1965ء کا جوش و جذبہ

عین اس موقع پر 12 ڈویژن کو جی او سی 7ڈویژن سے تبدیل کرنے کا فیصلہ جو پہلے ہی کیا جا چکا تھا


اکرام سہگل September 12, 2015

1965ء میں آپریشن جبرالٹر کے نام سے جو کارروائی شروع کی گئی تھی اس میں یہ غفلت ہوئی کہ بھارت کی طرف سے وسیع تر متوقع جوابی کارروائی کو پیش نظر نہ رکھا گیا اور سوچ اسی نکتہ پر مرتکز رہی کہ تصادم صرف کشمیر تک محدود رہے گیا۔ اگرچہ مئی کے مہینے میں رن آف کچھ کی جھڑپ کے بعد ہماری 7 ڈویژن وغیرہ اپنی امن کے زمانے کی پوزیشن سے حرکت کر چکی تھیں لیکن ہماری عسکری قیادت اسی خام خیالی میں کھوئی رہی کہ جنگ صرف کنٹرول لائن تک محدود رہے گی چنانچہ وہ مکمل جنگ کی تیاری کرنے میں ناکام رہے۔

ایک مرتبہ آپریشن ''گرینڈ سلام'' شروع ہو گیا جس کا مقصد کشمیر میں بھارتی فوج کی طاقت کو تہ و بالا کرنا تھا لیکن اس سلسلے میں اس بات کو بالکل ہی فراموش کر دیا گیا کہ جوابی کارروائی بین الاقوامی بارڈر پر بھی ہو سکتی ہے۔ جی او سی 12ڈویژن کی کمان میں 7 ڈویژن کے یونٹوں نے دریائے توی عبور کر کے چھمب اور جوڑیاں پر 5 ستمبر سے پہلے ہی قبضہ کر لیا تھا۔

عین اس موقع پر 12 ڈویژن کو جی او سی 7ڈویژن سے تبدیل کرنے کا فیصلہ جو پہلے ہی کیا جا چکا تھا نافذ العمل کر دیا گیا جس کی وجہ سے ہماری کارروائی میں جو تاخیر واقع ہوئی دشمن نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی فوجی پوزیشنوں پر کمک بھیج دی جس کے نتیجے میں انھیں اکھنور کے اہم پل کی حفاظت کا موقعہ مل گیا۔

50 سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک اس بات پر حیرت ہے کہ 6 ستمبر 1965ء کو بھارت نے بڑی حیرت انگیز زمینی کارروائی کی جن کا مقصد لاہور پر قبضہ کر کے سیالکوٹ سے گزرتے ہوئے گوجرانوالہ جانے والی سڑک کو کاٹنا تھا۔ یہ منصوبہ بندی یقیناً بڑی ذہانت کی آئینہ دار تھی تاہم بھارتی فوج کو پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کے اسقدر شدید ردعمل کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں تھا۔ دوسری طرف بھارتی فوج پر جو جوابی وار کیا گیا تو وہ اپنی بہت سی چوکیاں چھوڑ کر پسپا ہو گئے۔6 ستمبر 1965ء نے جنگ کی حرکیات (dynamics)ہی تبدیل کر کے رکھ دیں۔ یونٹوں اور فارمیشنوں کی جی ایچ کیو نے افراتفری میں ازسرنو تعیناتیاں کیں۔

سیالکوٹ نے جنگ عظیم دوم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ کا مشاہدہ کیا۔ بھارت کے ایک بکتر بند ڈویژن کو ایک اضافی بکتر بند بریگیڈ کی معاونت کے باوجود وہ چونڈہ میں ہماری نہایت مہین دفاعی لائنوں کو بھی نہ توڑا جا سکا۔ ہمارا آرمرڈ ڈویژن بی آر بی نہر کے اس پار جا کر کھیم کرن کے محاذ کے قریب نتھو والا سائفن پر پہنچ گیا جو کہ قصور کے نزدیک ہے۔

لیکن یہاں پر ایک حادثہ بھی ہو گیا جب ایک ٹینک پھسل کر اس پل پر جا گرا جسے ہمارے اگلے مورچوں پر موجود فوجی انجینئروں نے تعمیر کیا تھا۔ اس پل کو قدرے نقصان پہنچا۔ ہماری یہ حالت تھی کہ ہمارے بکتر بند دستے کو نہ پوری لاجسٹکس میسر تھیں اور نہ وافر بارود، نہ کافی پٹرول اور نہ ہی کوئی کمک پہنچ رہی تھی جس کی وجہ پیشرفت جاری نہ رکھی جا سکی۔ ہمیں صحرائی علاقے میں دشمن کے کافی بڑے رقبے پر قبضہ ہمارے انفنٹری یونٹس کی جانبازی اور شجاعت کے باعث ممکن ہوا۔

اس کے ساتھ ہی فضا میں پاکستان ایئر فورس نے تعداد میں کم طیاروں کے باوجود جس بہادری اور انفرادی شجاعت کی مثالیں قائم کرتے ہوئے دشمن کی فضائیہ پر حملے کیے وہ ورطۂ حیرت میں مبتلا کرنے والی تھیں۔ بہادری اور جانبازی کی انفرادی معرکہ آرائیاں کمال درجہ کی تھیں۔ صرف 48 گھنٹوں کے اندر ہی پی اے ایف نے ہواؤں پر اپنی بالادستی حاصل کر لی۔ پاکستان بحریہ جو کہ اپنے حجم میں بہت چھوٹی تھی وہ بھی حملے کے لیے تیار ہو گئی اور جنگ کے 17 دنوں میں نہایت بہادری سے دوارکا کی بندر گاہ پر حملہ کر کے بھارتی بحریہ کے بہت سے جہاز غرق کر دیے۔

آخر بھارت نے 1965ء میں ہمارے مشرقی بازو پر کیوں حملہ نہیں کیا؟ مشرقی پاکستان میں ہمارے صرف 4انفنٹری بریگیڈ موجود تھے کیونکہ بعض افراد نے یہ شوشہ چھوڑ رکھا تھا کہ مشرقی پاکستان کے دفاع کی ذمے داری بھی مغربی بازو پر ہے۔ وہاں پر 14 ڈویژن کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا۔ جب ہمارا بہادر ایئر فورس اسکواڈرن حرکت میں آیا تو بھارت کے ہوائی حملے بند ہو گئے۔ تاشقند معاہدہ جنوری 1966ء کے اوائل میں ہوا جب کہ فائر بندی کے بعد بھی تاشقند معاہدہ ہونے تک توپ خانوں کے فائر کا تبادلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔

یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور ہماری مسلح افواج کے تین As یعنی ایئر فورس آرٹلری اور آرمر نے 1965ء میں پاکستان کو بچا لیا۔ یہ ہمارے نوجوان افسروں کی شجاعت، جوش و جذبہ تھا جس نے بھارت کے اتنے بھرپور حملوں کو سرحد پر روکے رکھا۔

اگر ہمارے انفنٹری کے بہادر اور جری جوان اسقدر استقامت کا مظاہرہ نہ کرتے تو بھارتی فوج کئی مقامات پر ان کی دفاعی لائن کو توڑ دیتی۔ اگرچہ ہمارے پاس جغرافیائی گہرائی نہیں تھی اس کے باوجود دشمن ہماری دفاعی لائن کو نہ توڑ سکا۔ بصورت دیگر پاکستان کے لیے حقیقی نقصان کا احتمال ہو سکتا تھا۔ اب 50 سال بعد ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت بھی میسر ہے جس کی بنا پر بھارتی مسلح افواج کی کثیر تعداد اور ہتھیاروں کے انبار کا بھی نہایت کامیابی سے مقابلہ بطریق احسن ممکن ہے۔

جوںجوں جنگ پھیلتی رہی بھارتی جرنیل ہمارے عارضی انتظامات کے باوجود سراسیمگی میں مبتلا ہو گئے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارا انتظامی فقدان آج بھی قائم ہے جس کے نتیجے میں بسا اوقات خاصا ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔ لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر کے بحران سے نمٹنے کے لیے ہمارے فوجی یونٹوں کو جی ٹی روڈ پر اوپر نیچے جانا پڑا۔ تاہم حالات ایسے تھے کہ جی ٹی روڈ پر معرکہ آرائیوں میں مصروف جنگ میں حقیقی کردار ادا کرنے سے قاصر رہے۔

میں 1965ء کی جنگ کا عینی شاہد ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا کیونکہ 1965ء کے وہ 17 دن میں نے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں بسر کیے جب کہ 32 ویں اور 33 ویں پی ایم اے لانگ کورس نے پوری شان و شوکت سے گریجوایشن پریڈ میں حصہ لیا جس کو 11 ستمبر کے دن پاک ایئر فورس کا فضائی تحفظ میسر تھا۔

یہاں سے کامیاب ہونے والے کیڈٹس کو فوری طور پر ٹرکوں پر بٹھا کر محاذ جنگ کی طرف بھیج دیا گیا جب کہ 34 ویں' 35 ویں اور 36 ویں پی ایم اے کے کورس کے کیڈٹس سڑک کے دونوں جانب کھڑے انھیں الوداع کر رہے تھے جن کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ وہ کیوں ان میں شامل نہیں ہو سکے۔ جنہوں نے گریجویشن کر لی تھی ان میں سے درجنوں کو ان 12دنوں کے دوران شہادت نصیب ہوئی جب کہ 23 ستمبر کو فائر بندی کا اعلان کر دیا گیا۔

نریندر مودی نے پاکستان میں یکجہتی پیدا کرنے کے لیے مثالی کردار ادا کیا ہے۔ بھارتی حکمران اپنے عوام میں جنگی جنون پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں تا کہ وہ ممکنہ جنگ کے لیے تیار ہو جائیں اور بڑھتے ہوئے داخلی مسائل سے ان کی توجہ ہٹ جائے۔ گویا جلد یا بدیر جنگ کا امکان موجود ہے۔

اس بات کو کوئی نہیں بھول سکتا کہ بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اگست 1965ء کے وسط میں کھلے عام یہ دھمکی دی تھی کہ بھارت اپنی پسند اور اپنی مرضی کا جنگی محاذ جب چاہے کھول لے گا۔ لیکن ہم اس کی نیت کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر رہے۔ بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل دلبر سنگھ نے پاکستان کو مختصر اور محدود جنگ کی دھمکی دی۔

1965ء کے برعکس اب ہمیں بھارت کی دھمکیوں کو نظر انداز کرنا نہیں چاہیے بلکہ اپنی تیاری کو مکمل رکھنا چاہیے۔ کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر کوئی جنونی شخص اس پر تلا ہوا ہے تب اسے پورا مزہ چکھا دینا چاہیے اور روایتی غیر روایتی ہتھیاروں کا ٹھیک ٹھیک استعمال کرنا چاہیے۔ کیا بھارتی عوام ان اقتصادی کامیابیوں کو منہدم ہوتا دیکھنے کے لیے تیار ہیں جو ان کے مذہبی جنونی اور متعصب سیاسی رہنما اپنی انا کی تسکین کے لیے اپنے عوام کو جنگ میں جھونک کر کرنا چاہتے ہیں؟

ہماری مسلح افواج بڑی کامیابی سے مذہبی اور سیاسی عسکریت پسندوں سے نبرد آزما ہو رہی ہیں اور اب انھوں نے بغیر کسی امتیاز کے احتساب کا عمل بھی شروع کر رکھا ہے۔ اب ہمارے عوام میں بھی 1965ء کی جنگ کا جذبہ ازسرنو بیدار ہو چکا ہے جو گزشتہ 5 عشروں میں نہیں دیکھا گیا۔ 14 اگست 2015ء کا یوم آزادی روح پرور نظاروں کا حامل تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں