بُک شیلف

قابل ذکر امر یہ ہے کہ امریکا میں رچنے بسنے کے باوجود مرتب کی درخواست پر انہوں نے اپنی اردو کی پہلی تحریر لکھی


قابل ذکر امر یہ ہے کہ امریکا میں رچنے بسنے کے باوجود مرتب کی درخواست پر انہوں نے اپنی اردو کی پہلی تحریر لکھی:فوٹو فائل

SYDNEY: گل دستۂ شاہد احمد دہلوی
(رسالہ ''ساقی'' سے انتخاب، خاکے اور متفرق تحریریں)
مرتبہ : راشد اشرف
ناشر: بزم تخلیق ادب پاکستان، کراچی
صفحات: 440، قیمت:400


اُردو کی سیکڑوں نادر ونایاب کتب کو انٹرنیٹ کی دنیا تک لانے والی باہمت اور متحرک شخصیت راشد اشرف کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے پیشہ ورانہ طور پر سائنس کے میدان سے وابستگی کے باوجود لکھنے پڑھنے والوں کی دنیا میں ایک مقام حاصل کیا کہ لوگ انہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ زیرموضوع کتاب بھی ان کی اَن تھک کوششوں کے نتیجے میں منصئہ شہود پر آئی ہے۔ ان کی محنت اور قلم سے ترتیب پانے والی یہ مجموعی طور پر ساتویں کتاب ہے۔

900 صفحات کی ایک ضخیم کتاب سمیت دو کتابیں بھی عن قریب منظر عام پر آنے والی ہیں۔ فی الحال اس 'گل دستے' کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ یہ کتاب ممتاز ادیب اور ادبی رسالے ''ساقی'' کے مدیر شاہد احمد دہلوی کی تحریروں اور ان پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔

بقول راشد اشرف اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ شاہد احمد دہلوی پر مرتب کی گئی کتابوں کے مواد کو دُہرایا نہ جائے، جو لائق تحسین ہے۔ باب اول میں ساقی کے اداریے، شذرے اور خاکے شامل کیے گئے ہیں، باب دوم شاہد دہلوی کی چنیدہ تحریروں سے مزین، جب کہ تیسرا باب شاہد دہلوی پر لکھے چند اہم خاکوں سے آراستہ ہے۔ اختتامی باب میں کچھ یادگار تصاویر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاہد دہلوی کے صاحب زادے محمود کا مضمون خاصے کی چیز ہے۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ امریکا میں رچنے بسنے کے باوجود مرتب کی درخواست پر انہوں نے اپنی اردو کی پہلی تحریر لکھی، جس کی زبان نہایت شستہ اور رواں ہے۔ پہلے باب میں 'ساقی' کے اداریے بعنوان ''نگاہ اولین'' شامل ہیں۔ بہت سے اداریوں میں ذیلی سرخیاں بھی موجود، مگر کئی جگہ پر یک ساں عنوان کی تکرار ہے، اگر ایک جیسے عنوان کے ساتھ نمبر شمار درج کر دیا جاتا، تو بہتر ہوتا۔ یہی چیز دوسرے باب کے ذیل میں محسوس کی گئی۔ کتاب کے دیگر محاسن اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ مجموعہ شاہد دہلوی پر لکھی گئی کتابوں میں ایک اچھا اضافہ ہے۔

آنکھیں آہن پوش
(آج کی زریں تاج)
مصنفہ: ناہید سلطان مرزا
ناشر: شہرزاد، بی 155، گلشن اقبال، کراچی
صفحات: 316، قیمت: 500 روپے


اس ناول کے لیے مصنفہ نے کم وبیش پانچ برس تاریخ اور ناول پڑھنے میں صرف کیے۔ بنفس نفیس خود سرزمین فارس کا بھی رخ کیا اور ناول میں مذکور مقامات کو بار بار دیکھا۔ دیباچے میں رقم طراز ہیں کہ میرے ناول کا بنیادی کردار زرّیں تاج جبرو تشدد اور سماجی ناانصافی کا شکار ہوئی، وہ اپنی ہمت سے حالات کو بدلنا چاہتی ہے۔

اس ناول میں الگ الگ پہچان رکھنے والی نانی، ماں اور بیٹی کے کردار ہیں۔ مصنفہ نفسیات اور صحافت میں ماسٹرز کیے ہوئے ہیں۔ 12 برس قبل ان کا پہلا ناول ''دشت خواب کے مسافر'' شایع ہوا، جو عراق پر امریکی حملے کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔

اب وہ اپنے تیسرے ناول ''روڈ ٹو موہن جو داڑو'' پر کام کر رہی ہیں۔ ایک جگہ زریں تاج سے چوہے دان میں پھنسا ایک چوہا مکالمہ کرتا ہے اور اسے ایک گیت سناتا ہے، جس کے بول کچھ یوں ہیں ''مذہب ان کی ڈھال ہے/جنت ان کی باندی ہے/اور وہ دوزخ کے چوکی دار ہیں/جس کو چاہے دہکتی آگ کے گڑھے میں دھکیل دیں۔'' کتاب کے پچھلے سرورق پر رقم ممتاز ادیب انتظار حسین کی رائے کے مطابق ''ناول نگار ماضی میں سے عصر حاضر کی حقیقتوں کو کشید کرتی ہے۔''

معروف افسانہ نویس اور کالم نگار زاہدہ حنا اسے دستاویزی ناول کی صنف میں شمار کرتی ہیں، جس میں قدیم تاریخ اور جدید سیاست کرداروں کا ایک دوسرے سے شیروشکر ہوتے ہیں۔

پاکستان سے محبت کے تقاضے
مصنف: ڈاکٹر عمر حیات عاصم سیال
ناشر: بیت السلام پبلشر، کراچی
صفحات: 156، قیمت: درج نہیں


چار حصوں میں بٹی ہوئی اس کتاب کے ہر جزو میں آٹھ، آٹھ ابواب ہیں اور ہر باب مزید تین ذیلی مضامین پر استوار ہے۔ مصنف اسے عام پاکستانی کے ساتھ ساتھ مطالعہ پاکستان کے مضمون میں ایف اے اور بی اے کے طالب علموں کے لیے بھی مفید قرار دیتے ہیں۔ کتاب کی ورق گردانی کریں تو اس پر پاکستانیات سے زیادہ اسلامیات کی کسی کتاب کا گماں گزرتا ہے، کیوں کہ اس کا بیش تر حصہ اسلامی تاریخ، تعلیمات اور مختلف مذہبی فرائض کے حوالوں پر محیط ہے۔

کتاب میں جہاں ریاست کے پس منظر اور پیش منظر کو مذکور کیا گیا، وہاں بھی حقیقی مسائل اور حالات کا تذکرہ ہی کم اور ناپید نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر اس ریاست کے اہم مسئلے لسانی تعصب کو فقط چند سطروں میں سمیٹ دیا گیا، وہ بھی محض لسانی تعصب کی نفی تک ہی محدود ہے۔۔۔ اور اس میں اس ریاست کے لسانی تعصب کا تذکرہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، جس سے عنوان کے ذریعے قائم ہونے والی قاری کی توقعات کو کافی دھچکا پہنچتا ہے۔ طبع دوم ہونے کے باوجود پروف کی بھی بہت زیادہ غلطیاں دکھائی دیتی ہیں، جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ماتم یک شہر آرزو(افسانے)
مصنف: سجاد ظہیر
ناشر: قرطاس، کراچی
صفحات: 142، قیمت: 200 روپے


اس تصنیف میں نگار سجاد ظہیر کے 1999ء تا 2014 لکھے گئے 15 افسانے یک جا ہیں، کچھ افسانے مطبوعہ، جب کہ کچھ طبع زاد ہیں۔ مصنفہ رقم طراز ہیں کہ تخلیق کار جب اپنی تخلیق پیش کرتا ہے، تو پھر آگے نقادان ادب کا کام ہوتا ہے، مصنف کو اپنی تخلیق کے ساتھ کچھ توصیفی کلمات اور زبردستی کی تحریریوں کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے انہوں نے اس روایت پر عمل نہیں کیا۔ نگار سجاد ظہیر کے افسانوں کا یہ تیسر ا مجموعہ ہے۔

اس سے قبل دستِ قاتل (اشاعت، 1995ء) اور بارِ ہستی (اشاعت، 2000ء) میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ سوادِ شام کے عنوان سے شاعری کا مجموعہ 2001ء میں اشاعت پذیر ہوا، جب کہ 2003ء میں سفرنامہ دشتِ امکاں منصۂ شہود پر آیا۔ زیر تبصرہ کتاب میں شامل بیش تر افسانوں کا مرکزی موضوع محبت پر استوار ہے، جس کی خواندگی کرتے ہوئے آخر تک قاری کی دل چسپی برقرار رہتی ہے۔ افسانوں کی زبان عام فہم، جب کہ بیانیہ سادہ ہے۔ کتاب مجلد، کاغذ سفید اور طباعت معیاری ہے۔

اٹلی کی جانب گامزن
مصنف : عشرت معین سیما
ناشر: ZakCom پرنٹ پروڈکشن
صفحات: 96، قیمت: 350


مصنفہ 23 برس سے برلن (جرمنی) میں مقیم ہیں۔ پیشہ ورانہ میدان صحافت اور درس وتدریس سے ادب تک دراز۔۔۔ نوائے وقت سے بی بی سی تک، بہتیرے اداروں سے منسلک رہیں۔ یہی نہیں برلن کی اردو انجمن کی فعال رکن ہیں۔ ہندوستانیات (انڈیا لوجی) میں ماسٹرز کے دوران اپنے پروفیسر کی معاونت سے برلن کا پہلا اردو جریدہ 'نئی کاوش' کے نام سے جاری کیا۔ اس وقت برلن یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز سے منسلک ہیں۔ زیر نظر کتاب ان کے سفرِ اٹلی کا بیان ہے۔

جس میں وہ بتاتی ہیں کہ کراچی میں تعلیم وغیرہ سے فراغت کے بعد جب انہوں نے مستقلاً جرمنی کو مسکن بنایا، تو پتا چلا کہ یہاں کی ماسٹرز کی ڈگری وہاں کی بیچلر کے مساوی بھی نہیں۔ لہٰذا انہوں نے دوبارہ ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی بھی کیا، ہندی تحریر وزبان میں شد بد حاصل کی، چوں کہ ان کا میدان لسانیات اور معاشریات ہے، لہٰذا کتاب میں ہمیں اس حوالے سے خصوصی برتاؤ دکھائی دیتا ہے۔

اس کے ساتھ روزنامچے کے دل چسپ پیرائے میں اٹلی میں بیتے شب وروز کو قلم بند کیا گیا ہے، جس میں سفری احوال کے ساتھ لکھنے والے کے احساسات کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ یہ کتاب اگرچہ آٹھ مضامین پر استوار ہے، لیکن کتاب کے شروع میں فہرست مشمولات کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

دھرتی جائے کیوں پرائے؟
مصنف: اعظم معراج
ناشر: جمہوری پبلی کیشنز
صفحات: 107،قیمت : 300 روپے


یہ 16 کہانیوں پر محیط اس کتاب سے اخذ ہے، جو ہمارے ملک کی سب سے بڑی اقلیت عیسائیوں کے حالات و واقعات اور احساسات کے گرد گھومتی ہے۔ مصنف کے بقول انہوں نے اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح دھرتی کے بیٹے اپنی دھرتی اور معاشرے سے بیگانے ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ 'ریئل اسٹیٹ' اور مسیحیوں کے حوالے سے دو، دو کتابیں بھی تصنیف کر چکے ہیں۔

زیرنظر کتاب دراصل کراچی کے مسیحی طالب علموں سے مکالمے اور تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں تخلیق کی گئی ہے۔ بیش تر کہانیوں میں شامل مختلف درختوں کے مکالمے اپنے اندر انفرادیت لیے ہوئے ہیں۔ یہ کہانیاں کیا ہیں، سوالات ہیں۔ اور اپنے اندر ایک اَلم لیے ہوئے ہیں۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ''یہاں جب چاہا مذہب سے کام چلا لیا، کہیں زبان کے نام پر کہیں تہذیب وثقافت کے نام پر، کہیں رنگ ونسل کے نام پر لوگوں کو وطن سے کاٹ دیا یعنی وطن نہ یہاں پیدا ہونے والوں کا ہوا۔۔۔ اور نہ یہاں بسنے والوں کا۔۔۔ بلکہ شاطروں، مکاروں اور عیاروں کا ہوا، وہ جب چاہیں جس کو مرضی بے وطنی کا طعنہ دیں اور وطن سے نکال دیں۔''

ایک کہانی میں اسکول کی ننھی طالبہ جب اسکول میں یہ طعنہ سن کر کہ 'جاؤ یہ تمہارا ملک نہیں' جھگڑا کر کے آتی ہے، تو باپ اپنی لاڈلی سے کہتا ہے کہ ''یہ ملک ہمارا کیوں نہیں ہے، یہ پاکستان کا جھنڈا دیکھو، یہ سبز حصہ تمہارے اس دوست کا ہے، جس کی تم نے پٹائی کی اور یہ سفید حصہ تمہارا ہے اور تمہارے سفید حصے میں وہ پول ہے۔

، جس کے سہارے یہ فضا میں لہراتا ہے، لہٰذا اس سفید حصے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے، تاکہ اس کا سبز حصہ آزاد فضاؤں میں ہمیشہ لہراتا رہے۔'' کتاب میں پروف کی اغلاط پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، امید ہے کتاب کی اگلی اشاعت میں انہیں دور کر لیا جائے گا۔

رمضان کی احادیث اور سنتیں
(مختصر ایڈیشن)
پروفیسر مفتی عروج قادری
ناشر: مکتبہ قرآن وحدیث، کراچی
صفحات:174،قیمت: درج نہیں


ماہ صیام سے متعلق اس کتاب میں روزے سے لے کر زکوۃ، تراویح، قرآن پاک، شب قدر، عمرہ اور عیدالفطر تک کے موضوعات پر 600 احادیث مبارکہ مع حوالہ جات اکٹھی کی گئی ہیں، جس کی سب سے اہم خصوصیت مختلف مکاتب فکر کے علما کی تصدیق ہے۔ پروفیسر عروج قادری عن قریب اس کتاب کو انگریزی ترجمے کے ساتھ بھی منظر عام پر لانا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں انہوں نے صحیح احادیث کا مختصر اور جامع مجموعہ پیش کیا ہے۔
کتاب عمدہ کاغذ، طباعت اور کتابت کی حامل ہے۔

نعت رنگ کے پچیس شمارے
(ایک اجمالی تعارف)
ڈاکٹر شہزاد احمد
ناشر:نعت ریسرچ سینٹر، کراچی
صفحات:64،ہدیہ:50روپے


نعت رنگ اردو دنیا کا وہ قابل ذکر واحد موضوعی رسالہ ہے، جس نے بہت کم عرصے میں نعتیہ ادب پر قابل قدر کام کیا ہے۔ اس کا پہلا شمارہ اپریل 1995ء میں شایع ہوا۔ زیر نظر کتاب میں مختلف شماروں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ نعت کی صنف سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک خاصے کی چیز ہے۔ اس صنف میں تحقیق سے شغف رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک لازمی جزو کی حیثیت رکھتی ہے۔

گفتگو عوام سے ہے
شاعر: خالد علیگ۔ مرتبہ: ایوب ملک،نگرانِ اشاعت: شاعرعلی شاعر
ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی،صفحات:416،قیمت:800 روپے


اردو شاعری کی سطرسطر میں سقراط زہرپیتے، مسیحا مصلوب ہوتے اور منصور سولی پر جھولتے نظر آتے ہیں۔ صحرانوردی، آبلہ پائی، عشق میں خاک ہوجانا، جُنوں میں ہر حد سے گزرجانا، سینے پہ تیر کھانا، ہمارے شعراء کی روایت ہے۔

لیکن اکثر صورتوں میں یہ روایت بس لفظوں تک محدود ہے، ورنہ ان کے اشعار پڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ سخن پارے گدیلے بستروں، نرم سوفوں پر نیم دراز ہوکر سگریٹ اور سگار کے مہکتے مرغولوں کے ساتھ ہونے والی تخیل کی پرواز کا نتیجہ ہیں، اور بس۔ تخلیق کار سے یہ توقع ہی نہیں رکھی جاتی کہ وہ عمل سے اپنے خیالات کی گواہی دے گا، کیوں کہ ہمارے سخن وروں اور ادیبوں کی تخلیقی زندگی اور ان کی عملی زندگی میں ہم آہنگی شاذ ہی نظر آتی ہے۔

تضاد کی یہ روایت اردو شاعری کے ساتھ شروع سے جُڑی چلی آرہی ہے۔ ایسے چند ہی روایت شکن نظر آتے ہیں جن کی صداقت نے لفظوں ہی کا پیرہن نہیں پہنا بل کہ وہ ان کی زندگی کا لبادہ بن گئی۔ ان روایت شکن شعراء میں خالد علیگ کا نام نمایاں مقام پر ہے۔

خالدعلیگ چاہتے تو بہ طور سول انجنیئر کیریر بناتے اور ساتھ شاعری کا ''مشغلہ'' بھی جاری رکھتے۔ یہ بھی ان کی دسترس میں تھا کہ اپنے فن کو تجریدیت کا چولا پہنا کر لفظوں کو رومان کے جام پلاکر پیش کرتے، دھڑادھڑ مجموعے چھپواتے اور ان کی فروخت سے ہونے والی آمدنی پاکر سکون سے جیتے، لیکن انھوں نے اپنی زندگی سے یہ ثابت کر دکھایا کہ اگر شاعری کو جزو پیغمبری کہا جاتا ہے تو شاعر کو بھی پیغمبروں کے استغنی، وقار، ہمت اور جرأت کا عکس ہونا چاہیے۔

انھوں نے فقر اختیار کیا اور جرأت کو شعار کیا۔ انھوں نے اپنے فن کو عوام کے لیے وقف کردیا۔ ان کا کلام حقیقی معنوں میں مزاحمتی شاعری ہے جس میں ہمیں اپنے دیس کے روزوشب اور دنیا کے حالات کا عکس لفظ درلفظ نظر آتا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب محترم خالد علیگ کی نظموں، قطعات اور منتخب غزلوں کا مجموعہ ہے، جوان کے ایک عاشق ایوب ملک نے مرتب کیا ہے۔ ایوب ملک بڑی محنت سے خالد علیگ جمع کرکے سامنے لائے ہیں۔

اس سے پہلے خالد علیگ کی غزلوں کا مجموعہ ''غزالِ دشتِ سگاں'' کے زیرعنوان شایع ہوچکا ہے۔ اس درویش صفت شاعر نے اپنی شاعری کو کتاب کی صورت میں لانے پر توجہ نہیں دی، جس کا سبب مالی وسائل بھی ہوں گے۔ یہ ان کے قدردانوں کا فرض تھا کہ وہ ان کا کلام کتابی صورت میں سامنے لائیں، اور یہ فریضہ ایوب ملک نے بہ خوبی پورا کیا ہے، جس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔

کتاب میں بعض جگہ پروف کی فاش غلطیاں نظر آتی ہیں، خاص طور پر شاعری میں ایسی غلطیاں بدمزہ کرتی ہیں۔ مرحوم کے سوانحی خاکے میں دو جگہ ''ہیں'' کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کی اگلی اشاعت میں یہ غلطیاں دور کرلی جائیں گی۔

کتاب میں سینیر صحافی اور ادیب احفاظ الرحمٰن کے مضمون ''خالد علیگ، ایک داستانی ہیرو'' سے اقتباسات، معروف شاعر اور نقاد سرورجاوید کا مضمون ''مزاحمتی شاعری کا نمائندہ شاعر''، ایوب ملک کا مضمون ''پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ'' اور حرف سپاس کے زیرعنوان خالدمحمود کی تحریر شامل ہے۔ ایوب ملک ایک عرصے سے اس مجموعے کو ترتیب دینے کے لیے کوشاں تھے۔ آخرکار یہ کتاب ایک خوب صورت تحفے کی صورت میں سامنے آئی ہے، جسے اردو ادب کے قارئین میں یقیناً پذیرائی حاصل ہوگی۔

کتاب کا خوب صورت سرورق امن کے سفید اور انقلاب کے سُرخ رنگ اور مزاحمت کے لیے اٹھے ہوئے مٹھی بند ہاتھوں کے ساتھ خالد علیگ کے افکار کی مکمل ترجمانی کر رہا ہے۔ کتاب مضبوط جلد میں بند ہے اور سفید کاغذ پر عمدہ طباعت کی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں