بلیک ہولزسے آگے جہاں اور بھی ہیں… پہلا حصہ

بلیک ہولز میں انسانی سماعت کی دسترس میں نہ آنیوالی آوازیں بھی سنیں گئی ہیں۔


اللہ رکھیو سومرو September 21, 2015
بلیک ہولز میں انسانی سماعت کی دسترس میں نہ آنیوالی آوازیں بھی سنیں گئی ہیں. فوٹو : فائل

حضرتِ انسان نے گزشتہ صدیوں کے تسلسل میں مادی طور پراتنی ترقی کرلی ہے کہ اب وہ فلکیاتی اجسام کے مراکز اور ان پر لوازماتِ حیات کو تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ خلائی وسعتوں کو جانچا جائے اورانسان کو فلکی اجسام پرآبادکیا جانا ممکن بن سکے۔ انسان نے اپنی اسی جستجوکو آگے بڑھاتے ہوئے کھربوں نظامِ شمسی پر بنی کہکشاںکے مشتمل جھرمٹوں کے نظامِ بلیک ہولزکی موجودگی کوثابت کرکے اب ان بلیک ہولزکے مرکزکی تلاش میں لگے ہوئے ہیں ۔ان تحقیقی نظریات کے تخلیق کار امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی تازہ ترین تحقیق میںکہاگیا ہے کہ سب سے بڑے دریافت شدہ بلیک ہول میں پگھلے لوہے کی مانندکھولتے ہوئے سمندروں میں کھربوں لاؤوں کو اُگلتے ہوئے آتش فشاںبنتے رہنے کی تصاویر لی گئی ہیں ۔قیاس کرسکتے ہیں کہ اگر اس آگ کے سمندر میں بلیک ہول کی تمام کہکشائیں ڈال دی جا ئیں تووہ تِنکوں کی طرح اس میں جل جائینگی۔ وہیں انسانی سماعت کی دسترس میں نہ آنیوالی آوازیں بھی سنیں گئی ہیں۔

حالانکہ پہلے کی تحقیقات میں بتایا گیا تھا کہ ان بلیک ہولز میں اتنی تجاذبی قوت ہے کہ جو اپنی حدود میں آنے والی ہر ایک فلکی چیز سمیت روشنی تک کو بھی کشش کرلیتی ہے، روشنی کا انعکاس نہ ہو نے کے باعث ہی یہ فلکی مقام سیاہ نظردکھائی دیتے ہیں۔وہاں کی تصویریں لیناحضرتِ انسان کی مادی بنیادوں پر بہت ہی بڑی کامیابی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل طبیعیات اور سائنسی علوم کی دیگر شاخیں ان بلیک ہولز میں ہضم ہوجانیوالی فلکی اشیاء کے ساتھ ہونے والے بدلاؤ،ان کے ساتھ پیش آنیوالے حادثات کی معلومات سے تشنہ لب تھیں، لیکن اُمید ہوچلی ہے کہ انسان کواب ان بلیک ہولز سے آگے کی بھی معلومات جلد ہی حاصل ہوجائیں گی۔ جس کی روشنی میں ہم یہ بھی قیاس کرسکتے ہیں کہ آگے کا مرحلہ ان بلیک ہولز کے مرکز تک پہنچے توپھر انسان کوان کے اس ممکنہ مراکز سے بھی آگے جانے کی ہمت ملے۔

انھی قیاسات اور کی گئی تمام تر فلکی تحقیقی بنیادوں پرگزشتہ دنوں سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں منعقدہ کانفرنس کے دوران طبیعیات پر اتھارٹی مانے جانے والے اسٹیفن ہاکنگ نے ان سیاہ سوراخوں کودوسری دنیا میں جانے کا راستہ قراردیا ہے اور شرکاء سے ازراہِ تفنن کہاکہ اگر آپ بلیک ہول میں پھنس جائیں توگھبرانے کی ضرورت نہیں ،کیونکہ بہت ممکن ہے کہ آپ ایک نئی دنیا میں پہنچ جائیں ۔ Galaxyاستعمال کرنیوالوں نے توGalaxies کی وڈیوز دیکھی ہونگی؟جن کی روشنی میں فلکی تحقیق کو بھی دیگر علوم کی طرح عام فہم بناکے رکھ دیا گیا ہے ۔ جب کہ دوسری طرف فلکی اجسام پر لوازماتِ حیات اور دیگر مخلوق کی تلاش کے حوالے سے1400نوری سال کی مسافت پرواقع ''سگنس'' کہکشاں میں ہماے نظامِ شمسی سے مشابہ اور ڈیڑھ ارب سال بڑے ستارے کے مدار میں کرہ ارض سے مشابہ کیپلزنامی دوربینی کے دریافت شدہ سیارے کیپلر452bپر لوازماتِ حیات کے ممکنا ت اور امیدیں دِکھائی جارہی ہیں۔

لوازماتِ زندگی کی تلاش میں دریافت شدہ سیاروںمیں 1030واں سیارہ کیپلر 452b اپنے سورج ودیگر سیاروں کے سا تھ اپنی سطح پر مایع کی صورت میں پانی کی موجودگی کے امکانوں سے معمور قابلِ سکونت علاقہ (Habitable Zone) میں اپنے سورج کے گرد 385دن میںچکر مکمل کرنیوالے اس سیارے کو ناساکے ایک ماہرجان گرنسفیلڈنے"Earth2"کا نام دیا ہے۔ ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں فلکیات کے ماہر ڈاکٹر ڈینیل براؤن نے اس ارضِ ثانی پرچٹانی سلسلوں اور باقاعدہ فضا ہونے کی صورت میں وہاں پود ے اُگائے جانے کی پیش گوئی بھی کردی ہے۔

ان ترقی یافتہ انسانی گروہ سے متعلق افراد کے محققین کودیگر انسانی گروہوں نے طوحاََ وکرہاََماننا ہوگا،جس طرح انھوں نے زمین گول ہونے کی بات کو سچ ثابت کرکے دکھایا ،یہ آج بلیک ہولزکو بھی ثابت کررہے ہیں اورجہاں روشنی بھی کشش کرلی جائے، وہاں اس انسانی گروہ نے آگ کی شکل میں روشنی دیکھنے کی بات کی ہے اور جہاں روشنی ہو اُسے بلیک نہیں کہا جاتا۔ بلیک ہولز سے متعلق سب سے بڑا راز افشاں ہوگیا۔ جس طرح کرسٹوفر کولمبس کے سونے کی چڑیا ہندوستان کی تلاش میں امریکا کو دریافت کرنے سے نہ صرف زمین کے گول ہونے کی تصدیق ہوئی بلکہ کرہء ارض کی وسعتوں کے متعلق انسان نے نئی تحقیق بھی مرتب کی تھی۔

ان تحقیقات میں جس انسانی گروہ کاکثیر سرمایہ لگا ہواہے اس نے دنیا پر ایسا نظام رائج کردیا ہے کہ جس کی توسط سے وہ تمام دیگر انسانی گروہو ں سے ان تحقیقات کا ظالمانہ لگان وصول کرتا رہتا ہے۔ اس انسانی گروہ نے کرہ ارض کے حالات اور مسائل اتنے پیچیدہ کردیے ہیں کہ ان پر بات کرنیوالا اپنا استدلال ایک مرحلے میں نہ تو مکمل طور پر بیان کرسکتا ہے اور نہ ہی سننے والے میں اتنی برداشت ہے کہ اس کو ٹھنڈے دماغ سے پر سکون رہ کر سن سکے۔

آئے روز نئے نئے اور عجیب و غریب منطق پر مبنی بیانات،مفروضات پر منتج تحقیقات اورٹیلیویزن کے سامنے بیٹھے عام انسان کے ہاتھ میں پکڑے ریموٹ کنٹرول کے بٹنوں پر متحرک رہنے والے ان کے انگوٹھے اس بات کی کھلی دلیل ہیں ۔جب کہ ہمارے بعض قلمکار حضرات تو آج کل مذاہب عالم کے دیو مالائی قصے کہانیوںمیں سائنسی کیڑے تلاش کرنے اور اسلامی تعلیمات میں سے سا ئنسی علوم کے تائیدی نکات کو واضح کرنے پر اپنا زور بیاں دکھانے میں زمین آسمان کے کلابے ملانے میں جُٹے ہوئے ہیں۔ جب کہ مغرب زدہ حضرات کسی نہ کسی طرح مذہب سے جڑے تیسری دنیا کے ممالک کی پسماندگی اور مغرب کی ترقی کو جواز بنا کر ذہنی طور پر مذاہب کی بنیادی تعلیمات سے کوسوں دور ہوچکے ہیں، جن میں ان ممالک کے کرپٹ اور نااہل سیاستدان، تاجر وصنعتکار سمیت مغربی علوم پر دسترس رکھنے والوں کی اکثریت قابلِ ذکر ہے، جو موجودہ (مادہ پرست) عالمی تہذیب کے معیار سے ہم آہنگ ہونے کے لیے نام نہاد وسیع النظری کواپنانے اور ان کا برملہ اظہارکرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ جب کہ انتہائی غیر محسوس انداز میں انسان کو مذاہب سے بیگانہ کرنے کے لیے خطرناک حد تک فلم انڈسٹر یز اور میڈیاسے جوکام لیا جاتا رہا ہے اس کے نتیجے میں تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے پسما ند ہ عوام اور ان کی آنیوالی نسلیں جس ذہنی خلفشار میں مبتلا ہو چکی ہے اس کا خمیازہ توانھیں صد یو ں پرمحیط عرصے تک بھگتنا پڑ سکتا ہے۔کیونکہ موجودہ عالمی تہذیب وتمدن میں معتبری و برتری کا پیمانہ جدید تعلیم کی حاصلات کو قر ار دیا گیا ہے، جس کی تمام تر بنیاد ''مارکیٹ'' سے منسلک ہے۔جہاں سب سے زیادہ مؤثر اندزاور دلفریب الفاظ کے جال میں پھنسا کردیگر انسانی گروہوں کو اپنی مصنوعات کی خریداری یا ان کی کمپنیوں کے زیرِ سایہ رکھنے کے جتن کیے جاتے ہیں۔

یعنی جو سب سے زیادہ متاثرکُن جھو ٹ بول سکے وہ اپنی ڈگری کے حق ادا کرنے والے اور کامیاب تصورکیے جانے لگے ہیں۔ المختصر (Survival Of The Fittest) کے تحت آج انسان کو گِرگِٹ کی طرح رنگ بدلنے کے اقدار سکھاکر ان کوزندہ رہنے کاسبق رٹایاجارہا ہے۔اس تعلیم کالازمی نتیجا انسان کوجائزوناجائز ذرایع سے دولت کے حصول کے ممکن بنانے کو ہی انسانی زندگی کا مقصدومنتہاء سمجھنے اوراستعماری قوتوں کو ان کی پالیسیوں میں حق بجانب قراردیے جانے کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔جب کہ ان نتائج کو پاکستان سے زیادہ اورکون سمجھ اور جھیل سکتا ہے کہ یہی نتائج ملک کی مقتدر شخصیات کوان کے گوشواروں میں ملک کے اندراپنا ذاتی مکان ظاہرکرنے کی ہمت بھی نہیں دیتے، جب کہ مغربی ملکوں میں ان کے محل اور سوئس بینک میں ان کے ملین،بلین ڈالرز کے اثاثوں پر مشتمل اکاؤنٹ کھلے ہوئے ہیں۔

جمہوریت کی دہائی دینے والے اسی استعماری نظام کے باعث ترقی پذیر ملکوں سمیت دنیا کے ہر ایک کونے میں بے دریغ لوٹ مار سے حاصل ہونے والی دولت کو محفوظ طریقوں سے ان کی بینکوں میں پہنچ جانے تک کی راہ ہموار ہوتی رہی ہے۔قانون کے پابند معاشروں میں بھی منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کو روکنے والاکوئی نہیں ہے۔مغرب کے پرکشش اور آزاد معا شرے کے علاوہ اب تو خلائی سیاروں پرگھر بنانے جیسے حسین خواب بھی دکھائے جانے لگے ہیں،ان کے مطابق وہاں گھر بنانے کے لیے بھی دولت کا ہونا ضرور ی ہے، اس لیے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے مقتدرحلقے (سیاستداں،تاجر اور اشرا فیہ) کی اکثریت کی جانب سے لوٹ کھسوٹ اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ایسی صورتحال کے پیش نظر (بشمول پاکستان، چائنہ، جاپان اور یورپ) عالمی استعماری قوتوں کی سازشوں کے شکار ممالک کی طرف سے اپنے اپنے مسائل کے حل کے لیے انفرادی طور اٹھائے جانے والے ان کے اقدام دوررس فائدہ پہنچانے سے قاصر رہتے آئے ہیں۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں