نائجیریا میں گُھڑسواری پر پابندی عائد

بوکوحرام کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج کا منفرد اقدام


غزالہ عامر September 22, 2015
بوکوحرام کا مقابلہ کرنے کے لیے فوج کا منفرد اقدام فوٹو : فائل

کئی برس سے نائجیریا کی فوج بوکوحرام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کارروائیاں کررہی ہے۔ اس سلسلے میں اسے اہم کام یابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں مگر ہنوز اس گروپ کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔ شدت پسند گروپ نے نائجیریا میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ اس کی پُرتشددکارروائیوں میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ گذشتہ برس تک بوکوحرام کے رابطے القاعدہ سے تھے مگر اب اس نے داعش کی حمایت حاصل کرلی ہے۔

بوکوحرام کا آغاز نائجیریا کی شمال مشرقی ریاست بورنو سے ہوا تھا۔ اس ریاست میں یہ تنظیم یا گروہ گہرا اثرورسوخ رکھتا ہے۔ بوکوحرام کی کارروائیوں کا مرکز بھی یہی ریاست ہے۔ شدت پسند تنظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے نائجیریائی فوج نے حال ہی میں ایک انوکھا حکم جاری کیا ہے۔ فوج کی جانب سے ریاست کے باشندوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گُھڑسواری نہیں کریں گے !

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے بورنو میں فوج کے ترجمان کرنل تکر گساؤ نے کہا کہ حالیہ ہفتوں کے دوران گُھڑ سوار مسلح دہشت گردوں نے کئی حملے کیے ہیں۔ لہٰذا گھوڑے کی سواری کرنے پر پابندی لگائی جارہی ہے، تاکہ دہشت گردوں کو آسانی سے نشانہ بنایا جاسکے۔

ترجمان کے مطابق فوج نے بوکوحرام کے خلاف اہم کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ انھیں سامان رسد کی فراہمی منقطع ہوچکی ہے جس میں پیٹرول ڈیزل وغیرہ بھی شامل ہے۔ ایندھن کی عدم فراہمی کی وجہ سے ان کی گاڑیاں ناکارہ ہوگئی ہیں،اس لیے وہ اب دورافتادہ دیہات میں اپنی کارروائیوں کے لیے گھوڑوں کا استعمال کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی حکومت اور مقامی قبائلی سربراہان کی کونسل سے مشاورت کے بعد ریاست میں گُھڑسواریپابندی لگادی گئی ہے۔ نائجیریائی فوج کو یقین ہے کہ اس پابندی سے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں مدد ملے گی۔

گُھڑسواریپر پابندی کے حکم نامے کو اگرچہ قبائلی سرداروں کی بھی حمایت حاصل ہے، مگر کئی مقامی باشندے اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ گ پر پابندی کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پابندی سے ان کے معمولات بُری طرح متاثر ہوں گے۔ واضح رہے کہ نائجیریا کے دیہات میں گھوڑے روزمرّہ زندگی کا جزولازم ہیں۔ انھیں سواری اور باربرداری کے علاوہ کھیتوں میں ہل چلانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں