شب خوں کی دلچسپ بازگشت
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں کہ احتساب کرنے کا حق عوام کو ہے،
KARACHI:
یوں گماں ہوتا ہے جیسے سب نے ہتھیار پھینک دیے ہوں۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ سب اچھا ہے کوئی اگر جنرل راحیل کے فوٹو چوراہوں پر چسپاں کرے کوئی برا نہیں ، کیوں کہ انھوں نے بہت اچھے کام جو کیے ہیں۔
رضا ربانی کہتے ہیں جو میں کہتا تھا ''یہ تو ہونا ہی تھا۔''مطلب یہ کہ آئین اب شب خوں کو نہیں روک سکتا، اور یہ کہ آرٹیکل 6 جیسے redundantہوگیا ہو۔ یعنی بے معنی ہوگیا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ اب لوگ اگر خود چاہیں کہ شب خوں کو روکیں باقی آئین تو شب خوں کو نہیں روک سکتا۔ رضاربانی کی ایک ہرجائی کی طرح یہ بات اچھی ہے کہ وہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ جمہوریتوں نے لوگوں کو دیا کچھ نہیں۔ میں ان کو اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح دیکھتا ہوں کہ جیسے وہ یہ کہہ رہے ہیں۔ جمہوریتیں بھی اتنی ہی بدتر کہ جیسی آمریتیں ہوں۔
میاں صاحب بالآخر بول اٹھے کہ کوئی ان کو حکومت سے گرانا چاہتا ہے۔ارے جناب جمہوریت کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے والے ارب پتی بن گئے،
باقی جو ان کو ووٹ دیتے ہیں ان کی حالت زار آپ سب کے سامنے عیاں ہے۔؎بقول اقبال
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں کہ احتساب کرنے کا حق عوام کو ہے، کسی ادارے کو نہیں۔ صحیح کہتے ہیں کہ لوگوں سے اپنے نمایندے چننے کا حق نہ چھینو۔ مگر لوگوں کو Audit نہیں کرنا آتا۔ لوگ بیلٹ باکس میں آزادی سے ووٹ نہیں دیتے۔ ان پر طرح طرح کے غلامی کے طوق مسلط ہیں ۔ یہاں تک کہ کراچی کا نوے فیصد خواندگی کا شعور رکھنے والا ووٹر بھی اپنی مرضی سے ووٹ نہیں دیتا۔ع
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
اور اگر Audit نہیں کرسکتی تو پھر بیلٹ باکس میں جو ووٹ ڈالتے ہیں وہ وڈیروں کے غلام ہیں۔ وہ کیسے پھر ان کو ووٹ نہیں دیں گے کیا ان کو پولیس سے مار کھانی ہے۔ غلام کبھی بھی آزادی سے ووٹ نہیں دیا کرتے۔ دیہی سندھ میں مڈل کلاس ہے ہی نہیں جو قوم پرست ایک بھی نشست جیت سکیں۔ اگر ہے تو ان کا کوئی حلقہ نہیں۔ اگر حلقہ ہے تو پھر وہ بھی جاگیردارانہ انداز میں ووٹ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے ایاز پلیجو نہیں بلکہ جام شورو، حیدر آباد کے قاسم آباد کے حلقے سے جیت کر آئے۔اور اگر سندھ کا ووٹر شعوری سوچ رکھتا تو کیسے ممکن ہے بیلٹ باکس Audit کرتا، مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے ''تو ہی تو ہے۔''جب لانگ بوٹوں کی چاپ ہوئی تو سب نے سنی!
میں نے اس مسئلہ پر بڑا غوروخوض کیا کہ کیوں سندھی عوام چالیس سالوں سے ووٹ پیپلز پارٹی کو دیتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر سندھی اخبارات کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ وہ پیپلز پارٹی نہیں بلکہ سندھ پرستی کو سندھ کا روحانی وارث سمجھتے ہیں ۔ وہ کالا باغ ڈیم پر واضح موقف رکھتی ہے۔ وہ جی ایم سید کو سندھ کا محور سمجھتی ہے یا پھر گڑھی خدابخش کو، وہ سندھ کے مفادات پر سندھ کے قوم پرستوں کی ترجمان بن کے سامنے آتی ہے۔
مگر کیا وجہ ہے سندھ کے قوم پرست ایک بھی نشست جیت کر سندھ اسمبلی میں نہیں پہنچتے۔تو پھر خورشید شاہ صاحب کے لیے عرض یہ ہے کہ یہ دہقانوں، مفلسوں اور لاچاروں کا سندھ ہے جس پر جاگیردار ، پیر ڈیرا جما کے بیٹھے ہیں۔
پیدا شدہ صورتحال اور زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو پنجاب کو پولیس اسٹیٹ بنادیا گیا ہے اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے پاس بھی وہی اشرافیہ ہے جس کے خدووخال سندھ کے اشرافیہ سے ملتے ہیں۔ یہ وہی پنجاب اور سندھ ہے جب یہ واضح ہوا کہ جناح کو اقتدار مل رہا ہے، دھڑا دھڑ ان کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اور جب ایوب آئے تو ہم نے اشرافیہ کو جنرل ایوب کے ساتھ کھڑے دیکھے !!پھر بھٹو کے ساتھ ان کا دیدار ہوا اور پھر بھٹو سے نکل کر ضیا الحق کے ساتھ کاروان چل پڑا ....پھر پرویز مشرف کے ساتھ بارات چلی اشرافیہ کی چھم چھم کرتی ہوئی۔
جو مختصر سا میرا بیانیہ ہے ، اگرچہ تلخ سا ہے مگر اس کا لب لباب یہ ہے کہ اب رکو مت چلتے چلو۔ معاملہ شب خوں کا نہیں گھر کے بھیدی کا ہے جو لنکا ڈھا رہا ہے۔ اس اشرافیہ کا ہے جس نے لوگوں کے ویلفیئر کے پیسے اڑائے ہیں۔بیدردی سے لٹائے ہیں، مال مفت دل بے رحم سمجھ کر ، شب خوں تو بہت ہی چھوٹی چیز ہے۔
ہم کو انتظارِ ِسحر بھی قبول ہے
لیکن شب ِفراق ترا کیا اصول ہے
(قتیل شفائی)
میرا اب بھی کامل یقین ہے کہ شب خوں نہیں آرہا۔ یہ ان کی خواہش کہ یہ پھر سرخرو ہوکر نکلیں گے جیسے ان کو حکومت نہیں کرنے دی گئی۔
یقینا اب بھی طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور ان کے جانے کا طریقہ بیلٹ باکس کے ذریعے ہونا چاہیے۔