا ہوگا۔ اب اس دور میں بھی کام پورا ہونا حالات، سیاسی استحکام اور عالمی منڈی کی صورت حال پر منحصر ہے۔

چلیے یہ سب تو ہوا اور ہوتا رہے گا مگر اب تو دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ملک کو دیوالیہ کرنے والوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی ہو رہی ہے کئی افراد گرفت میں آچکے ہیں۔

مگر غربت زدہ قوم کو یہ پوچھنے کا حق تو ہونا چاہیے کہ اب تک کتنا مال وصول ہوا؟ اگر کچھ ہوگیا ہے اور باقی کے وصول ہونے کی قوی امید ہے تو ہمیں اس کے ثمرات کب ملنا شروع ہوں گے۔ یا یہ سب ایک جیب سے نکال کر دوسری جیب میں چلا جائے گا؟ ہم نے ذرا پہلے لکھا تھا کہ تمام بڑے بڑے اداروں اور محکموں کے علاوہ بظاہر غیر اہم اور معمولی شعبوں تک میں بدعنوانیوں نے قدم جما لیے ہیں۔سوچیے کہ ایک عام شہری اس ملک میں کس طرح جی رہا ہے؟ کن حالات میں جی رہا ہے۔

مگر کب تک لاوا پھٹنے سے قبل کچھ تو ذرا سا، تھوڑا سا عوامی بہبود کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ سابقہ حالات سے کچھ سبق لینا دانشمندانہ عمل ہوگا۔ عوام تو بے چارے یوں جی رہے ہیں جیسے ''ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں