منی سینما گھراخلاق کردار اور فلم انڈسٹری کی تباہی

معیاری تفریح کی فراہمی کے ساتھ منی سنیما گھروں کے خلاف آپریشن ہی وقت کا تقاضہ ہے۔


آج کے دور میں فلم تجارتی جنس ہی نہیں رہی یہ تفریح اور تعلیم و تربیت اور معاشرتی اصلاح اور تعمیر و ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔

بچپن میں ایک بنجارا اپنے کندھے پر ایک ڈبہ اُٹھا کر گلیوں میں آوازیں لگاتا پھرتا تھا کہ چلتی پھرتی فلمیں دیکھیں، مزے مزے کے کرتب دیکھیں۔ سبھی بچے جمع کی گئی رقوم اکٹھی کرتے اور اس بنجارے کو دے کر اس ڈبہ کے ایک بڑے سے سوراخ پرآنکھ لگا کر دیکھتے تو وہ بنجارا پاس بٹھا کر ایک ہینڈل گھماتا اور فلم دکھاتا۔ اب نہ بنجارہ آتا ہے اور نہ ہی اس کا وہ جادوئی ڈبہ دکھائی دیتا ہے، کیونکہ اب ٹیکنالوجی نے ترقی کرلی، بڑی اسکرینز اور جدید ٹی وی کا تصور آیا تو سبھی متروک ہوگیا۔ اب بڑے سینماؤں کی اسکرینوں سے لے کر موبائل فون تک ہر جگہ آسانی سے فلم دستیاب ہے، اسی جدید اور ترقی یافتہ دور کی نشانی منی سینما گھر ہیں۔

گذشتہ دنوں لاہور میں اندرونِ شہر جانے کا اتفاق ہوا، ٹیکسالی دروازے سے داخل ہونے کا ارادہ ہی تھا کہ کچھ عزیز دوستوں نے اصرار کیا کہ آج داتا دربار کے بالکل سامنے چائے کے ڈھابے پر چائے پیتے ہیں، اور انڈین فلم بھی دیکھ لیں گے، چار و ناچار دونوں کے اصرار پر رُخ چائے کے ڈھابے کی جانب کرلیا، داتا دربار کے بالکل سامنے دربار سے لاہور کے دیگر علاقوں کی جانب جانے والی گاڑیوں کا اڈہ ہے۔ اسی اڈے کے ساتھ چائے اور کھانے کے پانچ چھوٹے چھوٹے ڈھابے ہیں۔ ان ڈھابوں پر بڑی اسکرینز والے ٹی وی چل رہے تھے، جن پر انڈین موویز لگی ہوئی تھیں۔ ڈھابے پر بیٹھتے ہی ایک عجیب سی بدبو نے ناک کے نتھنوں کو چھوا، عجب تعفن زدہ ماحول تھا۔

فلم دیکھنے والوں میں مزدور، چھوٹی عُمر کے بچے اور بُڑھاپے کی دہلیز پر دستک دینے والے بزرگ بھی تھے۔ چائے کا آرڈر دیتے ہی ایک خاتون پر نگاہ پڑی، درجنوں مردوں کے بیچ ایک خاتون کو دیکھ کر میں چونک سا گیا۔ شکل سے پڑھی لکھی دکھائی دینے والی خاتون ڈھابے میں موجود افراد سے گفتگو میں مگن تھیں، میں نے خاتون کو اپنا کارڈ پکڑایا اور گفتگو کا وقت مانگا، خاتون گفتگو سے فارغ ہوئیں اور مجھے باہر آنے کا کہا، میں بھی خاتون کے ساتھ ہی باہر نکل آیا، ڈھابے سے کچھ دور خاتون کی گاڑی پارکنگ میں موجود تھیں، خاتون کے کہنے پر میں ان کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ صبا (فرضی نام) جامعہ پنجاب سے نفسیات میں ایم فِل کر رہی ہیں اور ان کی تحقیق کا موضوع لوگوں کے رویے ہیں۔ صبا کا کہنا تھا کہ وہ صبح اور شام کو یہاں آتی ہیں اور لوگوں کے رویوں کا اندازہ لگاتی ہیں۔ صبح کے وقت اس مزدور کا رویہ چانچنے کی کوشش کرتی ہیں، جو مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے وقت گذارنے یہاں آتا ہے، وہ دن بھر مزدوری کرکے سکون حاصل کرنے والے افراد کے رویوں کا اندازہ بھی لگاتی ہے۔

صبا کے ساتھ گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ، لاہور میں مِنی سینما گھروں کا رواج ختم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھ رہا ہے، اور یہ میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے کہ چائے کے ہوٹلوں کی آڑ میں بنے مِنی سینما گھر جرائم اور فحاشی کی محفوظ ترین پناہ گاہیں بن گئے۔ نئی نسل بے راہ روی کا شکار ہورہی ہے، متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عدم توجہی کے باعث یہ مقامات کسی بھی گھناؤنے منصوبے کی تکمیل کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں چائے کے ہوٹل رات گئے تک کُھلے رہنے سے نوجوان نسل اپنی عیاشی کا سستا اور آسان طریقہ سمجھتے ہوئے ڈیرہ ڈالے رکھتے ہے۔ جہاں انہیں منشیات کی باآسانی ترسیل کے علاوہ بے راوی میں مبتلا کرنے کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے جبکہ ان ہوٹلوں کے بیشتر مالکان جرائم پیشہ ہونے کے ساتھ جوا اور منشیات فروشی کے ریکارڈ یافتہ بھی ہوتے ہیں۔

ان ڈھابوں کے بارے میں تحقیق کے بعد علم ہوا ہے کہ شہر میں سٹی ڈویژن میں سب سے زیادہ چائے کے ہوٹلوں اور منی سینما گھر قائم ہوئے ہیں، جہاں بھاٹی گیٹ، داتا دربار، لوئرمال، لوہاری گیٹ، لاری اڈہ، بادامی باغ، نولکھا ریلوے اسٹیشن گڑھی شاہو، قلعہ گجر سنگھ، باغبانپورہ، شالیمار، غازی آباد، غالب مارکیٹ، اقبال ٹاؤن ڈویژن کے بیشتر تھانے اسلام پورہ، ساندہ، لٹن روڈ، سمن آباد، سبزہ زار، مزنگ اور بند روڈ کے علاقوں میں چائے کے ڈھابوں میں صبح سے رات گئے تک مختلف شفٹوں میں ڈیوٹی دینے والے مالکان کے جاننے والے منشیات فروش اور دیگر جرائم کرنے والے افراد ڈیرے ڈالے رکھتے ہیں، جبکہ ان اڈوں پر آنے والے نوعمر بچوں کو آنے کیلئے مکمل تحفظ کی گارنٹی دی جاتی ہے جہاں اسکولوں اور کالجوں سے بھاگ کر آنے والے بچوں کو سستی تفریح کی آڑ میں مختلف فلمیں دکھا کر ان کے کم عمر اور ناپختہ ذہن سے کھیلا جاتا ہے۔

وال سٹی میں تجاوزات قائم کرکے چائے اور دیگر کھانے پینے کے ہوٹل بنانے والے افراد کی جانب سے جیب تراشی اور منشیات، نشہ آور کیپسول، انجکشن، سیرپ، افیم اور الکوحل کی فروخت کیلئے پُرکشش رقم کی لالچ دی جاتی ہے، جبکہ ان ہوٹلوں اور اسنوکر کلبوں میں فحش فلمیں اور گانوں کو بڑی اسکرین پر دکھا کر نئی نسل کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا جارہا ہے۔
فلم دیکھنے کے لئے گاہکوں کو چائے کا ایک کپ یا کولڈ ڈرنک کی ایک بوتل لازماََ خریدنا پڑتی ہے جس سے دکان کے مالک کو ایک فلم کے دوران اوسطاََ 300 سے 500 روپے تک آمدن ہوتی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر میں واقع تمام چھوٹے بڑے چائے خانوں کے مالکان سیلز ٹیکس سمیت کوئی بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اگر ان ڈھابوں اور چائے خانوں کو کنٹرول نہ کیا گیا اور واضح پالیسی مرتب نہیں کی گئی تو بعید نہیں کہ ملک میں بدکردار، خوابوں میں رہنے والی اور نشے کی عادی نسل تیار ہو۔

آج کے دور میں فلم تجارتی جنس ہی نہیں رہی یہ تفریح اور تعلیم و تربیت اور معاشرتی اصلاح اور تعمیر و ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک اس وقت فلم کے ذریعے اقتصادی اور معاشی استحکام حاصل کر رہے ہیں۔ اب یہ ثقافتی، سیاسی، تہذیبی، معاشرتی نظریات و روایات کے پرچار کا ذریعہ بھی ہے۔ افسوس کا مقام کہ ہمارے ہاں فلمسازی زوال کی انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ ہمیں اپنے نظریات، تشخص، روایات و اقدار کے عکاس سینما کی ترقی اور فروغ کی اشد ضرورت ہے۔ معیاری تفریح کی فراہمی کے ساتھ منی سنیما گھروں کے خلاف آپریشن ہی وقت کا تقاضہ ہے۔

[poll id="674"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں