ہمارا بکھرتا ہوا معاشرہ
جب یہ حقیقت منظرعام پر آئی تو امریکی معاشرہ فکر مند ہوا کہ ان فلموں کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
KARACHI:
اسٹینلے باران اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ انیس سو پانچ کے دوران نیویارک میں روزانہ ایک نکل اوڈین (چھوٹا سینما گھر) کا افتتاح ہونے لگا اور لوگ بڑی تعداد میں فلمیں دیکھنے لگے تھے۔
انیس سو بیس تک فلمیں ہرامریکی گھرانے کی پسندیدہ تفریح بن چکی تھی اور یہ شوق اس حد تک تھا کہ انیس سو بائیس میں ہرہفتے فلموں کے چارکروڑ ٹکٹ فروخت ہوتے تھے۔ان فلموں کو بچے بھی بڑی تعداد میں دیکھ رہے تھے، جب یہ حقیقت منظرعام پر آئی تو امریکی معاشرہ فکر مند ہوا کہ ان فلموں کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ چنانچہ انیس سو اٹھائیس میں موشن پکچرز ریسرچ کونسل کے ایگزیکٹیو ڈائریکڑ ولیم ایچ شارٹ نے یونیورسٹیوں سے ماہرین نفسیات، عمرانیات اور اساتذہ وغیرہ کے ایک گروپ کو بلا کر تحقیق کرنے کی درخواست کی، جس کے لیے غیر سرکاری فلاحی تنظیم نے سرمایہ فراہم کیا اور انیس سو تیس میں دس جلدوں پر مشتمل اس کی رپورٹ شائع ہوئی۔
(بحوالہ ابلاغ عامہ: افکارونظریات، ڈاکٹر نثار احمد زبیری)ڈاکٹر نثار احمد زبیری ایک پائے کے محقق اور ماہر ابلاغیات ہیں اپنی مذکورہ بالا تصنیف میں لکھتے ہیں کہ '' سچی بات یہ ہے کہ ہر ایک معاشرے میں جس میں ترقی کے کچھ بھی مظاہر موجود ہیں، ابلاغ کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج ابلاغ عامہ کے دائرہ اثر میں مندرجہ ذیل اعمال شامل ہیں۔(1)فرد اور اس کے سوچنے سمجھنے، فیصلے کرنے کا عمل۔ (2)افراد ، ان کا اجتماعی شعور، اجتماعی کام، اجتماعی فیصلوں وغیرہ کا عمل (3) ملکوں کے درمیان تعلقات، بحث مباحثے،معاہدوں، اختلافات اور جنگوں وغیرہ کا عمل (4)تفریح طبع یعنی انٹر ٹینمنٹ کے کل سامان اور ان کے اثرات کا عمل۔''
اب تک کی بات شاید آپ کوکوئی خاص اہمیت کی نہ لگے لیکن اس کو اگر گزشتہ ہفتے رونما ہونیوالے واقعے کے تناظر میں دیکھیں تو یہ اس وقت ہمارے پاکستانی معاشرے کا سب سے اہم مسئلہ ( ہارٹ ایشو) نظر آئے گا کہ جس میں پندرہ اور سولہ سال کے نو عمر طالب علم اور طالبہ نے محض اس لیے اپنے اسکول میں خود کشی کرلی کہ ان کے والدین ان کی شادی کے خلاف تھے۔
راقم نے اس سلسلے میں جامعہ کراچی کے گریجویشن اور ماسٹر کی سطح کے طلبہ سے رائے طلب کی تو جوابات کچھ اس قسم کے آئے'کم عمر بچوں کو فیس بک استعمال نہیں کرنے دی جانے چاہیے، موبائل اور نیٹ کا غلط استعمال نئی نسل پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، خودکشی کرنیوالے جوڑے کی غلطی ہے، اس عمر میں شادی کی کیا جلدی تھی؟ والدین ذمے دار ہیں ان کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیے۔'
والدین اپنے بچوں پر اتنا اندھا اعتماد کیوں کرتے ہیں؟ پھر تو یہی ہوگا۔ہمارا میڈیا صبح و شام خواہ اشتہارات ہوں یا پروگرام ( حتی ٰ کہ خبریں اور دینی پرورگرام کی میزبان بھی) حسن کے جلوؤں سے خالی نہیں ہوتی تو نئی نسل کیسے اپنے جذبات پر قابو رکھے گی؟ اور اب تو ساٹھ سال کے بزرگوں کو بھی عشق لڑاتے دکھایا جاتا ہے تو پھر نوجوانوں سے کیا شکایت؟وغیرہ وغیرہایک طالب علم نے بڑی گہری بات کہی کہ جناب جب ہمارے بڑے میٹرک سے قبل ہی اپنے بچوں کو مخلوط ماحول میں پڑھنے بھیج دیتے ہیں، موبائل فون اور فیس بک و انٹرنیٹ جیسی اشیاء کے استعمال کی۔ اور کسی ماڈلز کی طرح کے لباس پہنے کی آزادی دے دیتے ہیں تو پھر انھیں پسند کی اور بالغ ہونے کے فوراً بعد شادی کی اجازت دینے میں کیا حرج ہوتا ہے؟ آخر شادی کے نام پر ہی کیوں انھیںاپنا مذہب اور اپنی غیرت یاد آتی ہے؟ یہ باتیں تو پہلے مرحلے پر سوچنے کی ہوتی ہیں جب آپ اپنے بچوں کو بلا سوچے سمجھے آزادی دے رہے ہوتے ہیں۔
کچھ اسی تناظر میں راقم نے اپنے گزشتہ دو کالم لکھے تھے کہ جن میں صوبہ سندھ اور پنجاب اسمبلی کی جانب سے شادی کی عمر کم ازکم اٹھارہ سال کرنے کے قانون کا تنقیدی جائزہ لیا تھا، اور یہ موقف اختیارکیا تھا کہ یہ صرف ہمارے نظریہ پاکستان، آئین کی قرار داد مقاصد کے قطعی خلاف ہی نہیںہے بلکہ فطری اصولوں کے برعکس نوجوانوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے کہ وہ قانون فطرت جو ایک انسان کو اس کی جسمانی، روحانی ضرورت کے تحت بالغ ہوتے ہی شادی کرنے کا حق دیتا ہے اسے ہم نے قانون سازی کرکے ختم ہی نہیں کیا بلکہ ایسا جرم قرار دیدیا کہ جس کی ضمانت بھی ممکن نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم مغرب کی نقالی میں دیر سے شادی کرنے کے حق میں قانون بنا رہے ہیں تو جناب مغرب میں تو بغیر نکاح کے قریبی تعلقات رکھنا کوئی جرم ہی نہیں ہے، یعنی وہاں فطری جذبات کا قتل نہیں ہوتا بلکہ ناجائز تعلقات کے ضمن میں مسئلہ حل ہو جاتا ہے جب کہ ہمارے نظریات میں دینی لحاظ سے سنگسار جیسی سزا ہے اور روایتی کلچر کے تحت غیرت کے نام پر لڑکے اور لڑکی دونوں کا قتل کر دیا جاتا ہے، گویا ہمارے ہاں اٹھارہ سال سے قبل شادی پر پابندی کا مطلب یہ ہوا کہ فریقین (لڑکے اور لڑکی )کے پاس اب کوئی زیادہ آپشن ہی نہیں تھے۔
شاید اسی لیے خود کشی کرنیوالے اس لڑکے اور لڑکی کے پاس صرف دو راستے تھے کہ وہ یا تو غلط راستے پر چل پڑتے یا پاکستانی قانون کے مطابق شادی کے لیے مزید دو سال انتظار کرتے اور اپنے والدین سے توقع رکھتے کہ وہ ہنسی خوشی دو سال بعد ان کی شادی کرا دیں گے، لیکن جاریہ دستور کیمطابق اس کی بھی توقع ان کو کم ہوگی کیونکہ ابھی تو یہ اسکول میں تھے اور اس کے بعد ان کے والدین نے انھیں کالج اور پھر کسی جامعہ میں بھی تعلیم دلانا ہوگی اور پھر شاید لڑکے کی نوکری کے مرحلے بھی طے ہونگے کہ ہمارے ہاں کسی بیروزگار سے کوئی اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرتا ۔
راقم کے گزشتہ کالم کے جواب میں محمد وسیم الٰہی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ گجرانوالہ نے ایک ای میل بھیجی جس میں انھوں نے ایک طویل پرپوزل چیف جسٹس کو اسی موضوع کے حوالے سے بھیجا تھا، ان کا موقف تھا کہ مغرب کی چیزیں ہم اپنے ہاں لے آتے ہیں تو اس قسم کے معاملات درپیش آتے ہیں۔ لہذا ایسے جوڑوں کو جو اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتے ہیں عدالت کی طرف سے عزت اور تحفظ ملنا چاہیے، ہمارے ہاں ارینج میرج کے نام پر فورس میریج ہورہی ہیں جو درست نہیں، دیر سے شادی اور بغیر رضامندی کے شادی خوشگوار زندگی کو ختم کررہی ہے۔
راقم کا بھی یہی خیال ہے کہ فورس یا دباؤکے ساتھ اور دیر سے شادیاں ہمارے معاشرے میں گھمبیر مسائل کو جنم دے رہی ہیں اور ہمارے ذرائع ابلاغ اس میں پیش پیش ہیں کیونکہ وہ فرائیڈ کے نظریے کو اپنانا اپنا کاروباری حق سمجھتے ہیں۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مغرب کی غلطیوں سے سبق حاصل کریں، اپنے ماحول ، کلچر کو اور ضروریات کو دیکھیں اور اس ضمن میں جامعات کے پروفیسر خصوصی طور پر تحقیق کریں کہ ہمارے لیے ذرائع ابلاغ کی پالیسیاں کیا ہونی چاہیے۔(واضح رہے کہ قابل پروفیسرز کی ہمارے ہاں کمی نہیں ، ڈاکٹر نثار احمد زبیری جیسے محقق موجود ہیں جو پہلے بھی اس قسم کی کامیاب تحقیق کرچکے ہیں)۔ نیز معاشرتی مسئلے پر بغیر تحقیق کے قانون سازی نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر پر شادی کی پابندی کا قانون بلا تحقیق منظورکردیا گیا۔ اگر اس طرف توجہ نہ دی تو ایسے واقعات کی شرح مستقبل میں اور بھی بڑھ جائے گی۔