ماضی کے چند مناظر

میں نے دیکھا کہ جے اے رحیم صاحب نے ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ کچھ دیر بعد رحیم صاحب نے ان تینوں کی طرف دیکھا


Hameed Ahmed Sethi September 14, 2015
[email protected]

HARIPUR: چکلالہ ایئرپورٹ راولپنڈی پر صدر ایوب خاں کو بیرون ملک دورے سے لانے والا جہاز لینڈ کیا تو انھیں خوش آمدید کہنے والوں کی قطار موجود تھی۔ ہوائی اڈے کی بالکونیوں پر یونیفارم پہنے اسکولوں کے بچے جھنڈیاں لہرا رہے تھے۔ ڈپٹی کمشنر میجر محمد اشرف کبھی وی آئی پی قطار اور کبھی جہاز کے رکنے کی جگہ کی طرف آ جا رہے تھے۔ دو بچے گلدستے پکڑے سب سے آگے کھڑے تھے۔ ایوب خان جہاز سے برآمد ہوئے۔ آخری سیڑھی اترتے ہوئے انھوں نے میجر اشرف کو اشارہ کیا اور اب وہ دونوں جہاز کی سائیڈ پر کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ ایسے موقع پر دو تین منٹ بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔

ایوب خاں کے چھوٹے صاحبزادے شوکت ایوب سے ایک پرائیویٹ اسپورٹس کلب میں ملاقات جو دوستی میں بدل کر میری شادی میں شرکت تک اور اس کے بعد بھی قائم رہی، آج کے پدرم سلطان بود کہلانے والوں سے مقابلہ کروں تو مجھے شوکت ایوب اور اختر ایوب کی انکساری اور عظمت کا احساس اس لیے ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی ملک کے صدر کے صاحبزادوں کے روپ میں ملے نہ کبھی ملاقاتوں میں ان کی زبان سے ایوب خاں کا نام تک سنا۔ جب ایوب خاں صاحب کا انتقال ہوا تو بوقت تدفین ان کے گاؤں ریحانہ میں ان کی قبر پر ایک مٹھی مٹی ڈالنے والوں میں میں بھی شامل تھا۔ ایئرپورٹ پر جو عزت ایوب خاں نے میجر محمد اشرف کو دی اس نے ڈی سی صاحب کو اصل قد سے کئی فٹ بلند قامت بنا دیا جس کا خمیازہ انھوں نے بھگتا۔

چکلالہ ایئرپورٹ پر دوسری پروٹوکول ڈیوٹی جو مکمل یاد ہے یوں تھی کہ اس بارے بھی چوہدری مقبول احمد پروٹوکول کلرک اسکول یونیفارم میں پاکستانی فلیگ کی جھنڈیاں پکڑے بچوں اور دو گلدستے تھامے بچوں کو لے ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ چوہدری مقبول گزشتہ 45 سال سے یہ ایئرپورٹ پروٹوکول ڈیوٹی انجام دے رہا ہے کہ اس کی ریٹائرمنٹ کی عمر افسران بالا نے تاحیات مقرر کر کے اسے آنریری مجسٹریٹ کا درجہ بھی دے رکھا ہے۔ اس بار چکلالہ ایئرپورٹ پر چین سے دورے کے بعد واپس آنے والی شخصیت وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھی۔ ان کے موٹر روٹ پر عوام کا ہجوم تھا۔ میں نئے ڈپٹی کمشنر حاجی محمد اکرم کے ساتھ کھڑا فضا میں جہاز کے رستے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے ڈی سی صاحب نے وی آئی پی لاؤنج کا چکر لگا آنے کا کہا کیونکہ فلائٹ کی آمد میں ابھی کچھ دیر تھی۔ وی آئی پی لاؤنج میں جناب جے اے رحیم ایک کرسی پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھنے میں مگن تھے، اسی اثناء میں عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفی کھر اور ممتاز بھٹو بھی کمرے میں داخل ہو کر رحیم صاحب کو آداب کرنے ان کے اردگرد مودب کھڑے ہوگئے۔

میں نے دیکھا کہ جے اے رحیم صاحب نے ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ کچھ دیر بعد رحیم صاحب نے ان تینوں کی طرف دیکھا۔ ان کے سلام کا جواب گردن ہلا کر دیا اور پھر مطالعے میں منہمک ہو گئے۔ میں لاؤنج سے نکلا تو انیسں بیس سال کے ایک لڑکے کو عام سی ٹی شرٹ اور پتلون پہنے اکیلے گھومتے پایا۔ کسی نے بتایا کہ وہ مرتضیٰ بھٹو ہے۔ اس عام سے کپڑوں میں ملبوس وزیر اعظم کے بیٹے کے گرد نہ مصاحب تھے نہ مسلح محافظ نہ وہ کسی کو دیکھ رہا تھا نہ کوئی وزیر مشیر اس کی طرف متوجہ تھا۔ مجھے آج کل کے چھچھورے چھوکرے یاد آ رہے ہیں جو کسی کے گھر فاتحہ خوانی پر مصاحبوں اور گاردوں کے جلو میں جاتے ہیں۔ اب مجھے وی آئی پی لاؤنج میں رحیم صاحب کا اسٹائل بھی یاد آ رہا ہے اور وہ خبر بھی ذہن میں آتی ہے کہ جے اے رحیم ایک میٹنگ میں سے بھٹو صاحب کے تادیر نہ آنے پر وہاں مزید انتظار کیے بغیر تنگ آ کر چلے گئے تھے تو اسی رحیم صاحب کو ان کی رہائش گاہ پر پولیس سے پھینٹی لگی تھی پھر بھٹو کی قابلیت کے ساتھ چمٹی رعونت، ضیاء الحق کی کاسہ لیسی، احسان فراموشی پر نظر ڈالیں تو ان کا انجام دیکھتے ہوئے صرف توبہ کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں۔

میں جب بھی کئی وزارتیں بھگتانے والے شیخ رشید کو کسی ٹاک شو میں بے تکان لیکن بعض اوقات پتے کی باتیں کرتے دیکھتا اور سنتا ہوں تو مجھے ہتھکڑی پہنے مسکراتا ہوا پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ پشاور روڈ راولپنڈی کا جوشیلا ایجی ٹیٹر طالب علم یاد آ جاتا ہے جسے پولیس نے ہنگامہ آرائی کے جرم میں گرفتار کر کے جیل بھجوانے کے لیے مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں پیش کیا تھا وہ اس کی نوعمری کی پہلی گرفتاری تھی۔ جرم قابل ضمانت تھا لہٰذا اس کی ضمانت منظور کرنے کے بعد مجھے شاید کچھ یاد بھی نہ رہتا اگر بیچ میں ایک اور ہم پلہ شیخ رشید نامی اسٹوڈنٹ لیڈر گورڈن کالج کی ہنگامہ آرائی ترک کر کے اور لاء پڑھ کر وکالت نہ شروع کر دیتا۔ اصل اسٹوڈنٹ لیڈر کون سا شیخ رشید تھا اس ایشو پر کنفیوژن ہی رہے گا تاآنکہ وہ دوسرا شیخ رشیخ کبھی منظرعام پر آئے۔

میرے پہلے ڈپٹی کمشنر میجر محمد اشرف فوج سے صوبائی سول سروس میں لیے گئے تھے۔ وہ راولپنڈی کے بڑے مضبوط اور دبنگ افسر تھے۔ صدر پاکستان جنرل ایوب خان کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ ان کے علاوہ جناب ایم ایچ شاہ کمشنر راولپنڈی ڈویژن تھے جن کے بھائی معروف قانون دان جسٹس نسیم حسن شاہ تھے۔ یہ تھے تو دونوں Talented لیکن دونوں کے ساتھ اچھا نہ ہوا۔ جج صاحب کے ساتھ تو بھٹو ٹرائل کے حوالے سے کئی باتیں منسوب ہوئیں، اپنے کمشنر صاحب کے معاملے کا میں عینی شاہد ہوں۔ ان کے گھر یعنی کمشنر ہاؤس میں شادی کا ہنگام تھا، کوٹھی بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ مہمانوں کی آمد کے ساتھ تحائف بھی کاروں کی ڈگیوں اور ساتھ آئی وینز میں سے اتارے اور کوٹھی میں پہنچائے جا رہے تھے۔ جس تعداد میں گفٹ لائے اتارے اور اندر لے جائے جا رہے تھے نہ کبھی پہلے دیکھے نہ بعد میں مہمانوں اور تحائف کا تانتا بندھا ہوا تھا۔

جناب ایوب خاں نے بوجہ علالت صدارت جنرل یحییٰ خاں کے سپرد کی تو انھوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا وار بیورو کریسی پر کیا اور کرپشن کے الزام پر 303 افسروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔ مجھے میرے افسر ڈپٹی کمشنر نے راولپنڈی لاہور راولپنڈی کا ایک ہی دن کا پی آئی اے کا ریٹرن ٹکٹ دے کر کہا کہ لاہور ایئرپورٹ پر چیف سیکریٹری کا نمایندہ تمہیں سیکریٹریٹ لے جانے کے لیے ملے گا۔ چیف سیکریٹری تمہیں ایک سیل شدہ لفافہ دیں گے، تم اگلی فلائٹ پر اسے لے کر واپس آؤ اور میرے سپرد کرو۔ اس لفافے میں پنجاب سے ڈسمس کیے جانے والے افسروں کے کوائف تھے۔ وہ میرا پہلا ہوائی سفر تھا اور سروس سے نکالے گئے 303 افسروں میں میرے پہلے ڈپٹی کمشنر اور کمشنر تھے یعنی میجر محمد اشرف اور ایم ایچ شاہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں