قومی زبان اردو کا عدالتی نفاذ

اس زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دوسری زبانوں کی بہ نسبت بے شمار الفاظ کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے


قمر عباس نقوی September 22, 2015
اس زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دوسری زبانوں کی بہ نسبت بے شمار الفاظ کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے

میرے قریبی ساتھی ودوست احباب ومتعلقین اکثر وبیشتر مجھ سے فرمائش کرتے ہیں کہ اخباری مضامین انگریزی میں بھی لکھوں ۔ میں یکسر معذرت کے ساتھ انکارکردیتا ہوں ۔ حالانکہ میں بچپن سے انگریزی اخبارکے مطالعے کا شوقین رہا ہوں۔ مگر ہمیشہ لکھا اردو میں جس کے پس منظر میں ایک بڑی نفسیاتی وجہ ہے ۔

ویسے تو انسان کو دنیا کی ہر زبان بولنی آنی چاہیے جو ایک بہت مشکل عمل ہے ۔ عالمی لسانی نیٹ ورک کی وسعت کے اعتبار سے انگریزی دنیا کی وہ واحد زبان ہے جو دنیا کے کونے کونے میں کم وبیش محض رابطے کی زبان Mode of Communicationکے طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

انگریزی نیٹ ورک کے بعد دنیا میں بولی جانے والی مقبول ترین زبانیں فرانسیسیFrenchاور جرمن ہیں۔ ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی انگریزی سے ناواقف ہے اور صرف اردو لکھنا پڑھنا ، بولنا جانتی ہے وہ بھی عام فہم اور سادہ زبان میں ۔ ہماری مجبوری ہے کہ ایسی ہی زبان استعمال کی جائے جس کو ملک کی اکثریتی تعداد باآسانی پڑھ اور سمجھ سکے وگرنہ آپ کی محنت اور مقصد لاحاصل ہوجاتا ہے۔ ہاں البتہ انگریزی کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ہمارا معاشی ، اقتصادی اسٹیٹس اس صورت مستحکم نہیں ہوسکتا جب تک ہم اس فرنگیانہ سحرکن زبان سے واقف نہ ہوں کیونکہ آپ بیرونی دنیا سے رابطہ میں رہ سکتے ہیں ہماری سوسائٹی میں اس زبان کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ کسب معاش کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے ضروری ہے کہ اپنی قومی زبان کے ساتھ ساتھ اس کی ہمارے معاشرے میں ضروریات کی اہمیت کو بھی سمجھا جائے۔ یہ آپ کی اضافی قابلیت اورصلاحیت کو ظاہر کرتی ہے۔

ہماری خوش قسمتی سمجھیے یا بدقسمتی ، ہمارا پورے کا پورا معاشرہ بالخصوص برصغیر پاک وہند پر طویل عرصہ تاجِ برطانیہ کے زیر عتاب رہنے کے علاوہ ہمارے آباؤاجداد کی طرف سے بھی وراثت کا حصہ ہے۔اس لیے دونوں کی ضرورت لازم وملزوم کی سی ہے ۔ قابل افسوس ہے یہ امرکہ انگریزی کے سحرمیں مبتلا ہوکر ہم اردو سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ تعلیمی علمی میدان میں ہماری سوسائٹی میں ابتدائی یا نرسری ، مونٹیسری کلاس سے ہی بچوں کو انگریزی ہی کے انداز میں درس وتدریس کا کام جاری ہے۔ یعنی آپ اردو کے بجائے انگریزی ہی میں سوچیں، اس سے ہماری نسل اردو ہی سے دور ہوتی جارہی ہے۔

دور جدید کا بیشتر علمی سرمایہ انگریزی میں ملے گا مگر اس کے حصول کے لیے ہمیں اپنا تعلیم کا معیارعالمگیر سطح پر بڑھانا پڑیگا بہرحال اس موضوع بحث اور تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ معیارکا توازن رکھتے ہوئے ففٹی ، ففٹی کی بنیاد پر دونوں زبانوں پر ماہرانہ عبور حاصل کیاجائے۔آج کل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ملک کی اعلیٰ عدالت کی طرف سے اردوکو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم جاری کرنے پر خوب پروپیگنڈہ جاری ہے لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس کی میڈیا پر ترویج اتنی طاقت اور موثر انداز کے ساتھ نہیں ہو پا رہی جتنا کہ اس زبان کا حق ہے۔

مولوی عبد الحق ثانی برصغیر کی وہ شخصیت تھی جن کی پوری زندگی اردو کے فروغ اور اس کی ترقی کے لیے وقف تھی اور یوں بابائے اردو کا خطاب ان کے حصے میں آیا۔8ستمبر 2015ملک کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بر صغیر پاک وہند کی لشکری زبان اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے سے متعلق فیصلے کی سماعت کی ۔ فاضل اور درویش منش منصف نے بارہ سال پرانی پیٹیشن کا فیصلہ اردو میں سناتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ آئین کے آرٹیکل 251کے تحت کسی بھی قسم کی تاخیر کے بغیر تین ماہ کے اندر اندر اس حکم کو نافذ العمل کرتے ہوئے تمام مروجہ قوانین کا اردو ترجمہ کرلیاجائے ۔اس ضمن میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے پر فوری اور ہنگامی ترجیحی بنیادوں پر 9نکات پر مشتمل ہدایات جاری کیں۔ اس تاریخ ساز اور خوش آئند فیصلے کی روشنی میں اعلیٰ حکومتی سطح پر احکامات جاری کرتے ہوئے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں بھی اردو زبان میں خط وکتابت کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے ۔

اردو زبان کا نفاذ ملک کے اعلیٰ سروسزکے امتحانات اور تمام عدالتوں کے فیصلے اردو میں صادر فرمائے جائیں گے۔ آئینی تاریخ کے حوالے سے 25فروری1948 ، 1962 اور 1973 کے آئین کے تحت دستور ساز اسمبلی نے اردو کو پاکستان کی قومی ، سرکاری اور دفتری زبان قرار دیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے کے فوراً بعد پاکستان میں موجود امریکی سفارت خانوں نے اپنی ویب سائٹ انگریزی سے اردو میں تبدیل کردیں۔ 21مارچ1941کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا ڈھاکہ یونیورسٹی کے منعقدہ کنوینشن میں طلباء سے خطاب اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ اردو ہماری قومی اور دفتری زبان ہوگی ۔

جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ'' آپ صوبے میں سرکاری زبان کے طور پر جس زبان کا چاہیں انتخاب کریں لیکن جہاں تک صوبوں کے درمیان خط وکتابت کا تعلق ہے وہ اردو میں ہوگی ۔ اردو واحد زبان ہے جو پورے ملک میں بولی اورسمجھی جاتی ہے ۔اردو مسلمانوں کا صدیوں پرانا ورثہ ہے ۔اردو دوسرے اسلامی ممالک کی زبانوں سے قریب تر ہے اس لیے پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہوسکتی ہے۔ صوبے میں آپ جس زبان کو چاہیں سرکاری زبان بنائیں '' برصغیر میں ہندی کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی یہ ہی زبان اردو ہی ہے۔ بھارت کی فلمی صنعت اردو زبان میں فلمیں بنا کر اربوں کھربوں روپے کما رہی ہیں۔

بقول محمود شام کے ''اردو سے کمانے والو ! اردو پر ظلم بند کرو ، اردو کا دامن وسیع کرنے کے لیے تحقیق اور تشکیل پرکچھ خرچ کرو ۔ مقتدرہ قومی زبان ، انجمن ترقی اردو ، اردو وفاقی یونیورسٹی، انجمن ترقی اردو ، اُردو سائنس بورڈ ، اُردو لغت بورڈ سب کے لیے کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اُردو ترقی کرے گی تو علاقائی زبانیں بھی آگے بڑھیں گی۔'' شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال ؒ اُردو کے علاوہ دوسری زبانوں پر بھی دسترس رکھتے تھے مگر قوم کی روح کو بیدار کرنے کے لیے انھوں نے مادری اور قومی زبان اردو کا سہارا لیا۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ترقی یافتہ ممالک روس، چین ، کوریا، جاپان، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور امریکا نے اپنی ہی مادری زبانوں میں اپنے طلباء کو طبعی علوم یا علوم عقلیہ ، (منطق، ریاضی، ہیت، موسیقی، طبعیات، الہیات اور فلسفہ) کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ۔

اس حوالے سے عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن کے ڈاکٹر عثمانی ہمارے سامنے ایک زندہ مثال ہیں جنھوں نے نہ خود سائنسی علوم کی تعلیم اردو میں حاصل کی بلکہ درس وتدریس کا سلسلہ بھی اردو ہی میں جاری رکھا۔ بلکہ آپ حیران ہوں گے کہ ترکی ، ایران، چین کی یونیورسٹیوں میں طب جیسے ذمے دارانہ حساس اور سائنسی مضامین اپنے ہاں رائج مقامی اور مادری زبانوں میں ہی پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کبھی بھی شکایت کی صورتحال پیدا نہ ہوسکی۔

متوسط اور غریب گھرانوں میں عام طور پر ہونے والی شادیوں اور دیگر تقریبات کے دعوت نامے اردو کے بجائے انگریزی میں تیارکیے جاتے ہیں ،اور اس رجحان میں تیزی سے اضافہ بھی ہورہا ہے جو ہم سمجھتے ہیں کہ اردو کے خلاف کھلم کھلا بغاوت ہے جب کہ اردو میں مٹھاس ، شائستگی اور رومانیت کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔بات چیت یا گفتگو کے دوران مکالمہ آرائی میں استعمال ہونے والے بیشتر ایسے انگریزی الفاظ جو مستقل طور پر اردو ہی میں ضم ہوچکے ہیںاور اردو کا ہی لازمی جزو بن چکے ہیں۔ مثلاً شکریہ کے بجائے Thank you، معذرت کے بجائےSorry، معاف کیجیے کہ بجائےExcuse me، اسٹیشن ، اسکول (تعلیمی مدرسہ یا تعلیمی درسگاہ)، اسٹیشنری اور کاپی جیسے الفاظ کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے۔

اس زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دوسری زبانوں کی بہ نسبت بے شمار الفاظ کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو زبان سمندرکی مانند وسیع زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔حالیہ اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ سرکاری زبانیں کل سات ہیں۔جن میں اردو تیسرے نمبر پرہے۔ اسی لیے تو نواب مرزا داغ ؔدھلوی بڑے فخر سے یہ کہہ گئے۔

اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں ہے دھوم ہماری زباں کی

بلاشبہ محب وطن فاضل منصف اپنی سروس کی میعاد پوری کرکے قومی زبان کی تشخص کی بلندی ، شرح خواندگی میں اضافے کی امید کے ساتھ ہمارے معاشرے میں برسوں قدیمی تہذیب وثقافت کا ایٹمی دھماکا ضرورکرگئے ہیںجو یقینا دیرینہ طبقاتی خلا کو پر کرنے میں ممد ثابت ہوسکیں۔مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ملک کا طاقتور اشرافیہ طبقہ بالخصوص ہمارے برطانوی اسٹائل بیورو کریٹس ،درآمدی سیاست دان اس فیصلے کے عمل در آمد کو کس حد تک ممکن بناتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بدقسمتی اس ملک کی یہ ہے کہ فیصلے صادر ہوتے ہیں مگر عمل درآمد میں تاخیر برتی جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں