ابراہیمؑ جس نے وفا کا حق ادا کردیا

اُس وقت فقط مٹی کے بت تھے پوجنے کے لیے، آج زمانے کے بدلتے رنگوں نے ان میں بھی تنوع پیدا کردیا ہے۔


رضوانہ قائد September 23, 2015
ابراہیمؑ نے اپنے رب کی اولین پکار پر محبت و وارفتگی کے جذبے کے ساتھ لبیک کہا اور زندگی کے ہر موڑ پر اس عہدِ بندگی کو کمال معرفت سے نبھایا۔

ذوالحج کا ماہِ مقدس مسلمانوں کے لیے جو اہمیت رکھتا ہے اُس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔ رویتِ ہلال کے ساتھ ہی تمام عالم میں احترام کی فضا جابجا اپنی نشانیوں کے ساتھ نظر آنے لگتی ہے۔

سفرِ حج وعمرہ، زیارتِ بیت اللہ دیگر مناسکِ حج اور قربانی، پھر ان تمام نشانات پر قدم بہ قدم مہر وفا ثبت کرنے والی عظیم شخصیت حضرت ابراہیمؑ، اپنی نہایت مُتاثر کُن شخصیت کے ساتھ اپنی زندگی کے تمام تر دشوار گذار مراحل سے گذرتے ہوئے، جیتے جاگتے ہمارے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ چند برس قبل کا ہمارا سفرِ حجاز، زیارتِ بیت اللہ، ان دنوں پوری آب وتاب کے ساتھ ہمارے سامنے ایک بار پھر متحرک ہے۔ قدم قدم پر حیاتِ ابراہیمؑ کو تازگی بخشنے والے واقعات، نشانات ہیں۔ ابراہیمؑ وہ انسانِ عظیم کہ جس کا خمیر سراسر وفا سے گندھا تھا، جس نے اپنے رب کی اولین پکار پر محبت و وارفتگی کے جذبے کے ساتھ لبیک کہا اور زندگی کے ہر موڑ پر اس عہدِ بندگی کو کمال معرفت سے نبھایا، پھر اس کے رب نے بھی اپنے خلیل کی وفاداری کو رہتی دنیا تک کے لیے حج و قربانی صورت میں لازوال کردیا۔

حضرت ابراہیمؑ ساڑھے چار ہزار سال قبل، صنم کدہ عراق میں پجاریوں کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اللہ تعالی کے مقرب ہونے کے باعث قلبِ سلیم (اعتقادی و اخلاقی خرابیوں سے پاک دل) سے نوازے گئے، اس کی بدولت آپؑ شعور کے آغاز (8 برس کی عمر) سے ہی خالق کائنات کی جستجو میں رہنے لگے۔ آسمان و زمین، چاند، سورج، ستارے اور دیگر مظاہرِ کائنات کے براہِ راست مشاہدے اور گہری سوچ بچار کے بعد ربِ کائنات اور اسکی حقیقت کو اذنِ الہی سے پالیتے ہیں۔ جوانی میں نبوت سے سرفراز ہوتے ہیں اور بت کدے میں تنِ تنہا علی الاعلان کلمہء توحید بلند کرنے کھڑے ہوتے ہیں۔ وطن میں رہ کر غلبہ دین کا حکم ہوا تو سخت ترین حالات کے باوجود اہل وعیال سمیت فرض کی ادائیگی میں جت جاتے ہیں۔ قوم نے پناہ نہ دی اور حکومت کے ساتھ مل کر جان کی درپے ہوگئی، آبائی دین کی مخالفت کے جرم میں آگ میں ڈالے گئے، مگر پائے استقامت میں لغرش نہ آئی، پھر اپنے مشن کی خاطر گھر بار اور خاندان وطن کو چھوڑ کر حکمِ الہی سے ہجرت پر کمر بستہ ہوتے ہیں اور سالہا سال کبھی کنعان کی بستیوں میں، کبھی مصر اور کبھی صحرائے عرب میں کلمہِ توحید کو بلند کرنے کی خاطر گھومتے رہے۔

اسی سیاحتِ با سعادت میں جوانی گذار کرعالمِ پیری میں داخل ہوتے ہیں۔ غلبہِ دین کے مشن کو جاری رکھنے کی خاطر اولاد کی دعا کرتے ہیں۔ بڑھاپے میں اولاد سے مایوسی کے عالم میں اولاد سے نوازے جاتے ہیں، پھر مستقبل کے سہارے اور اُمیدوں کے واحد مرکز کو ماں سمیت بے آب و گیاہ وادی میں لا بسانے کا حکم ہوتا ہے، تب بھی اس پیکر وفا کا سرِ تسلیم خم ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے، پھرعہدِ بندگی میں وفا کا وہ مقامِ بلند بھی آتا ہے کہ اس دشتِ غربت میں عزیز از جان اکلوتے فرزند کو رب العالمین کی خاطر قربان کرنے کااشارہ ملتا ہے، تو بیٹے کی رضامندی کے ساتھ دل کی پوری آمادگی سے عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ رب العالمین کو اپنے خلیلؑ کی بندگی اتنی پسند کہ اس عظیم قربانی کو مینڈھے کی قربانی کے ذریعے قبول کرلیتا ہے اور باپ بیٹے کے اس عمل کو ''اسلام'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آپؑ اس عہدِ بندگی کی وفا کے بدلے''مسلم'' جیسےعظیم لقب سے نوازے جاتے ہیں۔

بندگی و فرمانبرداری کے کسی موقع پر، کسی مشکل کو آپؑ نے راہ کی رکاوٹ نہ بننے دیا اور کسی حکم کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی یا سستی کا مظاہرہ نہ کیا۔ آپؑ کی اسی بلا کم و کاست وفاداری اور اطاعتِ کامل کا صلہ یہ ملا کہ رہتی دنیا تک کیلئے امامِ عالم بنادیے گئے۔ اللہ تعالی سے حد درجہ قربت کے باوجود اپنی فرمانبرداری میں لغزش کی فکر آپؑ کو اپنے رب کی جانب ہمہ وقت رجوع واستغفار میں مشغول رکھتی۔ حضرت ابراہیمؑ امامِ عالم کی حیثیت سے کلمہِ توحید کو بلند کرنے کی غرض سے مسلسل مسافرت میں رہتے ہیں، پھر آپؑ کو مرکزِ توحید، بیت اللہ کی تعمیر کا حکم ملتا ہے تو اپنے بیٹے اسماعیلؑ کے ہمراہ اطاعتِ الہی کے جذبے سے سرشار ہوکر بیتِ الہی تعمیر کرتے ہیں اور اپنی اس خدمت کی قبولیت کی دعا کے ساتھ اس خطہ کو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے جائے پناہ اور مرکزِ امن و ہدایت بنانے کی دعا بھی کرتے ہیں۔ ربِ کریم آپؑ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے کعبہ کو مرکزِ امن و ہدایت بنا کر یہاں ہر قسم کے رزق کی فروانی کر دیتے ہیں۔

بالآخر کعبتہ اللہ کو مرکزیت عطا کرنے کی خاطر اس کا حج ادا کرنے کے لیے دور دراز علاقوں تک منادی کرنے کا حکم ملتا ہے۔ روایتوں میں آیا ہے کہ اس حکم کی بجا آوری کے لیے آپؑ ایک بلند مقام پر چڑھ جاتے ہیں۔ قدرتِ الہی سے وہ مقام اتنا بلند ہوجاتا ہے کہ دور دراز تک پہاڑ بہت پست ہوجاتے ہیں۔ ابراہیمؑ اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر چاروں سمت رخ کرکے اعلان کرتے ہیں کہ
''لوگو تمھارے رب نے تم پر بیت اللہ کا حج فرض کیا ہے، اپنے رب کی پکار پر لبیک کہو''

اس منادی کے بعد لوگ جوق در جوق بیت اللہ کی طرف لپکے۔ حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ نے حضرت جبرائیلؑ کی رہنمائی میں حج ادا کیا۔ ہزاروں سال سے آج تک لوگوں کا جذبہ و شوق کےعالم میں فریضہ حج ادا کرنا، پھر ہرسال بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے حرم کی حدود میں توسیع، ابراہیمؑ کی الہی مدد کے ساتھ کی گئی منادی حج کی باز گشت کی برکت ہے کہ لوگ روزِ اول ہی کی مانند، دنیا کے ہر گوشے سے اس مرکزِ امن کی جانب دیوانہ وار لبیک کی صدائیں بلند کرتے آرہے ہیں۔

آج ابراہیمؑ کے وقت سے کہیں ذیادہ تعداد میں اُمتِ مسلمہ اپنا وجود رکھتی ہے مگر حالات اس ابتدائی وقت سے کچھ کم نہیں، صرف انداز مختلف ہے اس وقت فقط مٹی کے بت تھے پوجنے کے لیے، آج زمانے کے بدلتے رنگوں نے ان میں بھی تنوع پیدا کردیا ہے۔ اب جگہ جگہ نفس پرستی، مفاد پرسی، فرقہ پرستی، شخصیت پرستی اور نسلی وقومی تعصب کے بے شمار مزید خوشنما و پُرکشش بت ہیں۔ ان کی چمک نے امت کے وجود کو ہی دُھندلا کرڈالا ہے۔

مسلمانانِ عالم اپنے باپ ابراہیمؑ سے فخریہ نسبت رکھتے ہوئے ہر سال علی الاعلان ان کی سنتوں کو تازہ کرنے کے لیے، دور دراز کا سفر کرکے بیت اللہ تک پہنچنے، حج ادا کرنے، قربانی کرنے کے لئے اپنے جسم وجان کی طاقت اور مال خرچ کرنے میں دریغ نہیں کرتے، مگر امت مُسلمہ اپنی حدود میں جاری آگ و خون کے معرکوں میں کسی وفا شعار ابراہیمؑ کی تلاش میں ہے۔
آج بھی ہو جو ابراہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِگلستاں پیدا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔