رونا کس لیے چلاناکیوں
انسان پر سب سے شدید حملہ ناانصافی کا ہوتا ہے جس سے اس کے اندر اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصوربھی محال ہے
یہ تو ہونا ہی تھا معاشرے میں عدم مساوات، ناانصافی،ظلم وستم،غربت،افلاس، مہنگائی، بے اختیاری، بے روزگاری،عدم تحفظ،عزت نفس کی پامالی اورطبقاتی کشمکش جب ہرحد پارکرجائے گی تو پھر ڈاکے بھی پڑیں گے، لوٹ مار بھی ہوگی، اغوا بھی ہوںگے، بھتے کی پرچیاں بھی ملیں گی دہشت گردی بھی ہوگی،انتہاپسندی بھی ہوگی۔
جب ملک کی دولت پر چند لوگ قابض ہوجائیں گے جب ملکی وسائل اوراختیارات کے مالک عوام کے بجائے مخصوص افراد ہوجائیں گے اور باقی ساری آبادی غربت کی لکیرکے نیچے زندگی سسک سسک کر تڑپ تڑپ کرگذار رہی ہوگی تو پھر امیروکبیر،خوشحالی لوگ چین سے کیسے رہ سکیں گے،کیونکہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے فطری طور پر سب لوگ یکساں مساوی اورآزاد پیدا ہوتے ہیں، جب آپ سماج میں طبقات بنا دیتے ہیں اور کچھ لوگ زور وجبر سے باقی سب لوگوں کی زندگیوں کے مالک بن جاتے ہیں اورانھیں ایک ایک روٹی کے لیے ترسانا شروع کردیتے ہیں۔
تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حقوق غصب کرنے والے چین سے جی سکیں،کیونکہ اندرونی خلفشار انھیں بھی لپیٹ میں لے لیتا ہے، جب آگ لگتی ہے تو وہ چاروں طرف پھیلتی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ مخصوص لوگوں کو چھوڑکر باقی سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے ، آگ کی کوئی پسند و ناپسند نہیں ہوتی۔ تو پھر اس صورتحال پر امیروں کا رونا کس بات پر چیخنا چلاناکس لیے دہائیاں دینا اور رونا کس لیے۔
ظاہر ہے جوآپ بوئیں گے وہی توکاٹیں گے جب آدمی بھوک سے مررہا ہوکئی کئی دنوں سے وہ اور اس کے پیارے فاقے کررہے ہوں یا تو وہ خود کشی کریں گے یا پھر وہ ہی کچھ کریں گے جو ہورہاہے آپ ان مجرموں کو جتنا چاہیں برا بھلا کہہ لیں، جتنا چاہیں ان کے خلاف بات کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے خالق کون ہیں ،کیا یہ پیدائشی مجرم ہیں کیا یہ پیدا ہی جرم کرنے کے لیے ہوئے ہیں یا اس سماج نے انھیں مجرم بنادیا ہے ، اگر ایسا ہے تو کیا پورا سماج قصور وار ہے یا وہ لوگ قصور وار ہیں جو سماج کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں جو سماج کی ساری نا انصافیوں کے ذمے دار ہیں، جو سماج کی ساری دولت پر جبراً قبضہ کیے ہوئے ہیں تو پھر مجرم وہ نہیں بلکہ اصل مجرم وہ ہیں، جنہوں نے انھیں مجرم بننے پرمجبورکیا۔
ان کے لیے وہ حالات پیدا کیے کہ ان کے پاس جرم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں بچا۔ یہ بات تو طے ہے کہ کوئی بھی جرم نہیں کرنا چاہتا انسان جب پیدا ہوتا تو وہ فرشتہ ہوتا ہے جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کے حالات اس کی زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں، لہذا انسان کا کردار اس کے حالات کا محتاج ہوتا ہے، اگر آپ اسے عزت کے ساتھ اس کی صلاحیتوں کے مطابق روزگار دے دیں۔ سماج میں اسے عزت دے دیں، اسے انصاف اور اختیار دے دیں تو وہ کبھی بھی جرم کی طرف راغب نہیں ہوگا۔
یاد رہے انسان پر سب سے شدید حملہ ناانصافی کا ہوتا ہے جس سے اس کے اندر اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصوربھی محال ہے، ولیم جیمزکہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی نہیں معاف کرتا۔ جب چین کے ظالم جنگی رہنما اپنے قیدیوں کو اذیت دینا چاہتے تھے تو وہ ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں پانی کے ایک ٹب کے نیچے بٹھا دیتے تھے، نلکے سے مسلسل قطرہ قطرہ پانی ٹپکتا رہتا تھا۔
ٹپ ٹپ ٹپ قطرہ دن رات ٹپکتا رہتا تھا، پانی کے یہ قطرات سر پر متواتر ٹپکنے سے ایسا معلوم ہونے لگتا تھا جیسے ہتھوڑے کی ضربیں سر پر پڑ رہی ہوں، اس طریق کار سے لوگوں کے ہوش وحواس زائل ہوجاتے تھے۔ اذیت کا یہ ہی طریقہ ہسپانوی اورہٹلرکے جرمن کمیپوں میں بھی اختیار کیاگیا تھا ۔
پریشانیاں، ناانصافیاں،الجھنیں، قطرہ قطرہ پانی ٹپکنے کے مانند ہوتی ہیں۔ پریشانیوں اور ناانصافیوں کی مسلسل ٹپ ٹپ انسان کو جنون ، جرم اور خود کشی کی طرف دھکیل دے دیتی ہیں، شوپنہارکہتا ہے، انسان کی بدترین خاصیت دوسروں کی تکالیف سے مزا لینا ہے، میرے ملک کے کرپٹ سیاست دانوں، جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، چوہدریوں، سرمایہ داروں، بیوروکریٹس، جشن مناؤ، قہقہے لگاؤ کہ تم کامیاب ہوگئے ہو، ملک کے عوام جن سے تمہیں خطرہ تھا اب کسی کام کے نہیں رہے وہ اب فالج زدہ ہوچکے ہیں جو صرف دیکھ سکتے ہیں لیکن نہ تو بول سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ کرسکتے ہیں وہ اپنی لاش اپنے کندھے پر اٹھائے اٹھائے پھر رہے ہیں ۔
جب تم اچھی طرح جشن منا چکو تو پھرکچھ دیرکے لیے اکیلے میں بیٹھ کر سوچنا کہ تم نے یہ کیا کچھ کردیا ہے کیا تمہیں کبھی بھی اپنے کرتوتوں کا حساب کہیں بھی نہیں دینا ہے۔کیا تمہاری پکڑکبھی نہیں ہوگی ۔
ایک درویش بازار میں بیٹھا تھا، بادشاہ کا گذر وہاں سے ہوا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ بھائی کیا کررہے تو درویش نے جواب دیاکہ بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہاہوں، اللہ تو مان رہا ہے مگر بندے نہیں مان رہے،کچھ دنوں بعد درویش قبرستان میں بیٹھا تھا کہ اتفاق سے بادشاہ وہاں آپہنچا۔ بادشاہ نے پھر درویش سے پوچھا کیا کررہے ہو۔
درویش نے کہا کہ اللہ کی بندوں سے صلح کروا رہا ہوں لیکن آج بندے تو مان رہے ہیں،مگر اللہ نہیں مان رہا۔اکثر ساری عمر بیت جاتی ہے لیکن ہمیں زندگی کے اصل فلسفے اورمقصد کے متعلق علم ہی نہیں ہوپاتا اورجب علم ہوتاہے تو زندگی کا آخری منظر سامنے ہوتا ہے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم ساری عمر زندگی کے اصل فلسفے اور مقصدکو سمجھنا ہی نہیں چاہتے یا پھر زندگی ہمیں سمجھانے سے قاصر رہتی ہے یا پھر ہم سمجھ کر بھی سمجھ نہیں پاتے ۔دونوں ہی صورتوںمیں نقصان آدمی کوہی ہوتا ہے۔
آندرے مالوردا اسے ان الفاظ میں کہتاہے''ہر وہ چیز جو ہماری ذاتی خواہشوں اورآرزؤں سے ہم آہنگ ہو، ہمیں درست نظر آتی ہے اور جو چیز اس کے برعکس ہو وہ ہمارے غصے کی آتش کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہے۔''دنیا کے قبرستان ان لوگوں سے بھر ے پڑے ہیں، جو اپنے آپ کو زمینی خدا اور فرعون سمجھے بیٹھے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ تمام احتساب سے مبرا ہیں، آج ان کی اجڑی اورتاریک قبریں وحشت کا نشان بنی ہوئی ہیں ۔جہاں نہ کوئی آتا ہے اورنہ جاتا ہے، یاد رکھو تمہیں بھی ایک روز وہیں جانا ہے تمہارا نصیب بھی وہی اجڑی اور تاریک قبرہوگی، جہاں نہ کوئی آئے گا اورنہ جائے گا۔