کاش ننھا کی زندگی میں نازلی نہ آتی
یہ اس دور کی بات ہے جب ریڈیو بڑے شوق سے سنا جاتا تھا۔ لوگ ڈرامے تو ڈرامے خبریں بھی بڑی توجہ سے سنا کرتے تھے
یہ اس دور کی بات ہے جب ریڈیو بڑے شوق سے سنا جاتا تھا۔ لوگ ڈرامے تو ڈرامے خبریں بھی بڑی توجہ سے سنا کرتے تھے، ریڈیو پر ڈرامے سننے کا ایک الگ ہی نشہ ہوتا تھا، آرٹسٹوں کی آوازوں کا حسن اور صوتی اثرات ڈراموں کی جان ہوا کرتے تھے، اسی زمانے میں لاہور ریڈیو سے ایک دلچسپ پروگرام ''دمباز اور دمساز'' نشر ہوتا تھا جسے ریڈیو کے سامعین بڑی دلجمعی سے سنا کرتے تھے۔
کمال احمد رضوی اس ڈرامے کے مصنف بھی تھے اور صدا کار بھی۔ ان کے ساتھ ایک آرٹسٹ رفیع خاور بھی ہوتا تھا جو اپنی سادگی کی وجہ سے اس ڈرامے کی جان ہوا کرتا تھا اور کمال احمد رضوی کی چرب زبانی اس ڈرامے کا خاصا ہوا کرتی تھی۔ پھر جب ملک میں ٹیلی ویژن نے اپنے قدم جمانے شروع کیے تو کمال احمد رضوی ''الف اور نون'' کا مزاحیہ پروگرام لے کر ٹی وی پر بھی آ گئے اور یہ ڈرامہ دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا چلا گیا۔ اس پروگرام میں کمال احمد رضوی الن اور رفیع خاور ننھا کے روپ میں آتا تھا پھر یہی ننھا آگے چل کر فلموں کا بھی نین تارا بن گیا تھا۔
الن کی اداکاری میں عیاری اور ننھا کی اداکاری میں بھولپن اور سادگی ہوتی تھی۔ یہ ڈرامہ دیکھ کر مجھے ہندوستانی فلموں کے دو مشہور کردار گوپ اور یعقوب یاد آ جاتے تھے۔ یہ دونوں فنکار بھی جس فلم میں آتے فلم کی جان بن جاتے ۔ گوپ سیدھا سادا اور یعقوب چالبازی کا ماسٹر ہوتا تھا اور ان دونوں کی جوڑی فلموں میں کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔
ننھا کو ابتدا میں فلم سازوں نے پاکستانی گوپ کا نام دینا چاہا تھا مگر ننھا کو الن کی طرف سے دیا گیا نام ننھا ہی پسند تھا مجھے کبھی کبھی گمان گزرتا تھا کہ یہ دونوں آرٹسٹ بھی گوپ یعقوب کی جوڑی کی طرح اگر فلموں میں آتے تو دونوں کو شہرت ملتی کیونکہ گوپ یعقوب جس فلم میں بھی آتے تھے وہ کامیابی کی سند حاصل کر لیتی تھی۔ غالباً مصنف کمال احمد رضوی کو گوپ اور یعقوب کی یہ فلمی جوڑی خود بھی پسند ہو گی اور کمال احمد رضوی اس جوڑی سے کچھ متاثر یا انسپائر ہوئے ہوں گے مگر الن اور ننھا کا اپنا بھی ایک الگ انداز تھا۔
یہ معاشرے کی دکھتی رگوں پر بھی اپنے فقروں اور مکالموں سے نشتر زنی کرتے تھے۔ اچھائی اور برائی کو بڑے خوبصورت انداز میں ٹی وی پر پیش کرتے تھے۔ ان کے طنز کی کاٹ فلمی انداز کے مزاح سے کچھ الگ تھی اور ٹی وی کے ناظرین ہر ہفتے بڑی بے چینی کے ساتھ ''الف اور نون'' کا انتظار کیا کرتے تھے۔
الن اور ننھا دونوں ایک دوسرے کی بیساکھی اور ایک دوسرے کی ضرورت بھی تھے پھر یوں ہوا کہ ننھا اپنی مقبولیت کی وجہ سے ٹی وی سے فلموں کی طرف چلا گیا اور الن اکیلا رہ گیا۔ جب ننھا فلموں میں آیا تو اس کے ہم عصر مزاحیہ آرٹسٹوں میں منور ظریف، رنگیلا اور علی اعجاز کا بھی طوطی بول رہا تھا۔ اب فلموں میں مزاحیہ آرٹسٹوں کی یہ ''چوکڑی'' اپنا خوب رنگ جما رہی تھی۔ ان دنوں میں نیا نیا لاہور آیا تھا۔
ابھی بحیثیت فلم رائٹر یا نغمہ نگار میں فلموں سے وابستہ نہیں ہوا تھا۔ نگار ویکلی کے لاہور میں نمایندے کی حیثیت سے فلم کے سیٹوں پر جایا کرتا تھا اور میری دلچسپی فی الحال اسٹوڈیو راؤنڈاپ تک ہی تھی۔ اکثر اردو اور پنجابی فلموں کے سیٹ پر میری اداکار ننھا سے ملاقات ہوتی رہتی تھی کبھی کبھی ننھا، منور ظریف ساتھ بھی ہوتے تھے یہ دونوں اداکار باکمال آرٹسٹ تو تھے ہی مگر دونوں جگت بازی کے بھی بادشاہ تھے اور دونوں اپنی جگہ نہلے پہ دہلا بننے کی کوشش کرتے تھے۔
یہ جس فلم کے سیٹ پر ہوتے تھے اس فلم کے سیٹ پر قہقہے ہی قہقہے گونجتے تھے۔ دونوں فنکاروں کو ہر محفل کو زعفران زار بنانے کا ہنر آتا تھا البتہ رنگیلا ان دونوں آرٹسٹوں کے درمیان کچھ ماند پڑ جاتا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کسی فلم پروڈکشن کے آفس میں ننھا سے کچھ دیر کی ملاقات ہو جاتی تھی۔
ننھا ''جگت بازی'' کے علاوہ شعر و شاعری سے بھی کافی شغف رکھتا تھا اور ایسے اشعار اس کو خوب یاد ہوتے تھے جن میں ''حسن پرستی'' کی جھلک ملتی تھی اس سے اندازہ ہوتا کہ ننھا حسن پرست بھی تھا لیکن ایک خاص بات یہ تھی کہ ننھا دل کا بہت اچھا تھا اور اندر سے ایک بھولا بھالا انسان تھا اور ایک درد مند دل رکھتا تھا۔ اسے ان فلمسازوں سے بڑی چڑ ہوتی تھی جو چھوٹے آرٹسٹوں کے ساتھ حقارت سے پیش آتے تھے۔
کبھی وہ منور ظریف کے علاوہ علی اعجاز کے ساتھ بھی ہوتا تھا تو سیٹ پر ہر شاٹ کی شوٹنگ کے بعد لطیفے اور جگت بازی بھی اچھی سننے کو ملتی تھی۔ جب بھی کسی فلم کے سیٹ پر ننھا فلمی صحافی یاسین گوریجہ کو دیکھتا تھا تو اس سے بڑے تپاک سے ملتا تھا بلکہ بعض اوقات تو یاسین گوریجہ کو اپنا گرو سمجھ کر ان کی راہ میں آنکھیں بچھا دیا کرتا تھا، وہ فلمی صحافی یاسین گوریجہ کی بہت زیادہ عزت کرتا تھا۔
ایک دن میں نے باتوں ہی باتوں میں یاسین گوریجہ سے پوچھ ہی لیا۔ یار گوریجہ صاحب! یہ اداکار ننھا آپ کی شخصیت سے اتنا مرعوب کیوں ہے۔ جب بھی آپ اسے کہیں نظر آتے ہیں آپ کے پیر چھونے کی کوشش کرتا ہے، کوئی تو بات ہے آپ کے اور اس کے درمیان جس کا وہ بڑا مرہون منت نظر آتا ہے۔ میری بات سن کر یاسین گوریجہ نے اپنے مخصوص ہنستے ہوئے انداز میں کہا تھا۔ او یار ہمدم! کوئی خاص بات نہیں، ننھا ہے ہی بہت نفیس انسان۔ جب یہ ٹی وی سے فلموں کی طرف آنا چاہتا تھا تو میری اس سے بڑی باتیں ہوتی تھیں۔
اسے ایک فلم ''وطن کا سپاہی'' میں ایک کردار ملا تھا مگر وہ فلم زیادہ چلی بھی نہیں تھی اور اسے کوئی سہارا بھی نہ دے سکی تو پھر ایک دن میں اس کو فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی کے دفتر لے گیا تھا۔ شباب صاحب سے میں نے اس کی تھوڑی بہت تعریف کردی تھی اور شباب صاحب نے کہا تھا، یاسین گوریجہ! تم اب اسے میرے پاس لے آئے ہو آج سے اب یہ میری فلموں کا آرٹسٹ ہو گیا ہے۔
پھر شباب صاحب نے ننھا کو اپنی فلم ''انسانیت'' میں مزاحیہ کردار میں کاسٹ کیا تھا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد ننھا بھی کامیابی کے راستے کا ہمسفر بن گیا تھا۔ بس اتنی سی بات ہے اور ننھا کی یہ خوبی ہے کہ وہ کسی کے ذرا سے بھی احسان کو کبھی بھولتا نہیں ہے۔ ننھا کے اندر ایک بہت خوبصورت انسان چھپا ہوا ہے۔ اداکار ننھا واقعی فلمی دنیا کا ایک انمول رتن تھا۔ اس نے بے شمار فلموں میں کام کیا۔ شباب کیرانوی کے علاوہ نذر شباب اور ظفر شباب کی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے یہ شباب پروڈکشن کے علاوہ بھی دیگر فلمسازوں کا بھی پسندیدہ اداکار تھا۔
جب یہ شہرت کی بلندیوں پر تھا، تو ایک فلمی رقاصہ نازلی اس کی زندگی میں اس طرح داخل ہوئی کہ اس نے اس کی ازدواجی زندگی کے آشیانے کے سارے تنکے بکھیر کر رکھ دیے تھے۔ نہ جانے وہ کون سی منحوس گھڑی تھی کہ رقاصہ نازلی اس کی محبوبہ بن گئی۔ وہ پہلے فلموں میں اس کے قریب آئی پھر آہستہ آہستہ اس کی زندگی پر بھی وہ قابض ہو گئی۔ بعض لوگوں نے بھی محسوس کرنا شروع کر دیا کہ اداکار ننھا اب فلموں میں کام سے زیادہ نازلی کے ناز نخروں میں دلچسپی لینے لگا ہے۔ ننھا ایک حسن پرست مگر بھولا بھالا انسان تھا۔
یہ عشق کے ان زاویوں سے واقف نہ تھا جو ایک بازار کی حد تک تو ٹھیک ہیں مگر ان کو کبھی گھریلو رنگ نہ دیا جا سکتا تھا۔ مگر ننھا پر عشق کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور ننھا کی اس مجبوری سے رقاصہ نازلی خوب فائدہ اٹھاتی رہی۔ ننھا کے قریبی دوستوں نے بھی ننھا کو بڑا سمجھایا اور اس عشق کی بازی سے الگ کرنے کی کوشش کی مگر شاید قدرت کو یہ منظور نہ تھا اور پھر ایک دن دونوں کا زبردست جھگڑا ہوا جس کے بعد نازلی نے اپنے گھر کے دروازے ننھا پر بند کر دیے۔
جب ننھا اس کے دروازے پر دستک دے دے کر ناکام ہو گیا تو اس نے ایک غیر فطری انداز کو اپناتے ہوئے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پھر ایک صبح سارے اخبارات میں جلی سرخی کے ساتھ یہ خبر نمایاں تھی کہ اداکار ننھا نے اپنے سر میں گولی مار کر خودکشی کر لی اور اس طرح ایک باکمال آرٹسٹ مزاح کی محفل کا ایک جگمگاتا چراغ گل ہو گیا۔
2 جون 1986ء کا دن جب بھی آتا ہے ننھا کی افسوسناک موت کا تصور کر کے ننھا کے لاکھوں چاہنے والوں کے دل بیٹھنے لگتے ہیں اور اس کی یاد میں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ کاش ننھا کی زندگی میں رقاصہ نازلی کبھی آئی نہ ہوتی اور فلمی دنیا ایک باکمال مزاحیہ آرٹسٹ سے حادثاتی طور پر محروم نہ ہوتی۔