وزیراعظم نواز شریف اور ہمارا کسان
اسے نقصان اور ضعف پہنچتا ہے تو پورے ملک کو نقصان پہنچنے کا شدید اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ملک بھر کے کسانوں اور کاشتکاروں کے لیے تین سو اکتالیس ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ مقصد اور نیت یہ ہے کہ مختلف النوع معاشی مسائل اور مصائب میں گھرے کسانوں کی اعانت اور دستگیری کی جائے۔ کئی اطراف سے اس فیصلے کو انقلابی قدم قرار دیا گیا ہے جس سے ہمارے کسان کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے مسائل زدہ کسانوں کی چیخیں ملک بھر میں سنائی دے رہی تھیں۔ خصوصاً پنجاب اور سندھ کا کسان اپنی گندم، کپاس اور گنّے کی فصلوں کے حوالے سے بہت ہی زیادہ مشکلات میں گھِر چکا تھا اور بجا طور پر چاہتا تھا کہ حکومت آگے بڑھے اور حکومت اگر اس کے کمر شکن مصائب کو کامل طور پر ختم نہیں کرسکتی تو کم از کم کچھ ریلیف تو دے۔ کسانوں اور کاشت کاروں نے کئی شہروں اور قصبوں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے اور بدقسمتی سے پولیس کا تشدد بھی سہا۔
اپوزیشن نے اس منظر کو بروئے کار لا کر نواز حکومت کے خلاف ایکسپلائٹیشن کی بھرپور کوشش تو کی لیکن خاطر خواہ کامیابی اس کا مقدر نہ بن سکی۔ بلاول بھٹو زرداری، جو لاہور میں چند گھنٹے نواز و شہباز حکومت کے خلاف شعلہ فشانی کے بعد دبئی پدھار گئے، نے بھی مصیبت زدہ کسانوں کے حق میں آواز بلند کی۔ اس آواز میں پی ٹی آئی کی آواز بھی شامل تھی۔ جناب نواز شریف کی حکومت، جسے بیک وقت بہت سے محاذوں پر رزم آرائی کرنا پڑ رہی ہے، ان آوازوں سے یقینا بے خبر اور بے پروا نہیں تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ اسے ان آوازوں سے بے خبر اور بے پروا ہونا بھی نہیں چاہیے تھا کہ کسان ہی اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
اسے نقصان اور ضعف پہنچتا ہے تو پورے ملک کو نقصان پہنچنے کا شدید اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے؛ چنانچہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے عین وقت پر بلا استثناء ملک بھر کے کسانوں اور کاشتکاروں کے مسائل اور معاشی پریشانیاں کم سے کم تر کرنے کے لیے 341 بلین روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر ملک کے کسانوں کے مسائل بڑے ہیں تو یہ رقم بھی خاصی بڑی ہے۔ اسے معمولی خیال نہیں کیا جانا چاہیے اور امید رکھی جانی چاہیے کہ مسائل زدہ کسانوں تک یہ رقم دیانتداری سے اور بروقت پہنچ جائے گی اور یہ بھی کہ کسان کو اس سرکاری ریلیف کے حصول کے لیے ذلّت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا نہ در درد کی ٹھوکریں کھانی پڑیں گی۔ جناب وزیراعظم کے اس بروقت فیصلے اور اعلان کی تحسین کی جانی چاہیے۔
ہم جب پاکستان اور بھارت کے کسانوں کے مسائل اور مصائب کا تقابل کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں ہمسایہ ممالک کے کسان ایک ہی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ یکساں طور پر پِس رہے ہیں۔ بعض اوقات تو یوں بھی محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستانی کسان کے مقابلے میں بھارتی کسان زیادہ مہیب مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ بہت سے گمبھیر مسائل کے باوجود پاکستان میں ابھی تک کسی کسان نے دل برداشتہ ہو کر خود کشی کا ارتکاب نہیں کیا ہے، جب کہ یہ سانحہ بھارت میں کئی بار سامنے آ چکا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں بھارت کے دارالحکومت، دہلی میں ایک سکھ کسان نے عین اس وقت اپنی ہی پگڑی کے ساتھ درخت سے پھندا لے کر اپنی جان لے لی جب دہلی سرکار کا وزیراعلیٰ اروند کجری وال سیکڑوں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کر رہا تھا۔
اس واقعہ نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا اور دنیا بھر کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ بھارتی کسان کن سنگین مسائل سے گزر رہے ہیں۔ (انڈیا کے ''نیشنل کرائم ریکارڈز'' بیورو کے مطابق 2004 میں 18 ہزار 241 کسانوں نے اور 2014 میں 13 ہزار 754 بھارتی کسانوں نے خود کشی کی) یہ درست ہے کہ بھارتی حکومتیں اپنے کسان کو مختلف قسم کی رعایتیں اور سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ مثلاً: بجلی کی قیمتوں میں ارزانی، سستے بیجوں کی فراہمی، کھاد میں خاصی زیادہ سبسڈی، فصل کی سرکاری سطح پر فوری خریداری اور نہایت کم شرحِ سود پر زرعی قرضوں کی ادائیگی وغیرہ لیکن اس کے باوصف بھارتی کسان کے مسائل کم نہیں ہو رہے۔ وہ ملک بھر میں بار بار سراپا احتجاج بن رہا ہے اور مودی سرکار کے لیے مسلسل دردِ سر بنا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر راجھستان ریاست کے کسانوں کی مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت جو رفتہ رفتہ مسلح بھی ہوتی جا رہی ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں نواز حکومت کو ایسے حالات کا سامنا ہے نہ وطنِ عزیز کا کسان کسی بھی قسم کی بغاوت پر آمادہ نظر آتا ہے۔ گویا ہمارا کسان بھارتی کسان کی نسبت زیادہ صابر و شاکر اور وطن سے محبت کرنے والا ہے۔ حکمرانوں کو مگر ہمارے کسانوں کے صبر و شکر کا مزید امتحان لینے سے گریز کرنا چاہیے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران آنے والے مسلسل سیلابوں، جن میں بھارتی آبی جارحیت کا بھی یکساں کردار ہے، نے ہمارے چھوٹے کاشتکاروں کا بھرکس نکال دیا ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے بعض علاقے، جو نشیبی سیلابی علاقوں میں شمار ہوتے ہیں، زیادہ تباہی کا ہدف بنے ہیں۔ یہی علاقے کپاس کا مرکز ہیں۔ چاول اور گنّے کی فصلیں بھی تباہ ہو گئیں اور کسان ہر لحاظ سے بدحال۔ میرا تعلق خود ایک کسان خاندان سے ہے۔
مَیں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ گندم، کپاس اور دھان کی فصلیں کاشت کرنے سے لے کر کٹائی اور گہائی تک کن جان لیوا مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور ذراسی آسمانی آفت سے بے نوا کسان پر کیسی کیسی آفتیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔ قرض اور ادھار پر لیا گیا ڈیزل، بیج اور کھاد آسمانی آفت کے نازل ہونے سے وبالِ جان بن جاتے ہیں لیکن قرض دینے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے کہ قرض دار کسان کس عذاب سے گزر رہا ہے۔ یہ عذاب سیلاب کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے اور خشک سالی کی صورت میں بھی۔ قرض دینے والوں کو تو سُود سمیت اپنے پیسوں سے غرض ہوتی ہے۔ مجھے یہاں اپنے والد مرحوم یاد آ رہے ہیں۔ جب چنے اور مسور کی فصل ابھی جوان ہو رہی ہوتی اور آسمان پر لشکارے مارتی بجلی کڑکتی تو والد صاحب صحن میں بے قراری سے چکر لگاتے اور کہتے جاتے: ''فصل تباہ ہو جائے گی، یہ بجلی پھول جھاڑ دے گی۔''
شہروں میں رہنے والوں کو کیا خبر کہ دیہات کا باسی کسان اس قسم کے لاتعداد ذہنی اور معاشی مصائب سے ہر سال گزرتا ہے۔ اس کی کمر بار بار ٹوٹتی رہتی ہے اور وہ قرضوں تلے دبتا دبتا قبر میں جا سوتا ہے۔ یہ چھوٹے کاشت کاروں اور کسانوں کا مستقل اور مسلسل المیہ ہے۔ بڑے زمیندار اور جاگیردار تو ہمیشہ موج میں رہتے ہیں۔ وہ بینکوں سے بڑے بڑے زرعی قرضے لے کر ڈکار جاتے ہیں اور کوئی حکومت اور حکمران ان کا بال بیکا بھی نہیں کر سکتا۔ چھوٹے کسان اور کاشت کار کو اگر کبھی بدقسمتی سے زرعی قرضہ مل بھی جاتا ہے تو بینک والے اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ دانستہ اس کی عزتِ نفس کو مجروح کیا جاتا ہے اور بار بار کیا جاتا ہے۔ نواز حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر کوئی ایسا قانون بھی وضع کرے جو بینک اہلکاروں کو قرض دار کسان کی ناک رگڑنے سے روک سکے۔
وزیراعظم جناب محمد نواز شریف نے ہمارے مسائل زدہ بہت سے کسانوں کی دستگیری اور اعانت کے لیے 341 بلین روپے مالیت کے جس ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے، یہ اقدام قابلِ ستائش ہے۔ (بعض اصحاب نے اس میں اگرچہ مینگنیاں ڈالنے کی بھی کوشش کی ہے) وزیراعلیٰ شہباز شریف کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ہمارے کسانوں کے لیے اس طرح کا کوئی پیکیج پاکستان کی تاریخ میں آج تک سامنے نہیں آیا تھا۔ یہ شاندار اور قابلِ فخر توفیق خدا نے نواز شریف کو بخشی ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ حقدار کسان کو فوری طور پر اس کا حق پہنچے۔ انصاف کے عین تقاضوں کے مطابق کسان کی دہلیز پر۔ درمیان داروں اور استحصالی ہاتھوں کو یہ ریلیف پیکیج لوٹنے کا نہ موقع ملنا چاہیے اور نہ ہی عمّالِ حکومت کو اس کی اجازت دینی چاہیے۔ اس کے لیے سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔ تبھی ہمارا کسان وزیراعظم نواز شریف کے اس شاندار امدادی اور اعانتی پیکیج سے مستفید ہو سکے گا۔