دل میں چاند کا عکس نظر میں سمندر ہے

اگر چاند نہ ہوتا تو سمندر کس قدر ادھورا ہوتا۔ چاند اور سمندر کے درمیان کشش کا تعلق ازل سے قائم ہے


Shabnam Gul September 16, 2015
[email protected]

KARACHI: اگر چاند نہ ہوتا تو سمندر کس قدر ادھورا ہوتا۔ چاند اور سمندر کے درمیان کشش کا تعلق ازل سے قائم ہے اور ابد تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ شاعر کا احساس چاند کے ارد گرد گھومتا ہے اور جذبوں کی لہریں سمندر کے خواب بنتی ہیں۔ بلائی ٹس بھی اپنی نظم میں بے اختیار کہہ اٹھتی ہے۔

جس ملک میں موسم بہار سمندر کے
بطن سے جنم لیتا ہے
جہاں تہہ در تہہ بھوری چٹانیں
دریاؤں کو جنم دیتی ہیں
میں بلائی ٹس اس ملک میں پیدا ہوئی

سمندر کی قربت میں وسعت ہے۔ ایسی کشادگی، جس میں پوری زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ یہ سمندر بھٹائی کی شاعری کا بھی محور رہا ہے۔ گو کہ شاہ جو رسالو میں شامل یہ سُر کوئی راگنی نہیں ہے، تاہم سمندر کی وسعت اور گہرائی کو سُرسامونڈی کا نام دیا گیا ہے۔

یہ ایک نہ ختم ہونے والا انتظار ہے۔ جس کا دوسرا کنارہ نہیں ہوتا۔
گر قدم بر چشم من خواہی ناد
دیدہ در رہ نہم تامی رومی
(رومی)
چاہے اپنے قدموں سے میری آنکھیں بند کر دو
مگر یہ آنکھیں تمہاری راہیں تکتی رہیں گی
تمہارا سایہ معدوم ہونے تک
یہ انتظار کی کشتی ہے اور وقت ایک بے کراں سمندر کی مانند ہے۔
یہ بحری تاجروں کے کارواں ہیں
جو لمبے سفر پر روانہ ہوں گے
تیرے حق میں غنیمت یہ گھڑی ہے
کہ پھر یہ لمحے شاید ہی پلٹ آئیں

یہ سمندر گہرائی کا استعارہ ہے۔ کائنات کے اسراروں میں سے ایک ہے۔ فطرت انسانی کی طرح عمیق ہے۔ ہزاروں بھنور اس کی لہروں میں مچلتے ہیں۔ لہٰذا صاحب سمندر کی زندگی کے لاتعداد رنگوں سے مزین جذبوں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ بھٹائی کی شاعری میں یہ سمندر وحدت بھی ہے تو انتشار کا مرکز بھی۔ جس کا ہر لمحہ پر خطر ہے۔ بظاہر سطح پر سکون نظر آتی ہے۔ مگر اس ارتکاز کے اندر ایک گہری ہلچل موجزن ہے۔ گویا کہ سکوت نظر کا دھوکا ہے۔

جو سامنے ہے وہ سچ نہیں ہے۔ سچائی کچھ اور ہے، جو نظر سے اوجھل ہے۔ یہ صوفی کے من کا کھوج ہے جو کائنات کے راز تک پہنچنا چاہتا ہے اور مظاہر فطرت کے ذریعے وہ خالق کائنات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ نفی یا اثبات سوچ کے دو رخ ہیں۔ ارتکاز بھی ایک کیفیت ہے، جو انتشار پر حاوی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا نفی دائمی رویہ نہیں ہے، البتہ اثبات کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اندھیرا روشنی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ بے یقینی کی تاریکی سے لڑنے کے بعد یقین کا سورج طلوع ہوتا ہے۔

لہٰذا یہ تمام تر مظاہر فطرت شاہ صاحب کے لیے حقائق اور دائمی سچائی تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ سُر سارنگ بارش کے مناظر کا خوبصورت اظہار ہے۔ یہ ایک ایسا راگ ہے، جو برکھا رت میں گایا جاتا ہے۔ اس سُر سارنگ کا ذکر پہلے کسی کالم میں کر چکی ہوں۔ اس کے بعد سُر سری راگ ہے، جو پوربی ٹھاٹھ کی راگنی کہلاتی ہے۔ جسے سراگ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ راگ شام چار بجے سے رات آٹھ بجے تک گایا جاتا ہے۔ یہ سُر سمندر کی پرکیف زندگی کا آئینہ ہے۔

شام سے لے کر رات تک سمندر ایک عجیب کیفیت میں ہوتا ہے۔ اسی دوران زمین کیمیائی عمل سے گزرتی ہے۔ لمحہ لمحہ گزرتا ہوا وقت فطری زندگی میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی دوران زمین اور فضا کیمیائی عمل سے گزرتے ہوئے رنگ بدلتی ہے۔ یہ بدلتے اوقات کار ذہن، جسم و روح پر مختلف اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ بات فقط حساس دل جانتا ہے، جو فطرت کے قریب تو ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بحری مسافر، ملاح، کشتیاں زندگی کے استعارے ہیں۔ یہ انسانی عزم، عمل اور جدوجہد کی تمثیلیں ہیں۔ یہ ملاح کی ہمت و دور اندیشی کا عجب امتحان ہے۔ کیونکہ رہبری آزمائش ہے۔

عمل کے معیار پر پورا اترنا، راستہ دکھانے والے کی ضرورت ہے۔ کردار کی اس کسوٹی پر پورے اترنے والے رہنما بہترین مثال قائم کرتے ہیں۔ صحیح رہبر وہ ہے، جو انسانی زندگیوں کا محافظ ہو۔ ذہن و روح کی آبیاری کرتا ہو۔ رہبری خطرات کا سامنا کرتی ہے۔ قافلے تقلید کرتے ہیں۔ لہٰذا شاہ جو رسالو کے یہ سُر بارشوں سے لے کر ندی نالوں و سمندر تک موضوع اور انداز بیاں میں گہری معنویت رکھتے ہیں۔ پانی زندگی عطا کرتا ہے۔ اس کا عمل ہے سیراب کرنا۔ جو چیز اپنی صفت میں صحت بخش ہے، اس کے عطا کرنے کے عمل میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔ یہ روح کی راحت بھی ہے تو آنکھوں کی ٹھنڈک بھی۔ یہ علم کا استعارہ ہے اور علم کے حصول کی تمثیل بھی۔ ہر لحاظ سے پانی انسان کے ذہن، جسم و روح کی ضرورت ہے۔

یہ قطرے سے گہر بنتا ہے۔ انفرادی خاصیت رکھنے کے باوجود اجتماعیت کا مربوط حوالہ ہے۔ جز، کل کا حصہ ہے۔ اجتماعی عمل کی نفی نامکمل ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ قانون فطرت کو جھٹلا کے انسانی زندگی خوشی یا خوشحالی کے راستے نہیں اپنا سکتی۔ فطرت کہیں نہ کہیں راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ سُر سامونڈی سمندر کی زندگی کا تسلسل ہے۔ جو انتظار کی تمثیل ہے۔سمندر عطا کرتا ہے۔ اس کی گہرائی میں عمیق خزانے چھپے ہیں۔ یہ قدیم زمانے میں رابطے اور کھوج کا واحد ذریعہ تھا۔

ایسے موتی ہیں تیرے دامن میں
تاک میں جن کی اک زمانہ ہے
رہزنوں کا بھی وہی مسکن
موتیوں کا جہاں خزانہ ہے

چاند اور سمندر کا ذکر بھٹائی کی شاعری میں جابجا ملتا ہے۔ خاص طور پر سمندر کی گہرائی اور صوفی کا من ایک جیسے ہیں یہ کھوج سیپ میں بند موتی کی طرح ہیں۔ جتنا گہرائی میں انسان اترتا چلا جائے گا، زندگی کا عرفان و آگہی اسے عطا ہوگا۔ ادراک کے بند دروازے ایک ایک کر کے اس پر کھلتے چلے جائیں گے۔ تلاطم خیز موجوں کی یورش میں سنبھل کر ناؤ کو آگے بڑھاتے رہنا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کئی سفینے ڈوب جاتے ہیں۔ جہاز غرق ہوتے ہیں۔ ایک بھنور کے بعد دوسرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس سمندر کی ہوائیں پرکیف بھی ہیں۔ یہ غفلت کا مسکن بھی ہے۔ اس کی خوبصورتی، کیف و مستی خود فراموشی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنا:

اس میں آتے ہیں نت نئے طوفان
اے مسافر یہ بحر ہستی ہے

جو سمندر کے سفر پر نکلے ہیں۔ پیچھے منتظر نگاہیں اور ترستا ہوا دل چھوڑ گئے ہیں۔ یہ انتظار ہر محبت بھرے دل کا مسکن ہے۔
یہ صوفی کا قرار بھی ہے اور روح کی راحت بھی، جو اسے ہر دم دکھی کرتی رہتی ہے۔ یہ انتظار کی کسک ہے، جو اسے جینے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ ساحلوں کی ہوائیں دور جانے والے پردیسیوں کو بلاتی ہیں۔

لبوں پر بحر ذکر کا مسلسل
دلوں میں موج و طوفاں کی صدا ہے
دیار دوست سے پیغام آیا ہے
کوئی سوئے طلاطم کھینچنا ہے

شاہ صاحب کی شاعری میں پانی کا ذکر جابجا ملتا ہے۔ کیونکہ سیراب کرنے کے ہنر کے پیچھے تشنگی کا ایک طویل صحرا ہے۔ جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ گہری جستجو کبھی سیراب نہیں ہوتی۔ انتظار کے سامنے راستوں کا حسن ختم نہیں ہوتا۔ بقول شاہ صاحب کے سراب کی خود فریبی بھی مزا دیتی ہے۔ جوتشنگی طلب کے من کو جلا رہی ہے۔ اسے ہزاروں سمندر بھی نہیں بجھا سکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں