ناقابل فراموش کارنامہ

پاکستان شاید ایٹم بم بنانے کے بارے میں کبھی سوچتا بھی نہیں اگر ہمارے بڑے پڑوسی کی نیت صاف ہوتی


عثمان دموہی September 24, 2015
[email protected]

پاکستان نے 7 ستمبر 2015ء کے تاریخی دن شمالی وزیرستان کی شوال وادی میں اپنے تیارکردہ ڈرون طیارے براق سے تین خطرناک دہشت گردوں کو کامیابی سے کیا نشانہ بنایا کہ مغربی دنیا میں کھلبلی مچ گئی کہ پاکستان نے ایٹم بم بنانے کے بعد ایک اور سنگ میل عبور کر لیا ہے۔

دراصل سامراجی ممالک چاہتے ہیں کہ چھوٹے ممالک ہمیشہ ہی ان کے دست نگر بنے رہیں وہ نہ ان جیسی ترقی کر سکیں اور نہ ان جیسے ہتھیار تیارکر سکیں ان کی ہمیشہ ان پر اجارہ داری قائم رہے تا کہ وہ دونوں ہاتھوں سے انھیں لوٹتے رہیں۔ اس وقت تمام مغربی ممالک کے اسلحے کے ماہرین کے درمیان پاکستان کا ڈرون موضوع بحث بن چکا ہے۔

وہ پاکستان کی کامیابی پر خوش ہونے کے بجائے اسے حسد اور شک کی نگاہ سے دیکھنے کے ساتھ اس کی تیاری میں بیرونی ہاتھ تلاش کر رہے ہیں۔ اسلحے کے ایک مغربی انجینئر اور سینئر تجزیہ کار کارنیل گبسن نے براق کی تیاری میں بیرونی مدد کا انکشاف کیا ہے دراصل ان کے ذہن پر چین چھایا ہوا ہے، چنانچہ انھوں نے پاکستانی ڈرون کو چینی ٹیکنالوجی کا شاہکار قرار دے دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے فاضل وقت نکال کر پاکستان کی جانب سے اپنے ڈرون کی جو تصاویر جاری کی ہیں ان کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ ان تصاویر سے انھیں پاکستانی ڈرون میں چینی سسٹمز اور ٹیکنالوجی کا بہت اہم کردار نظر آیا ہے۔ ایک مغربی سفارت کار تو بہت ہی دور کی کوڑی لے کر آئے ہیں، انھوں نے تو بیٹھے بیٹھے پاکستانی ڈرون میں امریکی ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کا راز معلوم کر لیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چینی ڈرون دراصل امریکی ڈرون کی نقل ہے اور پاکستانی ڈرون چونکہ چینی ڈرون کا چربہ ہیں، اس لیے پاکستانی ڈرون کو امریکی ڈرون کی نقل ہی کہا جائے گا۔ ایک اور اسلحے کے ماہر و محقق پیٹروز مین نے اپنے تجزیے میں قیاس آرائی کی ہے کہ اگر پاکستان نے واقعی بنیادی جاسوسی کرنے والے ڈرون سے زیادہ آگے مسلح ڈرون تیارکر لیے ہیں تو اس کی تیاری میں لازماً چین نے مدد کی ہو گی۔

مغربی تجزیہ کاروں کے ان مشکوک اور متعصبانہ تجزیوں سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان نے واقعی ایک بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے اور ایسی کامیابی کہ جس پر مغربی انجینئر اور تجزیہ کار حیران و پریشان ہیں۔ افسوس اس امر پر ہے کہ اگر پاکستان کوئی کارنامہ انجام دے تو مغرب کی نظر میں کھٹکنے لگتا ہے اور اسے طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اگر کوئی ان کا چہیتا ملک یعنی اسرائیل یا بھارت ایسا کرے تو وہ اس کی تعریفوں کے پل باندھے بغیر نہیں رہتے۔

جہاں تک نقل والی بات ہے یا ٹیکنالوجی چرانے کا معاملہ ہے تو اس میں تو تمام ہی ایٹمی ممالک شریک ہیں۔ خود دنیا کی موجودہ سپرپاور امریکا بھی اس میں شریک ہے۔ اس نے ایٹمی ٹیکنالوجی جرمن سائنسدانوں سے حاصل کی تھی پھر دوسری تمام بڑی ایٹمی پاورز نے ایک دوسرے سے ایٹمی ٹیکنالوجی چوری کی ہے، حتیٰ کہ چین نے بھی اپنے ایک سائنسدان ڈاکٹرسوشن زیان کے ذریعے امریکا سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔

اسرائیل کو یہ ٹیکنالوجی امریکا نے بطور تحفہ پیش کی تھی جب کہ روس نے بھارت کو اپنے اسلحے کا ایک مستقل خریدار ہونے کے اعتراف کے طور پر منتقل کی تھی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اسے یہ ٹیکنالوجی کسی ملک نے نہیں دی اور نہ ہی پاکستان نے کسی ملک سے چوری کی ہے۔ اسے اس قابل فخر ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہالینڈ میں اپنے مطالعے سے حاصل کی تھی۔ چونکہ پاکستان کی ٹیکنالوجی خود اس کی اپنی ہے اس لیے اس ضمن میں آج تک اس پر چوری کا کوئی الزام نہیں لگا۔ البتہ ایک مسلم ملک ہونے کے ناتے اسے نفرت کی بنیاد پر بدنام کیا گیا۔

پہلے تو ایٹم بم کی تیاری کے دوران اس سلسلے میں ضروری ساز و سامان کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں پھر اسے دھماکا کرنے سے روکا گیا اور جب پاکستان تمام ضروری مرحلے طے کر چکا تو دھماکے کے بعد پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عاید کر دی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کے کمان اینڈ کنٹرول پر سوالات کھڑے کر کے تنقید کی بارش کی گئی جب کمان اینڈ کنٹرول پر بھی اعتراضات ختم ہو گئے تو پھر ایٹمی ٹیکنالوجی کو دیگر ملکوں کو منتقل کرنے کا الزام لگایا گیا، ساتھ ہی اس کے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں بھی جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ خوش قسمتی سے پاکستانی قائدین نے مغرب کے سارے الزامات اور خدشات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔

پاکستان شاید ایٹم بم بنانے کے بارے میں کبھی سوچتا بھی نہیں اگر ہمارے بڑے پڑوسی کی نیت صاف ہوتی اور پاکستان کو ختم کرنے کی پالیسی پرگامزن نہ ہوتا۔ وہ قیام پاکستان سے لے کر 1999ء تک پاکستان کو ختم کرنے کی چار بارکوششیں کر چکا ہے پھر وہ 1971ء میں ہمارے مشرقی بازو کو توڑ چکا ہے۔ چنانچہ اس کے 4 197ء میں علامتی ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان کے لیے اپنی حفاظت کے لیے ایٹم بم بنانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

اس میں شک نہیں کہ بھارت ایک ایٹمی پاور ہے مگر اس کا جلد بازی میں تیار کردہ ایٹم بم پاکستان جیسا کارگر نہیں ہے تاہم بھارت نے صرف ایٹم بم پر انحصار نہیں کیا ہے بلکہ اس کی روایتی جنگی تیاریاں خطے میں تباہ کن صورت اختیار کر چکی ہیں۔ اس کی خوفناک جنگی تیاریوں سے خطے کے تمام ہی ممالک خوف زدہ ہیں چنانچہ بھارت کے خطرے کے پیش نظر پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے جدید ٹینکوں سے لے کر تھنڈر طیاروں تک کی تیاری کا بوجھ اٹھانا پڑا ہے۔ اب اس نے بھارت پر برتری حاصل کرتے ہوئے اپنا ڈرون بھی تیار کر لیا ہے جس نے بھارتی حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔

بھارت اگرچہ جنگی جنون میں بہت آگے جا رہا ہے مگر مسلح ڈرون ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گیا ہے۔ ویسے بھارتی انجینئر 2009ء سے اپنا مسلح ڈرون تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ ابھی تک اسے جسے رستم ٹو کا نام دیا گیا ہے تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جاسوس ڈرون کے مقابلے میں مسلح صلاحیت والا ڈرون تیارکرنا بہت زیادہ مشکل ہے۔

بھارت پہلے ہی جاسوس ڈرون تیار کر چکا ہے جن کے ذریعے پاکستانی سرحدوں پر فوجی نقل و حمل کا جائزہ لینے کے لیے یہ ڈرون کئی مرتبہ بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ اب اگر بھارت کسی وقت بھی مسلح ڈرون کو تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کی جنگی روش کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ وہ اسے پاکستان کے ساتھ محدود جنگ میں استعمال کر سکتا ہے چنانچہ پاکستان کو اس کے تدارک کے لیے بھی تیاری کرنا ہو گی۔

اس وقت دنیا میں مسلح ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے صرف چار ممالک ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کو سب سے پہلے امریکا نے حاصل کیا اس کے بعد برطانیہ، اسرائیل اور چین نے حاصل کیا اور اب پاکستان پانچواں ملک بن چکا ہے۔ گو کہ فرانس، ترکی اور ایران بھی اس ٹیکنالوجی کو رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر عملی طور پر ان ممالک نے ابھی تک کوئی تجربہ نہیں کیا ہے۔

امریکا 2004ء سے فاٹا میں ڈرون حملے کر رہا ہے جن میں بے شک درجنوں خطرناک دہشت گرد مارے گئے ہیں مگر یہ حملے سراسر بین الاقوامی کی خلاف ورزی ہیں۔ پاکستان ہر ڈرون حملے پر احتجاج کرتا رہا مگر مغربی ذرایع کا کہنا ہے کہ یہ دراصل پاکستان اور امریکا کے درمیان ملی بھگت کا نتیجہ ہیں تاہم پاکستانی عوام ہمیشہ ہی ان کے خلاف محو احتجاج رہے اور انھیں بند کرانے کے لیے حکومت پر زور ڈالتے رہے ہیں، ایک طرف اگر امریکی حملے غیر قانونی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کوتباہ کرنے کے لیے تیر بہدف ثابت ہوئے ہیں۔

چنانچہ حکومت نے امریکا سے ڈرون ٹیکنالوجی منتقل کرنے کی متعدد بار درخواست کی مگر امریکا نے اسے دینے سے صاف انکارکر دیا۔ ناچار حکومت نے ملک میں ہی انھیں تیار کرنے کا ٹاسک نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن (NESCOM) اور پی اے ایف کامرہ کو سونپ دیا تھا انھوں نے انتھک محنت کے بعد 2009ء میں مسلح ڈرون تیار کرنے کا قابل فخر کارنامہ انجام دے دیا۔ مارچ 2013ء میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں اس کے کامیاب تجربے کے بعد اسے پاک فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ 23 مارچ 2015ء کو یوم پاکستان کے موقعے پر اسے دوسرے فوجی ساز و سامان کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔

پاکستانی مسلح ڈرون براق کی تیاری نے اس وقت بھارت کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے ساتھ ہی اسے پاکستان سے پیچھے رہ جانے پر خفت کا بھی سامنا ہے۔ وہ دراصل ہر جدید اسلحے کی تیاری اور خرید میں پاکستان سے آگے رہنا چاہتا ہے تا کہ خطے کے ممالک پر اس کی دہشت قائم رہے اب دیکھیے مسلح ڈرون کی تیاری کا اس کا خواب کب پورا ہوتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں