فرار ہونے میں نمبر1
مولوی کے لیے دال تیار کی گئی دستر خوان پرکھانا چنا گیا مولوی اور ان کی بیوی کھانے کے لیے بیٹھے
KARACHI:
ایک گاؤں میں ایک مولوی رہتے تھے، ان کے گھر میں پڑوسی کی مرغی گھس آئی، مولوی کی بیوی نے کہا ایک عرصے سے مرغی کا گو شت نصیب نہیں ہوا، اگر اس کو ذبح کر کے پکایا جائے تو بڑا لطف آئے گا۔ مولوی نے اس پر کہا دوسر ے کی مرغی کا گو شت کس طرح جائز ہو سکتا ہے مگر بیوی کے بار بار اصرار کرنے پر مولوی نے کہا ٹھیک ہے تم اس کو ذبح کر کے پکا لو مگر میں اس کا گوشت کھانے والا نہیں کیوں کہ میں مولوی ہوں اور ناجائز چیز کو استعمال کرنے کی صلاح نہیں دے سکتا اگر ایسا کروں گا تو لوگ مجھے عزت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ بیوی نے مرغی کو ذبح کیا گوشت پکا کر تیار کیا۔
مولوی کے لیے دال تیار کی گئی دستر خوان پرکھانا چنا گیا مولوی اور ان کی بیوی کھانے کے لیے بیٹھے، مولوی نے دال اور ان کی بیوی نے مرغی کے گوشت کے ساتھ روٹی کھانا شروع کی، اسی درمیان میں مولوی صاحب للچائی نظروں سے مرغی کے سالن کو دیکھتے جا رہے تھے۔ بیوی نے بھانپ کر مولوی صاحب سے کہا مرغی کی بوٹیاں آپ کے لیے ناجائز ہیں مگر شوربا لینے میں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ مولوی صاحب راضی ہو گئے۔
بیوی نے ہانڈ ی میں سے مولوی صاحب کے لیے شوربا نکالنا شروع کیا وہ بڑی احتیاط سے شوربا نکال رہی تھی مگر ایک بوٹی کسی طرح پیالے میں آ گئی۔ بیوی نے چاہا کہ پیالے سے بوٹی نکال کر ہانڈی میں واپس ڈال دے کہ مولوی صاحب فوراً بول اٹھے ''آپ سے آتی ہے تو آنے دو۔'' ہم سب چاہے وہ سیاست دان ہوں یا بیوروکر یٹس، بزنس مین یا چوہدری، وڈیرے، سردار ہوں یا مذ ہبی رہنما ہوں اپنی اپنی زندگیوں میں ہم ہمیشہ وہ ہی مولوی صاحب ثابت ہو تے ہیں، ہم سب کا بھی یہ ہی نعرہ ہوتا ہے کہ آپ سے آتی ہے تو آنے دو ہم سب اپنے مفاد و فائدے کے معاملے میں چیزوں کو جائز اور ناجائز ثابت کرنے میں مہارت حاصل کر چکے ہیں۔
اس معاملے میں ہم سب ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں جب تک اپنا مفاد یا فائد ہ ہوتا ہے تو اسے ہر طرح اپنے لیے جائز قرار دینے میں زمین و آسمان ایک کر دیتے ہیں اور سیاسی و مذہبی تاریخ کے کوڑا دان سے ایسی ایسی مثالیں ڈھونڈ لاتے ہیں۔ جسے لانا جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا ہے اور جیسے ہی اپنا مفاد یا فائدہ ختم ہوتا ہے تو اسی وقت اتنی تیزی کے ساتھ الٹی قلا بازی لگا کر اسی کو ناجائز قرار دینے لگتے ہیں کہ سننے والا دم بخود ہو کر رہ جاتا ہے اور سانس لینا تک بھو ل چکا ہوتا ہے۔
ہم اس شرمناک طریقے سے تمام ضابطوں اخلاقی اقدار اور اصولوں کو توڑتے ہیں کہ اگر لوگوں کا بس چلے تو وہ کپڑے پھاڑ کر سر میں خاک ڈال کر جنگلوں اور صحراؤں میں نکل کھڑے ہوں۔ چاہے وہ جمہوریت کا معاملہ ہو یا کوئی سماجی اور مذہبی معاملہ ہو سب کے سب معاملوں میں ہمارا یہ ہی معاملہ ہے اصل میں ہم سب آدھے ایماندار، آدھے دیانت دار، آدھے دین دار، آدھے شریف، آدھے نیک اور آدھے دوغلے پائے گئے ہیں لیکن باتوں، وعدوں، دعوؤں کی حد تک اپنے آپ کو ساری زندگی پورا ایماندار، پورا دیانتدار، پورا دین دار، پورا شریف، پورا نیک، ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
اصولوں اور جمہوریت پر مرمٹنے کے شیر بنے پھرتے ہیں لیکن جب مر مٹنے کا وقت آتا ہے تو فرار ہونے میں ہمیشہ نمبر 1 ثابت ہوتے ہیں۔ رشوت، کمیشن، کرپشن کو حرام قرار دیتے پھرتے ہیں لیکن جب سامنے والا ضد پکڑ لے تو پھر اسے ناراض بھی نہیں ہونے دیتے ہیں۔ دوسروں کی عزتوں کو اپنی نگاہوں سے تار تار کرنے پر ہمیشہ تلے بیٹھے رہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی عزتیں ہمیشہ خوش نصیب ثابت ہوئی ہیں، ورنہ ہماری جانب سے تو ہم نے کبھی بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جہیز کو لعنت قرار دیتے پھرتے ہیں جب اپنی باری آتی ہے تو بڑے پیا ر سے آہستہ سے یہ بات آگے سر کا دیتے ہیں کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے آپ اپنی بیٹی کو جو چاہیں دینا دے دیں۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ماضی اور حال کے بڑے بڑے عہد ے داروں، کرسی والوں کی کرپشن، لوٹ مار کو لہک لہک کر بیان کرتے پھرتے ہیں اگر خود کی ان کی جگہ پر براجمان ہونے کی تمنا پوری ہو جائے تو پھر ان سے بڑے چور، کرپٹ اور راشی ثابت ہوتے ہیں ہم سب آدھے سچے ہیں اور آدھے جھوٹے ہیں یعنی ہم آدھے ہیں اور سب کے سب ادھورے ہیں یہ ہی آدھا پن اور ادھورا پن ہماری ساری زندگی چھلکتا رہتا ہے اور ہم ساری زندگی اپنے آپ کو پورا ثابت کرنے میں جتے رہتے ہیں لیکن ساری عمر اپنے پورے پن کو ثابت ہی نہیں کر پاتے ہیں اور وراثت میں وہی آدھا پن اور ادھورا پن چھوڑ جاتے ہیں اور ہماری وراثت آدھے پن اور ادھورے پن پر اپنی پوری طاقت، قوت سے جھپٹ کر اسے اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں اور یہ عمل مسلسل اسی طرح چلتا آ رہا ہے۔
ہم سب اسی آدھے سچ اور آدھے جھوٹ میں پستے رہتے ہیں نہ خود کسی نتیجے پر پہنچ پاتے ہیں اور نہ کسی کو نتیجے پر پہنچنے دیتے ہیں اور اسی وجہ سے ان 68 سالوں میں اپنے مسائل کم کرنے کے اس میں اضافہ ہی کرتے جا رہے ہیں۔ آج ہمارے مسائل دیو بن چکے ہیں اور ہم سب بونوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
یاد رکھیں بونے کبھی بھی دیو سے نہیں جیت سکتے اگر آپ دیو کو شکست دینا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو اپنے بونے پن سے نجات حاصل کر نا ہو گی اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب آپ اپنے آدھے اور ادھورے پن سے نجات حاصل کریں گے اور اپنے ہاتھوں سے انھیں سولی پر چڑھا دیں گے جب آپ کا ادھورا پن اور آدھا پن سولی پر لٹک جائے گا تو یک دم آپ مکمل اور پورے ہو جائیں گے اور پھر آپ میں وہ طاقت خود بخود آ جائے گی کہ آپ ان دیوؤ ں کو جنہوں نے آپ کا جینا حرام کر رکھا ہے اپنے ہاتھوں سولی پر چڑھا سکیں گے۔ اور اپنی بقیہ زندگی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والوں کی طرح گزار سکیں گے۔ اور پھر نا تو آپ بے وقوف بن سکیں گے اور نہ کوئی آپ کو بنا سکے گا۔