ٹی وی ریٹنگ ڈنڈا نواز شریف اور خارش
ڈنڈے کی حیثیت آج بھی قائم و دائم ہے اور آج بھی بھینس اسی خوش نصیب کی ہی بتائی جاتی ہے
ISLAMABAD:
ڈاکٹر مبارک علی کا شمار ہمارے اہم مورخین میں ہوتا ہے۔ ان کی کتابیں تو بے شمار ہیں مگر ''مغل دربار'' نے شہرتِ دوام حاصل کی۔ تاہم اگر موصوف کی کوئی سی کتاب بھی اٹھا لی جائے تو اس میں آپ کو کوئی نہ کوئی دلچسپ بات ضرور مل جائے گی۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک قدرے غیر معروف کتاب ''تاریخ کی آگہی'' کے صفحے کھنگالتے ہوئے ہمیں روز مرہ استعمال کی چند اشیا کا تاریخی پس منظر جاننے کا اتفاق ہوا۔ ان اشیا کی فہرست ویسے تو طویل ہے مگر ہماری نظر اور سوچ ''عصا'' یعنی ڈنڈے پر جم کر رہ گئی، آپ لکھتے ہیں کہ عصا طاقت اور حیثیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امرا اور رؤساء ہمیشہ ہاتھ میں عصا رکھتے تھے۔
ڈنڈے کی حیثیت آج بھی قائم و دائم ہے اور آج بھی بھینس اسی خوش نصیب کی ہی بتائی جاتی ہے جس کے ہاتھ میں یہ ہوتاہے۔ ہم جیسے ترقی پذیر معاشرے میں تو ڈنڈے کی اہمیت ویسے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ بلکہ بعض صوفی شعرائے کرام توڈنڈے کو بگڑے تگڑے لوگوں کا پیر گردانتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف راحیل شریف کی ملاقاتیں آج کل کچھ زیادہ ہی ہونے لگی ہیں۔ ہم ان ملاقاتوں کی ٹی وی فوٹیج اور اخباری تصاویر بڑے ذوق شوق سے دیکھتے ہیں دونوں ہی خاصے خوش شکل واقع ہوئے ہیں مگر ملکی معاملات جس جانب چل پڑے ہیں، ہمارا سارا دھیان اس ڈنڈے پر ہی مرکوز رہنے لگا ہے جو ہم جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں دیکھتے ہیں۔ جس ڈنڈے کو پیر کا درجہ دیا جاتا ہے، وہ یقینا آرمی چیف ہی کا ڈنڈا ہو گا۔
جمہوریت کی بے ہنگم گاڑی ڈی ریل ہونے سے بچا کر اور ضرب عضب میں بے مثل کامیابیاں حاصل کر کے جنرل راحیل بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال آگے بڑھتا ہی نظر آتا ہے، رکتا نہیں۔ اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ اب یہاں کے خواص اور عوام کی اکثریت انھیں امید کی آخری کرن قرار دینے لگی ہے۔
خیر ،جنرل صاحب کی مداح میں ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ پہلے ہی اچھی خاصی ''اوور ڈوئنگ'' (Over Doing) ہو چکی ہے۔ ہمارا دھیان جنرل صاحب سے زیادہ انکے ڈنڈے کی طرف ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک غریب اور دکھیاری خاتون کی طرف بھی، جسے ہم نے گزشتہ دنوں ایکسپریس ٹی وی پر جاوید چوہدری کے شو میں سسکیاں لے لے کر روتے اور آرمی چیف کو مدد کیلیے پکارتے دیکھا۔ اس معاملے کی تفصیل میں جانے کی بجائے ہم حکومت اور میڈیا سے چند بنیادی سوال کرنا چاہتے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک بشمول پاکستان میں مناپلی ایکٹ (Monopoly Act) موجود ہے جو کسی بھی پرائیویٹ فرد یا ادارے کو کسی بھی کمرشل معاملے میں اجارہ داری قائم کرنے سے روکتا ہے کہ یہ حق صرف اور صرف ریاست ہی کے پاس رہے تو بہتر ہے۔ مگر ہمارے یہاں پچھلے کئی برسوں سے ''میڈیا لاجک'' نامی ایک پرائیویٹ ادارہ ریٹنگ سے متعلق ہر چیز کا مالک و مختار بنا بیٹھا ہے۔
اس کا مالک سلمان دانش ہمارا دوست ہے اور ہمیں ذاتی طور پر ریٹنگ وغیرہ سے کبھی کوئی لمبی چوڑی شکایت نہیں ہوئی کہ ہم نے اللہ سبحان تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ٹاپ پوزیشن ہی لی ہے۔ البتہ اپنے اور دوسرے نمبر پر آنیوالے پروگرام میں ریٹنگ کا فرق ہمیں اکثر کھلتارہتا تھا کیونکہ معیار میں جو واقعی فرق ہوا کرتا وہ ریٹنگ چارٹ سے کم کم ہی ظاہر ہوتا تھا جس پر ہم نے دل ہی دل میں میڈیا لاجک کی ریٹنگ پر شک کرنا شروع کر دیا۔
دو ایک مرتبہ تو سلمان دانش سے پوچھا بھی مگر انھوں نے فزکس، کیمسٹری، فلسفہ، طب اور ریاضی وغیرہ کو مکس کر کے دو چار عجیب الخلقت دلائل دیے کہ ہم نے یقین کرنے میں ہی عافیت جانی۔ تاہم یہ بڑی بد نصیبی ہے کہ حکومت اس مد میں 4کروڑ روپے مختص کرنے کے باوجود از خود ریٹنگ کا نظام و انصرام سنبھالنے میں ناکام ہوئی ہے اور آج بھی یہ اہم کام فقط ایک ہی ادارے کے ہاتھ میں ہے جو کمرشل بھی ہے اور پرائیویٹ بھی۔ چینلز کی ریٹنگ کے معاملات اس کی خوشنودی کے ساتھ اس طرح وابستہ ہیں جس طرح سمسٹر سسٹم میں آپ کا جی پی اے متعلقہ پروفیسر کے ساتھ آپ کے ''تعلقات'' کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ محض 800 میٹروں کے ساتھ آپ پورے ملک کی ریٹنگ کیونکر حاصل کر سکتے ہیں جبکہ ملک میں ٹی وی سیٹس کی تعداد اڑھائی کروڑ سے تجاوز کرتی ہے۔ پھر ایک اور گزارش یہ ہے کہ آپ آج بھی اپنے منہ سے اقرار کرتے ہیں کہ آپ کے نظام میں بے شمار کوتاہیاں اور کمزوریاں ہیں جن پر بقول آپ کے، قابو پانے کی کوشش جاری ہے۔ تو جناب آپ ایک ہی مرتبہ تسلی کے ساتھ بیٹھ کر پہلے ان کوتاہیوں کو ہی رفع کیوں نہیں کر لیتے، کمپنی چلانے اور نوٹ چھاپنے کا شوق بعد میں پورا کر لیجیے گا۔
اور آخری بات یہ کہ اگر ایک معمولی ملازمہ جو بیچاری بمشکل ایک کلرک کی حیثیت رکھتی ہو، یوں آپ کی کمپنی کی بینڈ بجا کر آپ کو سرِبازار رسوا کر سکتی ہے تو پھر اسے کوتاہی یا کمزوری مت کہیں، یہ باقاعدہ ''بھنڈ'' کہلاتا ہے اور اس قسم کے بھنڈ آپ پہلے بھی کر چکے ہیں، مثلاً فیصل آباد والا واقعہ بھی آپ کو یاد ہو گا۔ چنانچہ حضور، جانے دیجیے اس شوق کو اور کوئی دوسرا کام کیجیے جس میں بھنڈ کر کے بھی گزارہ ہو سکتا ہو۔
چلتے چلتے، حکومت سے سوال ہے کہ آپ کی پولیس، سی آئی اے و دیگر ادارے یوں بے نوا شہریوں کو گھروں سے اٹھاتے، اغوا کرتے رہے تو پھر آپ کو فارغ کرنیوالوں نے ایک سے دوسری بار سوچنا بھی نہیں ہے۔ نواز شریف کو چاہیے کہ وہ بھی ایک اچھا سا ڈنڈا خریدیں اور اٹھتے بیٹھتے اسے اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ شاید اس کی برکت سے ہی وہ کسی دن اپنے آپ کو پاکستان کا حکمران سمجھنے لگیں۔ اور کچھ نہیں تو ڈنڈا خارش کرنے کے کام تو آہی سکتا ہے، ہیں جی؟