سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد تیزی سے کم ہوکر آدھی رہ گئی ہے ڈبلیو ڈبلیو ایف

ٹیونا، سرمئی اور دیگر اہم مچھلیوں کی تعداد 75 فیصد تک کم ہوچکی ہے


/Reuters September 17, 2015
ٹیونا، سرمئی اور دیگر اہم مچھلیوں کی تعداد 75 فیصد تک کم ہوچکی ہے، فوٹو:فائل

ورلڈ وائڈ فنڈ فارنیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے کہا ہے کہ 1970 سے اب تک دنیا کے سمندروں میں موجود مچھلیوں کی مقدار نصف ہوچکی ہے اور اب عالمی فشریز مکمل تباہی کے دھانے پر آگئی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف اور لندن میں حیوانات کی سوسائٹی کی جانب سے جاری مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدانتظامی دنیا کے سمندروں کو تباہی کے کنارے پہنچاچکی ہے جس کے باعث کم ہونے والی مچھلیوں میں تجارتی مچھلیاں ٹیونا، سرمئی اور دیگر اہم مچھلیوں کی تعداد 75 فیصد تک کم ہوچکی ہے۔

ڈبلیوڈبلیوایف کے سربراہ مارکو لمبرٹنی کے مطابق عالمی مچھلیوں کی تعداد میں بہت بہت واضح کمی ہوئی ہے جس سے سمندر میں غذائی زنجیر متاثر اور اربوں افرااد کا غذائی تحفظ خطرے میں ہے تاہم سمندر خود کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 1970 سے 2012 تک مچھلیوں، سمندری ممالیوں اور دیگر جانداروں کی تعداد میں 49 فیصد کمی نوٹ کی گئی جب کہ مچھلیاں اب آدھی رہ گئی ہیں۔

گزشتہ 42 سال میں ڈولفن، کچھوؤں، سیلز، شارک اور دیگر 1234 انواع کے لیے مختلف آبادیوں پر نظر رکھی گئی جس سے پتا چلا کہ انسانی زندگی کے درمیان لاتعداد سمندری جانور ختم ہورہے ہیں جن میں سمندری مونگے، مرجانی چٹانوں اورمینگرووز کی تباہی سے سمندری حیات متاثر ہورہی ہے کیونکہ یہ مقامات جانداروں کی نرسری کہلاتے ہیں۔

واضح رہے کہ اس سال سمندری حیات کو بچانے کا ایک بین الاقوامی منصوبہ بھی شروع ہورہا ہے جس کے تحت 2020 تک سمندروں میں مچھلیوں اور دیگر سمندری جانوروں کے مراکزکو بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں