شامی پناہ گزینوں کا معاملہ

سعودی عرب میں جن پانچ لاکھ شامیوں کی بات کی جاتی ہے یہ وہ مزدور ہیں جن میں سے ایک تعداد پہلے سے وہاں موجود تھی


Rafi Allah Mian September 13, 2015

اقوام متحدہ کا ہائی کمشنر برائے پناہ گزین UNHCR اس وقت سے شامیوں کی ان کے ملک سے باہر ہجرت کی تفصیلات ریکارڈ کرتا آرہا ہے، جب شام کے اندر خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی اور پھر چند ہی برس بعد اس خانہ جنگی نے واضح طور پر پراکسی وار کی صورت اختیار کی۔ امریکا اور روس کی طرح دو اسلامی ممالک نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر اپنے جنگجو اور اسلحے کے ڈھیر لگا دیے۔

ایک ٹولہ بشار کا سخت مخالف اور دوسرا اس کا پشت پناہ۔ اس شرم ناک جنگ نے جنگ عظیم دوم کے بعد ایک اور بڑے انسانی المیے اور ہجرت کو جنم دیا اور اب تک تین کروڑ سے زائد لوگ اس کے نتیجے میں بے گھر ہوچکے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ روس، امریکا اور یورپ سمیت مسلم ممالک اس کھیل کو تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اب تک تیسری عالمی جنگ چھڑ چکی ہوتی اگر امریکا کو یقین نہ ہوتا کہ وہ روس، شمالی کوریا اور ایران کے ایٹمی ہتھیار بردار میزائلوں کا براہ راست نشانہ بنے گا۔ امریکا جب شمالی کوریا کو بدی کا محور قرار دے رہا تھا اس وقت وہ خود بدی کے ایسے محورکا روپ دھار چکا تھا جس کے پنجے دنیا کے بکھراؤ میں پیوست تھے۔ ایک ایسا بکھراؤ جو ہمیشہ اپنے محرک کا شیرازہ بکھیردیتا ہے۔ امریکا کی مثال ایک بکھرے وجود کی طرح ہے جسے فرانس، برطانیہ، پاکستان اور سعودی عرب جیسے ممالک نے سہارا دیا ہوا ہے۔ ممالک کی سطح پر اس گٹھ جوڑ نے شامیوں کو بکھیر دیا ہے۔

پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے 2011 سے شامی پناہ گزینوں کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیا۔ اس وقت شام میں خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی تھی اور شامی لبنان اور ترکی کی سرحدوں کی طرف دوڑ پڑے تھے۔عرب بہارکے اثرات کو امریکا ابتدا ہی سے اپنے قابو میں کرتا آرہا ہے' شام میں بھی گلی کوچوں میں ہونے والے احتجاج کو طاقت سے کچلا جانا اس کی خواہش کے مطابق تھا۔ اس لیے اس نے ایک طرف باغیوں کو مسلح کیا اور دوسری طرف شدت پسند عناصر کی امداد شروع کی۔ ایران اور روس نے اگلا مورچہ سنبھال لیا اور بشارکی مدد میں میزائلوں اورکیمیائی ہتھیاروں کی سپلائی کا سلسلہ دراز کیا۔ بے رحم طاقتوں کی اس پراکسی وار میں شامیوں پر جو گزر رہی ہے اسے عالمی اور سماجی میڈیا نے ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔

دنیا کے دل میں شام کو برباد کرنے پر کوئی درد نہیں اٹھا لیکن اب برباد شامیوں کو جب سرچھپانے کی جگہ میسر نہیں تو دنیا کا دل دردمندی سے تڑپنے لگا ہے۔ شامی پناہ گزین ایک ایسا موضوع بنا ہے، جو انسانیت کے تناظر کا ایک اہم حوالہ ہے، اگر ہزاروں نامعلوم شامیوں کی اموات کو نظرانداز کرکے صرف معصوم بچے ایلان کا ہی ذکرکیا جائے تب بھی درد مند دنیا کا پہلا فریضہ اس کے چار بڑے مجرموں کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کرنے کا ہے جن میں دو غیر مسلم ہیں اور دو مسلم۔ بے آسرا شامیوں کو پناہ دینے کے معاملے پر شاطروں کا یہ کھیل آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے کہ اب مسلمان بھائی کہاں ہیں' یہ غیر مسلم ہیں جو شامیوں کو پناہ دے رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جن مخصوص مسلمان ممالک کا ذکرکیا جارہا ہے وہ تو خود غیر مسلم ممالک کی طرح اس خون ریز کھیل کا حصہ رہے ہیں۔ شامی دسترخوان پر شامیوں کے خون کے پیالے سب نے مل کر پیے۔ تو مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کی دھول کس کی آنکھوں میں جھونکی جارہی ہے؟ لیکن شاطر نے چند مسلم ممالک کے عمل کو سامنے رکھ کر پوری مسلم امہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کرکے اپنا باطن کھولا ہے۔ اقوام متحدہ تو امریکی مفادات کے ساتھ ساتھ حرکت کرتا ہے۔ اسی لیے شام میں خانہ جنگی پر ہجرت کے آغاز ہی پر اس کا ادارہ متحرک ہوگیا تھا تاکہ بعد میں ان تفصیلات کو حسب خواہش استعمال کیا جاسکے۔

پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق اب تک چالیس لاکھ سے زائد شامی ترکی، لبنان، اردن، عراق اور مصر میں پناہ گزین ہوچکے ہیں۔ یہ رجسٹرڈ تعداد ہے اور رجسٹرڈ نہ ہوسکنے والی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مختلف اسلامی ممالک میں پناہ گزینوں کی مشکلات اور تکالیف سے ذرائع ابلاغ نے آنکھیں پھیر رکھی ہیں اور وہ دنیا کو یہ بتانے پر آمادہ نہیں ہیں کہ اس اندوہ ناک المیے کے ذمے دار کون ہیں' ایک بچے کی تکلیف دہ موت کو وہ گلیمرائز کرکے پھر وہی کھیل کھیلنے لگے ہیں جو المیوں پر منتج ہوتا ہے۔

سعودی عرب نے شامی پناہ گزینوں کے لیے اب تک 280 ملین ڈالرز کی امداد دی ہے۔ جہاں تک اپنی زمین پر ان کو پناہ دینے کا معاملہ ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں میں کسی نے بھی تاحال اقوام متحدہ کے 1951 کے ریفیوجی کنوینشن پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

سعودی عرب میں جن پانچ لاکھ شامیوں کی بات کی جاتی ہے یہ وہ مزدور ہیں جن میں سے ایک تعداد پہلے سے وہاں موجود تھی اور انھوں نے اپنی مدت اقامت بڑھائی اور ایک تعداد 2011 کے بعد سے سعودی عرب میں کام کے اجازت نامے کے ساتھ داخل ہوئی اور اب جب کہ شامیوں کی نقل مکانی عروج پر ہے' وہ شامی جن کے پہلے سے سعودی عرب میں خاندان موجود تھے، وہ ان کے ہاں منتقل ہوئے۔ ان کی مجموعی تعداد اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق پانچ لاکھ ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری کاغذات میں انھیں پناہ گزین نہیں بلکہ ''مصیبت زدہ عرب بھائی بہن'' کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اپنی سرزمین پر کوئی پناہ گزین کیمپ قائم کرنے کو تیار نہیں ہے جس کی بہت سادہ سی وجہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔