یہ کیا جگہ ہے دوستو
کراچی کی فضاؤں میں پچھلے دنوں سے ایک بار پھر خوف مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
رشیدگوڈیل پر قاتلانہ حملہ وہ بھی دن دہاڑے صبح،کراچی آپریشن جاری ہے مگر ایک بار پھر سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور ایک کے بعد ایک قتل کیا جا رہا ہے، ایک وکیل کا قتل، سبین محمود کے ڈرائیور کا قتل جوکہ چشم دید گواہ تھا، نجی ٹی وی کی وین پر حملہ اور سیٹلائٹ انجینئرکا قتل۔ صحافی برادری پر حملہ قابل مذمت ہے اور قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔
بہرحال کراچی کی فضاؤں میں پچھلے دنوں سے ایک بار پھر خوف مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اچھی بات یہ ہے کہ کراچی سے بلوچستان تک ہم آہنگی نظر آتی ہے، ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے ۔ سکون اور ترقی کی متلاشی قوم بہت سارے خواب اپنی آنکھوں میں رکھتی ہے اپنے لیے بھی اور اپنی نئی نسل کے لیے بھی، اور جب جب کہیں امید نظر آتی ہے اس کے پیچھے دوڑ لگا دیتی ہے اور ابھی تک اچھی امید کا سلسلہ جاری ہے۔
جنرل مشرف جب اقتدار میں آئے تو لاکھوں کو امیدیں بندھیں، مگر اقتدار اور طاقت بذات خود بہت بڑا فریب ہے، اقتدار سے پہلے انسان کچھ اور ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد کچھ اور۔ قوم کی امیدیں جیسی تھیں ویسی ہی رہ گئیں اور ان کا دور بھی گہما گہمی کے بعد ختم ہوا۔ جنرل مشرف دور میں نواز شریف اور ان کے خاندان نے جلا وطنی بھی کاٹی۔ پاکستان آنے کی کوشش بھی کی مگر کامیاب نہ ہوسکے، مصالحت کا دور شروع ہوا۔
محترمہ بے نظیر اور نواز شریف دونوں کو ہی پاکستان آنے کی اجازت مل گئی،کیا غضب کی تقاریرکی ہیں ، بے نظیر بھٹو نے اپنے آخری ایام میں، ان کی لاڑکانہ کی تقریر ہو یا باغ لیاقت کی ان کی دانشوری اور سیاسی سوجھ بوجھ نظر آتی ہے مگر یہ شاید ہماری بدقسمتی ہے کہ دانشوری کی اعلیٰ نہج پر پہنچنے پر محترمہ کو شہید کردیا جاتا ہے۔ اور اس دن سے آج تک سیاسی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی سیاسی یتیم نظر آتی ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ PPP اور MQMکی وجہ سے کراچی میں سیاسی خلا پیدا ہوا۔ مصالحت اور مفاہمت اپنی جگہ مگر عوام کی فلاح و بہبود اور ریاست کی رٹ پرکوئی کمپرومائز نہیں ہوسکتا۔ نتیجہ یہی سامنے آرہا ہے کہ آرمی اور رینجرز کے اختیارات سے جو آپریشن کراچی میں جاری ہے اس میں عوام کی بھرپور حمایت شامل ہے۔
اور ہم سب دعا گو ہیں کہ کامیابی و ترقی ہم سب کا مقدر بنے۔ ایک روشن، بہتر پاکستان جس میں ہم سب مل کر دشمنوں کے ارادے نیست و نابود کرسکیں۔ قتل و غارت کا جو ماحول بن گیا تھا اس میں کافی حد تک کمی نظر آتی ہے۔ رات گئے تک عوام کے چہروں پر اطمینان ہے گوکہ پچھلے چند دنوں میں کہیں نہ کہیں شہر کراچی میں کچھ نہ کچھ سننے میں آرہا ہے۔
اللہ کرے کہ ہم کامیابی و کامرانی کی سیڑھیاں چڑھتے چلے جائیں، ایک بدقسمتی جو ہمارے ساتھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ شخصیت کے ساتھ ساتھ پالیسی چلتی ہے اور اگر شخصیت نہ ہو تو پالیسی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ پالیسیز اگر مضبوطی کے ساتھ رواں دواں رہیں تو یقینا نتائج بہت بہتر ہوسکتے ہیں۔ہماری علما اور دانشوروں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی اپنی شخصیات اور اپنے بیانات میں بردباری کا مظاہرہ کریں اور جذباتی بیانات سے پرہیز کریں۔ فرقہ واریت اور تعصبات سے قوم کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے۔ بہت سخت ضرورت ہے کہ اب ہم متحد ہوکر ایک قوم بنیں۔اپنی سوچ اور انسانیت کے اصولوں پر نہ صرف اپنی گرومنگ کریں بلکہ دوسروں کی بھی مدد کریں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔
24 گھنٹوں میں 2 صحافیوں کا قتل،کہاں کی انسانیت ہے، ڈاکٹر، وکیل، پولیس، عام آدمی کسی کو نہیں بخشا جا رہا۔ایک شخص کے جانے سے پورا خاندان سفرکرتا ہے۔ مایوسی، ناکامی، بہت سارے جرائم کو جنم دیتی ہے۔ میڈیا اب ایک انڈسٹری کی شکل میں سامنے آچکا ہے۔ ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں تمام چینلز آگے آگے ہیں۔
معاشرے پر اس کا کیا اثر پڑ رہا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر 24-24 گھنٹے چینلز آن اسکرین ہیں، کیا کیا وہ ہمیں دکھا رہے ہیں اورکیا کیا وہ ہمیں سکھا رہے ہیں۔ اس کا ایک عملی مظاہرہ ہم نے 16 اور 15 سال کے اسکول طالب علموں کی خودکشی کی صورت میں دیکھا، ٹی وی اسکرین، والدین کی تربیت سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ میڈیا ہو انٹرنیٹ، آخرکوئی تو پالیسی ہو، کوئی تو پوچھنے والا ہو کہ ہم اور ہمارا معاشرہ اور تمام قوم کیا ہم ان ایشوزکو ہی پیش کرتے رہیں گے؟
یو ٹیوب کو بین کرکے آخر کیا فائدہ ہوا، ایک چیز بین کی جاتی ہے تو 10 اور ڈھونڈ لی جاتی ہیں، فضا اگر سکون اور امن کی ہوگی تو فزیکل ایکٹویٹیز ایک آسان حل ہوگا۔ پہلے اسکولوں اور کالجز میں مختلف گیمز ہوتے تھے، ابھی بھی ہوتے ہیں مگر ان کے معیار کو بدل دیا گیا ہے۔
یہاں پر ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنی اپنی سوچ کے مطابق اپنی اپنی رائے ضرور دیں اور معاشرے میں مثبت پہلوؤں کو اجاگر کریں۔ تمام کاموں کو اگر ہم صرف ریاست کی ذمے داری کہہ کر چھوڑ دیں گے تو پھر ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اتنے رلتے، پیٹتے، مرتے ہم نے یقینا بہت کچھ سیکھ لیا ہوگا کب تک بے وقوف بنتے رہیں گے اورکب تک اپنا ہی نقصان کرتے رہیں گے، اپنی ذات سے بڑھ کر آگے قدم بڑھائیں اور اللہ کے واسطے یہ بیدردی سے انسانوں کو مارنا، ان کو قتل کرنا، آخر کب تک؟
سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ اپنے بہترین کردار سے، اپنے عملی نمونے عوام کے سامنے رکھیں۔ آسان اور سادہ زندگی ہی ہم سب کے لیے بہتر ہے۔ ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ خالی ہاتھ ہی ایک اندھیرے گڑھے میں دفن ہوگا، تمام ورثا تمام دولت دنیا میں ہی رہ جائے گی اور نہ جانے اس کی کمائی گئی دولت سے اس کی ہی اولاد کتنا گمراہ ہو، کون جانتا ہے۔جب تک قومیں، قومیں نہیں بنتیں اور ہجوم کی شکل میں رہتی ہیں ان سے عقل اور انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اقدار و روایات کو چھوڑکر ہم جانوروں جیسی زندگی نہیں گزار سکتے معاشرے کو جنگل نہیں بناسکتے اور اگر ایسا ہو جائے تو ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی رٹ قائم کرے اور ایسے تمام ذرایع کو بندکرے جو معاشرے میں ابتری پھیلا رہے ہوں۔
تعلیمی ادارے اور ڈگری دینے والے اعلیٰ ادارے اپنا تشخص تب ہی قائم رکھ سکتے ہیں جب وہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی بہتر انتظام کریں، ہمیں اب یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا نے جہاں مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے وہیں وہ انٹرٹینمنٹ کے نام پر منفی جذبات بھی پیدا کر رہا ہے۔ مذہب کو ایک مشکل چیز بنا دینا، مذہب کے نام پر فرقے بنانا، مذہب کی آڑ میں ایک دوسرے کا حق چھیننا، ہم سب کے لیے مذہب سے دوری کا باعث بن رہا ہے۔
قوم کوئی بھی ہو، معاشرے میں مذہب کا ایک اہم رول ہوتا ہے اور یہ ہمارا مذہب ہے جو ہمیں انسانیت کے قتل سے باز رکھتا ہے۔ ہم پر ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور ہمارے لیے بہت سے رشتے بھی تخلیق کرتا ہے تاکہ معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو اور ہم اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفع جان کر ایسی ایسی لغویات میں پڑگئے ہیں کہ آہستہ آہستہ تمام بنیادی احساسات سے بھی عاری ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر چیز اور ہر رشتے میں اپنا فائدہ ڈھونڈتے ہیں، سوچوں میں اتنا کمرشلزم آگیا ہے کہ اپنے ہی سگوں کو قتل تک کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ جس جگہ رہتے ہیں، جہاں سے کماتے ہیں، جہاں سے اپنے کنبے پالتے ہیں اسی جگہ کو بدنام کرتے ہیں اسی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور سمجھ تب آتی ہے جب سب گنوا بیٹھتے ہیں۔