ماضی اور حال سے
ہسٹری ایک ایسا پر اسرار مضمون ہے جس کے اندر لا تعداد کہانیاں سرسراتی ہیں یہ کہانیاں حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں
لاہور:
ہسٹری ایک ایسا پر اسرار مضمون ہے جس کے اندر لا تعداد کہانیاں سرسراتی ہیں یہ کہانیاں حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں جوکائنات میں وقت کی اکائی کو عبور کرکے کتابوں کے صفحات میں سانس لیتی ہیں۔ یہ کیسی تلخ حقیقت ہے کہ تاریخ لکھنے والے زیر اور زبر کی غلطیوں کی طرح تاریخ کو کچھ اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ جس سے اصل پر نقل اور نقل کو اصل سمجھ لیا جاتا ہے، کسی بھی ملک کی تاریخ اٹھاکر پڑھ لیں، رب العزت نے تمام اقوام کو دیا تو اس قدرکہ ان کے سنہرے ادوار سے صفحات بھرے پڑے ہیں اور لیا تو اس طرح کہ خطرناک قحط سالی اور افلاس سے آنکھیں تر ہوجاتی ہیں۔
پاکستان بننے سے پہلے برصغیر جو ہندوستان کہلاتا تھا، دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک تھا یہاں کی صنعتیں قسم قسم کی اشیاء تیارکرتیں جن کی مانگ دنیا کی منڈی میں بہت تھی پھر آہستہ آہستہ سلطنت برطانیہ کی راجدھانی پھیلتی گئی اور یہ ترقی یافتہ صنعتی ملک زرعی ملک میں تبدیل ہوتا گیا اور انگلستان میں صنعتی انقلاب آگیا، سرمایہ دارانہ دورکا آغاز شروع ہوگیا، بنگال جو کبھی ہندوستان کا زرخیز ترین صوبہ اور فردوس ہند کہلاتا تھا، ایسا بنجر ہوا کہ جب سات اگست 1942 کو کوئٹ انڈیا ریزولوشن پاس کیا گیا ملک بھر میں بغاوت کی بو پھیل گئی، ہنگامے اٹھ کھڑے ہوئے، دس ہزار ہندوستانی پولیس فائرنگ سے مارے گئے اس وقت بنگال میں چونتیس لاکھ انسان فاقوں سے مرچکے تھے۔
اگرآپ تصورکریں تو اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کا فاقوں سے مرجانا کس قدر خوفناک بات ہے، ایک ایسا صوبہ جہاں قدرت نے اپنی زرخیزی کے انبار لگا رکھے تھے کیوں کہ قحط، بھوک وافلاس تک بات پہنچی، اس لیے کہ اس کے چپے چپے سے رس نچوڑلیاگیا تھا اس بنگال میں مسلمان بھی آباد تھے اور ہندو بھی، تعصب کی کوئی بات نہ تھی لیکن تعصب کی فضا بنانے والے نے بنائی، سننے والوں نے سنی اور لکھنے والوں نے لکھی۔
نواب سراج الدولہ مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے لیے ایک مہان راجہ تھا جو ان کے حقوق کا خیال رکھتا تھا وہ جانتا تھا کہ اس کی رعایا میں کون کون سے مذاہب کے لوگ ہیں، ان سب کے لیے اسے کس طرح اپنے علاقے کو بہتر سے بہتر بنانا ہے، کس حد تک لگان وصول کرنا ہے کس حد تک محصولات لینا ہے اور اس کے عوض ان کو کیا کچھ فراہم کرنا ہے، اس وقت ملک کی مصنوعات کی برآمد پر محصول نہ لگے تھے ، پھر راجدھانی بدل گئی اور تاریخ پر لکھ دیا گیا۔
''بنگال کا ہندو مسلمان نوابوں سے نفرت کرتا ہے، مسلمان ہندوؤں کے خون کے پیاسے ہیں، اس ملک میں کوئی اتحاد نہیں، در اصل اسے ایسا ملک کہنا ہی نہیں چاہیے، یہ بہت سی اقوام کا مجموعہ ہے جس میں ہندو مسلمان ہمیشہ آپس میں دست وگریباں رہتے ہیں یہ دونوں کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے''
وفادار علی وردی خان نے نوجوان سراج سے کہا تھا ''فرنگیوں نے شہنشاہ کے ملک اور ان کی رعایا کی دولت کے آپس میں حصے بخرے کردیے ہیں، ان کی طاقت زبردست ہے، ان کو قلعے اور فوجیں حاصل نہ کرنے دینا ورنہ ملک ان کا ہوجائے گا'' مرتے ہوئے علی وردی خان کے یہ الفاظ تاریخ کے صفحے پر رقم ہیں۔ ایسا ہی ہوا تھا۔
جب ہگلی میں فرنگیوں نے قتل و غارت مچایا تو سراج الدولہ نے انھیں لکھا ''تم نے میری پرجا کو تاریخ کہا ہے، تم اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہو، اگر تم اب بھی محض تاجروں کی طرح رہنے پر اکتفا کرو تو میں تمہاری ساری مراعات واپس کردوں کیوں کہ جنگ تباہ کن ہے، تم مجھ سے امن کے معاہدے کرتے ہو اور پھر حملہ کردیتے ہو'' انھوں نے مزید لکھا '' مرہٹے جن کو مقدس انجیل سے واسطہ نہیں ہے اپنے معاہدوں پر قائم ہیں اور تم جو خدا اور عیسیٰ کی قسمیں کھاتے ہو اپنے وعدوں کو توڑ ڈالتے ہو''
اس کا جواب ایڈمرل واٹسن نے کچھ اس طرح دیا تھا:
''میں ایسی آگ تمہارے ملک میں لگاؤںگا جسے گنگا کا سارا پانی بھی نہ بجھاسکے گا''
اودھی بنگال، کلکتہ، لکھنو، دلی، میرٹھ، ایک کے بعد ایک آگ کی نذر ہوتے گئے۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیں تو دہشت گردی کی ایسی ایسی وارداتیں بھری پڑی ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دل گھبراکر سوچتا ہے کہ ایسے میں انسان کیسے جیتے ہوںگے، مذہب، مادیت پرستی اور انسانی خواہشات کے اونچے اونچے مینارے دنیا بھر میں آباد ہیں، ہم سب انسان خدا کی تخلیق کردہ مخلوق ہیں پھر کیسے ہم دوسروں کے حصے کی نعمتوں کو جبراً اپنے لیے وصول کرلیتے ہیں اس غیر متوازن حالت نے دنیا کوکئی بار جنگوں کے معرکوں سے انسانی خون سے رنگ دیا، پہلے بھی اور آج بھی انسان مذہب کی اڑ لے کر انسانی حقوق سلب کرتا رہا ہے۔
دراصل اپنی ذمے داری سے وفا نہ کرنا اسے پوری طرح انجام نہ دینا ہی اس فسادکا بنیادی نقطہ ہے، ملکوں کے درمیان مذہب پھر بھی ایک عذرکے طور پر ہتھیار بن کر اٹھایا جاتا رہا ہے لیکن بد قسمتی سے ملک کے اندر اسے مختلف سیاسی جماعتوں کے لیبل سے نہایت بے ہودگی سے چھپا دیا جاتا ہے، فلاں پارٹی، فلاں جماعت، فلاں لیڈر، فلاں سردار، لیکن اگر حقیقت میں جھانک کر دیکھا جائے تو صرف مادیت پرستی، آگے تک جانے کا جنون، اونچی کرسی کو ہتھیانے کے منصوبے، جیبیں گرم کرنے کا رواج اور اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تاریخ میں نوابین کے دور میں دو مختلف فرقے یعنی مسلمان اور ہندو کا حوالہ دے کر ٹھپہ لگادیا گیا کہ یہ آپس میں کبھی ساتھ رہ نہیں سکتے کہ یہ متحد نہیں ہیں، ایک دوسرے کے دشمن ہیں وغیرہ وغیرہ، وہ اس وقت ان کے مفاد کے حق میں تھا، در حقیقت اس قسم کے غلط مندرجات ہی بعد میں درست ہوتے گئے، گویا پہلے جس تلوار کو کاٹنے کے لیے تیار کیا گیا وہ تیار ہوکر تیارکروانے والوں کو ہی کاٹ گئی۔ جو دو قومی نظریہ بن کر پاکستان کے وجود کو جنم دے گیا ایسا قدرت نے منظور کر رکھا تھا پھر کس طرح اسے پنپنا تھا وہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا گیا۔
آج ضرب عضب پوری قوم کے سامنے ہے جس میں افواج پاکستان پوری طرح اسے کامیابی کی منزلیں عبور کر رہی ہے۔ یہ وجہ کیوں بنی؟ سوال یہ نہیں ہے بلکہ جواب یوں ہے ٹھہرا کہ اللہ اسے کامیابی سے جلد ازجلد ہمکنارکرے، ہمارے ملک کو خدا تعالیٰ نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، اسی وجہ سے اس پر بہت سی نظریں ٹکی ہیں، دولت، حرص، طمع لالچ، یہ فتنے زیادہ اپیل نہیں کرتے لہٰذا نہایت حساس اور دل سے لگنے والا ایک ایسا ہتھیار جسے دنیائی زبان میں مذہب کہا جاتا ہے اسے استعمال کیا جارہاہے، اس کی آڑ میں کیسے کیسے منصوبے ترتیب دیے جاچکے ہیں، کیا کیا کارروائیاں ہوچکی ہیں کہ خدا خیر کرے، لیکن پھر بھی موتی کیچڑ میں بھی گرجائے تو موتی ہی کہلاتا ہے کیچڑ نہیں۔
صوبہ بلوچستان میں ناراض بھائیوں کی طرف سے خوش کن خبریں دلوں کو دلوں سے جوڑ رہی ہیں کہ جوہری کو ہی سچے موتی کی پہچان ہوتی ہے، دہشت گردی کے خاتمہ کے وسیع تر پس منظر میں جنرل راحیل شریف ایک اچھے، سمجھ دار جوہری بن کر ابھرے ہیں، خدا ان کو ان کے نیک مقصد میں کامیاب کرے۔ (آمین)