کسان بنام میاں صاحبان
آپ دونوں بھائیوں کی حکومت میں ہم کسانوں اورزمینداروں کی زندگی میں حیرت انگیز اور خوشگوار تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں
پیارے میاں صاحبان، اسلام علیکم!
جس دن سے آپ دونوں بھائیوں کی حکومت قائم ہوئی ہے ہم کسانوں اورزمینداروں کی زندگی میں حیرت انگیز اور خوشگوار تبدیلیاں رونما ہونے لگی ہیں۔ اب اس بے ثبات اور بے بساط دنیا سے ہمارا دل اٹھنے لگا ہے۔
آپ بھائیوں کا اقتدار میں آنا ہم لوگوں کیلیے بے پناہ سعد اور نیک ثابت ہوا ہے کہ ہم آپ کو بتاہی نہیں سکتے۔ آپ یقین کیجیے کہ اب ہمارا دل کسی دنیاوی جھنجھٹ یامشغلے میں نہیں لگتا۔ اب ہم سال کے 12 مہینے اور 30 دن صرف آخرت کی فکر میں گزار دیتے ہیں۔ آپ کی آمد سے پہلے ہم خواہ مخواہ کی منافع بخشی اور خوشحالی جیسے سفلے اور گھٹیا معاملات میں پڑ کر امارت کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ آپ اور پیپلزپارٹی کے سنہرے دور میں خوشحالی اور ترقی کا تصور بھی گناہِ کبیرہ سے کم نہیں ہے۔
اس ذلت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان آخرت کو فراموش کر کے دنیا دار بن جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے جنرل پرویز مشرف کے سیاہ دور میں ہوا کرتا تھا۔ اس گھناؤنے دور کی بے لگام فراوانی نے ملکی شرح نمو کو ساڑھے 7 فیصد تک پہنچا دیا جس نے دولت کی وہ ریل پیل کی کہ قوم اپنا مقصد حیات ہی فراموش کر بیٹھی۔ ہم کسانوں نے بھی چار، چار ٹریکٹر اور دو، دو گاڑیاں خرید کر امیرانہ زندگی شروع کر دی جو کہ باقاعدہ گناہ ہے اور جس کی سخت ممانعت ہے۔
بہرحال، آپ کے تشریف لاتے ہی ہم پوری قوم بالعموم اور کسان بالخصوص راہِ راست پر آنے لگے۔ آپ اور آپ کے لائق فائق مشیروں، وزیروں کی شبانہ روز محنت اور بھرپور کوشش سے ہمارے یہاں بیج، کھاد، بجلی اور تیل وغیرہ بھارت کے مقابلے میں 4گنا مہنگا ہو چکا ہے چنانچہ اب مقامی زمینداروں کو اس ذلالت میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اب پورے ملک کو اناج و دیگر زرعی اجناس مہیا کرنے کی ذمہ داری بھی بھارت پر ہی ڈال دینی چاہیے تاکہ ہمارا یہ ازلی و ابدی دشمن مزید منافع خوری کی دلدل میں دھنستا چلا جائے۔ سقوط ڈھاکا کا اس سے بڑا انتقام بھلا اور کیا ہو گا، ہیں جی؟
پھر رہی سہی کسر ہمارے کرپٹ افسروں اور منافع خور آڑھتیوں نے نکال دی ہے۔ ان لوگوں نے بھی لاشعوری طور پر ہمیں آخرت کے راستے پر لگا کر بہت بڑی نیکی کمالی ہے۔ ان کی کوششوں سے مارکیٹ جعلی کھاد، نقلی دوائیوں اور غیر معیاری بیج سے اٹی پڑی ہے۔ اسٹوریج کی سہولت نہ ہونے کے سبب کٹائی کے سیزن میں ہمیں ریٹ اس قدر کم ملتا ہے کہ ہم اپنی جنس منڈی پہنچانے کی بجائے اکثر نہروں میں ہی بہا دیتے ہیں۔ اس سے مچھلیوں، مینڈکوں ، کچھووں اور مگر مچھوں کو وافر خوراک ملتی ہے جس سے خدا یقینا خوش ہوتا ہو گا اور ہمارے درجات یونہی بیٹھے بٹھائے بلند ہوتے رہتے ہیں۔
زرعی تحقیق وغیرہ کے نام پر جو کھلواڑ پچھلے کئی سالوں سے یہاں ہو رہا ہے وہ شکر ہے ہم تک پہنچتا ہی نہیں۔ اور اگر کوئی ایک آدھ پتے کی بات یہ نام نہاد زرعی سائنسدان دریافت کر بھی لیں تو ابلاغِ عامہ کے ذریعے ہم تک پہنچ ہی نہیں پاتی کہ آپ دونوں و دیگر وزرائے اعلیٰ میڈیا میں اپنے اشتہارات چلا چلا کر کوئی جگہ ہی نہیں چھوڑتے کہ جس پر آگہی وغیرہ کی بکواس چھاپی جا سکے۔ چنانچہ ہماری حالت بفضلِ وزیراعظم و تمام وزرائے اعلیٰ جوں کی توں رہتی ہے اور ہم بھارتی کسانوں کی طرح خوشحالی اور فراوانی کے گھٹیا اور غیر فطری راستے پر نہیں چل نکلتے، آپ سب کا شکریہ۔
شکر ہے کہ آپ لوگوں نے ہمارے لیے ملکی و بین الاقوامی منڈیاں تلاش کرنے کا قصد کبھی نہیں کیا ورنہ آپ اور بھارتی کفار میں بھلا کیا فرق باقی بچتا۔ رومن ایمپائر سے لیکر امریکا اور بھارت تک، فاسق و فاجر حکومتیں ہمیشہ اپنے کسانوں کیلیے نت نئی ملکی و غیر ملکی منڈیاں تلاش کر کے انھیں ہوسِ زر میں مبتلا کرتی چلی آئی ہیں۔ یہ کرپشن کی بدترین قسم ہے اور ایسی واہیات قوموں کا یہی انجام ہونا چاہیے۔
ادھر ہمارے معاملات آپ کی کوششوں کے سبب بالکل برعکس ہیں۔ مارکیٹ اول تو ملتی ہی نہیں، اور اگر تھوڑی بہت مل بھی جائے تو بھارتی اجناس اپنی قیمتوں کی وجہ سے ہمارے مال کی وہ چھترول کرتی ہیں کہ ہمیں نانی یاد آ جاتی ہے چنانچہ ہم سارا سال فکرِ معاش کی بجائے فکرِ آخرت میں پڑے رہتے ہیں اور اس نیکی کا ثواب اب آپ کی حکومتوں کو براہِ راست ملتا رہتا ہے۔
پوری قوم کے کسان، ہاری اور زمیندار آپ سمیت ان تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جنھوں نے بڑے ڈیم نہ بنا کر پانی کو انتہائی کمیاب کرڈالا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ صورتحال نہ ہوتی تو ہم بھی یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہا کر عرب کے بدؤں کی طرح دولت کے پچاری بن چکے ہوتے، ہیں جی؟
حتیٰ کہ آپ لوگوں کی نا اہلی اور بد حکومتی بھی ایک طرح سے ہماری معاونت ہی کرتی ہے۔ مثلاً زرعی اجناس کی ایکسپورٹ پر حکومتی کنٹرول نہ ہونے کے مترادف ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر یہاں کے کرپٹ افسران اور منافع خور ایکسپورٹر چاول سے لیکر آٹے تک میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور امریکا وغیرہ میں ہماری اجناس کو گھٹیا اور ناقابل استعمال قرار دیا جانے لگا ہے۔
تاہم زراعت چونکہ ہماری قومی پیداوار کا 20 فیصد ہے اور آپ کی 50فیصد ورک فورس کو روز گار مہیا کرتی تھی، اب ایسا ممکن نہیں رہے گا۔ چنانچہ مودبانہ گزارش ہے کہ تعزیرات پاکستان میں تھوڑی ردو بدل کرکے کسانوں کو خود کشی وغیرہ کرنے کی قانونی طور پر اجازت دی جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم آپ کی حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں سرکاری سطح پر ہماری معاونت کی جائے اور ہر ضلع میں انفرادی و اجتماعی خود کشی کی سہولت مہیا کی جائے۔ اگر ممکن ہو سکے تو میٹرو بس کے نمونے پر ''میٹروگیس چیمبر'' تیار کروائے جائیں۔ اس کیلیے ترکی ہی نہیں جرمنی بھی تعاون کرنے کو تیار ہو سکتا ہے کہ ہٹلر کے ماننے والے آج بھی وہاں بہت ہیں۔
وسلام
سفرِآخرت پر گامزن آپکے شکر گزار کسان