ماحولیاتی آلودگی اور کرہ ارض
دنیا ایک انتہائی حساس دور سے گزر رہی ہے لیکن اس دنیا کا رہائشی انسان اس معاملے پر وہ توجہ نہیں دے رہا
www.facebook.com/shah Naqvi
BUENOS AIRES:
ماحولیات کے حوالے سے دنیا ایک انتہائی حساس دور سے گزر رہی ہے لیکن اس دنیا کا رہائشی انسان اس معاملے پر وہ توجہ نہیں دے رہا جو اسے دینی چاہیے۔ اس پس منظر میں اگر پاکستان کا ذکر کیا جائے تو انتہائی شرمناک اور افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ پاکستان کا ایک عام آدمی اس مسئلے کے حقیقی مضمرات سے سرے سے ہی آگاہ نہیں جب کہ اچھے خاصے باخبر لوگ بھی اس مسئلے پر وہ توجہ نہیں دے رہے جو انھیں دینی چاہیے۔ اور تو اور ہمارے سیاسی لیڈروں کو بھی اس کی اہمیت کا احساس نہیں۔ سرکاری سطح پر ماحولیات سے متعلق ایک لولی لنگڑی وزارت قائم ہے لیکن کہاں ہے کچھ پتہ نہیں۔ جب یہ حال ہے تو اس کی کارکردگی کیا ہو گی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ جب ماحولیات کا سالانہ عالمی دن منایا جاتا ہے تو اس میں ہم بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ سرکاری یا نیم سرکاری سطح پر کچھ تقاریب ہوتی ہیں جس میں رسمی تقریریں ہوتی ہیں پھر اگلے سال تک کے لیے خاموشی۔ عوام کو اس حوالے سے موبلائز کون کرے گا۔ اس کی ذمے داری کوئی نہیں اٹھاتا۔
میڈیا کی اس حوالے سے بڑی ذمے داری بنتی ہے لیکن اس کی ترجیحات اپنی ہیں۔ روزانہ ٹاک شوز کی میز پر اینکر حضرات بیٹھتے ہیں۔ پارٹیوں کے نمایندہ حضرات اسکرین پر براجمان ہوتے ہیں جن کی اپنے لیڈر سے نمک حلالی جز ایمان ہوتی ہے۔ اپنے لیڈر کی ہر خامی کو چھپانا اور مخالف لیڈر پر کیچڑ اچھالنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے۔ پارٹیوں کے نمایندہ حضرات جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اگر معقول آدمی ان پروگراموں کو دیکھنے کی حماقت کر بیٹھے تو اپنے قیمتی وقت کے زیاں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اب تو ان ٹاک شوز پر عجیب منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ میزبان مہمان سمیت سب اتنی اونچی آواز میں شور مچا رہے ہوتے ہیں کہ کچھ پلے نہیں پڑتا۔ جہاں تک آداب گفتگو کا تعلق ہے تو ان پروگراموں میں اس پر کبھی کی فاتحہ پڑھی جا چکی۔ اب تو کچھ چینلز کی خواتین نیوز اینکر اس بری طرح سے چیخ چیخ کر خبریں پڑھ رہی ہوتی ہیں کہ اچھے بھلے آدمی کو اپنے اعصاب مجروح اور دماغی توازن ہاتھ سے جاتا محسوس ہوتا ہے۔ معاشرہ میں پہلے ہی ہر طرح کی ٹینشن اپنے عروج پر ہے۔ یہ لوگ اس میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔
بہرحال بات ہو رہی تھی میڈیا کی ذمے داری کے حوالے سے۔ اس معاملے میں عوام کو ایجوکیٹ کون کرے گا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس حوالے سے کتنے پروگرام اور مضمون چھپے ہیں۔ یہ نہیں اس معاملے پر کبھی کبھار پروگرام کر لیا یا مضمون چھاپ دیا۔ ضروری ہے کہ باقاعدگی سے مسلسل اس کو کوریج دی جائے۔ ماحولیات کے حوالے سے گرین ہاؤس گیسز کا ذکر اکثر سننے اور پڑھنے میں آتا ہے۔ اس کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جب سورج کی روشنی زمین پر پڑتی ہے تو تمام نہیں بلکہ اس کا چھوٹا سا حصہ زمین اپنے اندر جذب کر کے اس کو گرم توانائی میں بدل دیتی ہے۔ اس انرجی کا ایک حصہ زمین واپس فضا میں بھیج دیتی ہے یعنی قدرت کا نظام دیکھیں کہ زمین اتنی ہی توانائی قبول کرتی ہے جتنی اسے ضرورت ہوتی ہے اور فالتو توانائی کو فضا کی طرف خارج کر دیتی ہے۔ لیکن فضا میں موجود گیسیں جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، متھین، نائٹروجن وغیرہ ہیں فالتو فارخ شدہ توانائی کو روک کر زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں۔
قدرت ہماری زمین کی حفاظت کس طرح کرتی ہے۔ اس کی مثال اوزون کی تہہ ہے۔ زمین کی بالائی فضا میں اوزون کی تہہ ہوتی ہے جو سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے زمین کی حفاظت ان مضر صحت شعاعوں کو روک کر کرتی ہے۔ اس طرح سے انسان سمیت تمام جاندار محفوظ ہو جاتے ہیں۔ لیکن قدرت کے اس حیرت انگیز نظام کو انسان کی بے پناہ ترقی (صنعتی) کی خواہش نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ فضا میں پہنچنے والی زہریلی گیسوں نے اس تہہ میں کئی جگہ پر بڑے بڑے سوراخ پیدا کر دیے ہیں۔ قدرت نے اوزون کو ایک چھتری یا ڈھال کی شکل میں ہماری حفاظت کے لیے اوپر قائم کیا لیکن انسان اس کو مسلسل تباہ کر رہا ہے۔
پہلی اور خاص طور پر دوسری عالمی جنگ میں ماحولیات کو شدید نقصان پہنچا جس میں بے تحاشا بارود کا استعمال کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ کیمیکل اور ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہوئے۔ 1950 سے آلودگی میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور 1970 سے سمندر گرم ہونا شروع ہو گئے۔ گرین ہاؤس زہریلی گیسوں کی وجہ سے ایک طرف دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ تو دوسری طرف گلیشیر پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا۔ سمندروں اور دریاؤں میں پانی ان کی گنجائش سے زیادہ آئے گا۔ بڑے بڑے سیلاب آئیں گے۔ ساحل سمندر کے کنارے بہت سے شہر ڈوب جائیں گے۔ اس عمل کا آغاز ہو بھی چکا ہے۔ گنجائش سے زیادہ پانی بڑے بڑے ڈیموں، بیراج کو تباہ کر دے گا یا ان کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ دریاؤں میں پانی کی کمی یا قلت کی وجہ سے ملکوں ملکوں میں جنگیں ہوں گی۔ جب پانی کم ہو گا تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے زیر زمین پانی استعمال کیا جائے گا۔ ایک وقت آئے گا وہ پانی بھی ختم ہو جائے گا۔ یوں قلت آب پیدا ہو گی۔ جس کے نتیجے میں پانی کمیاب اور زراعت کے لیے نایاب ہو جائے گا جس کا نتیجہ خشک سالی اور قحط سالی کی شکل میں نکلے گا۔ یعنی ماحولیات کی تباہی قیامت سے پہلے قیامت کی شکل میں سامنے آئے گی۔
پاکستان بھی ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہے جس میں پانی کی آلودگی سرفہرست ہے۔ پاکستان میں کروڑوں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جس سے کثیر تعداد میں لوگ ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں دو کروڑ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ دنیا میں مصر اس بیماری میں سرفہرست ہے۔ پاکستان کا نمبر دوسرا ہے۔ صرف صحیح وقت پر اس کی تشخیص اور علاج انسان کو موت کے منہ میں جانے سے بچا سکتا ہے۔ اس بیماری کا علاج بہت مہنگا ہے جب کہ غریب ہی اس بیماری میں کثیر تعداد میں مبتلا ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس وسائل نہیں۔ منڈی بہاؤالدین میں لاکھوں لوگ اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں اور تیزی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ یہ صرف پنجاب کے ایک علاقے کی مثال ہے۔ ایک ایک کر کے ان کے قریبی رشتے دار دوست احباب مر رہے ہیں اور وہ بے بسی سے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان کی زندگیاں بچالے لیکن حکومت کے پاس ان کے لیے وقت ہے نا ہی وسائل۔ حکومت کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ کھربوں روپے کے وسائل ہیں مگر وہ اورنج ٹرین، میٹرو بسز، انڈر پاس اور اچھی بھلی اربوں روپے کی سڑکیں کھدیڑ کر امرا کے لیے نئی ایلیویٹڈ سڑکیں بنانے کے لیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فوری طور پر کروڑوں لوگوں کی زندگی بچانا اہم ہے یا ان منصوبوں پر عملدرآمد؟
...اوزون کی تہہ متاثر ہونے کی وجہ سے شدید بارشیں بے وقت کی بارشیں شدید برف باری خشک سالی 2040تک معمول بن کر رہ جائے گی۔