نماز عید پہروں کے بیچ
ہم نے جو مقام حج سے بارہ پتھر دور بیٹھے ہیں نماز عید اطمینان سے پڑھی اگرچہ پہرے میں پڑھی۔
عجب ثم العجب۔ اس برس یوں بھی ہونا تھا کہ عازمین حج کو جانوں کا ایک نذرانہ فریضہ حج کی ادائیگی سے پہلے دینا پڑا۔ مگر یک نہ شد دو شد' دوسرا قیمتی جانوں کا نذرانہ فرائض حج کے دوران دینا پڑا۔ بہر حال مشیت ایزدی میں سخن کی گنجائش نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ہم نے جو مقام حج سے بارہ پتھر دور بیٹھے ہیں نماز عید اطمینان سے پڑھی اگرچہ پہرے میں پڑھی۔ ارے اسی وجہ سے تو اطمینان سے یہ فریضہ ادا کیا۔ پہرہ مسجد کے ارد گرد سخت تھا۔ مسجد میں یوں تو داخل نہیں ہو سکتے تھے کہ منہ اٹھائے بلا روک ٹوک اندر داخل ہوئے۔ وضو کیا۔ صفیں چیر کر اپنے لیے جگہ بنائی اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ویسے آگے تو یوں ہی ہوا کرتا تھا اور تو اور تقسیم سے پہلے ہندوؤں کے ہوتے ہوئے اور ایسے زمانوں میں بھی جب فرقہ وارانہ کشیدگی عروج پر ہوتی تھی یہی طور تھا۔ مسجد میں تب سے بڑھ کر اب خطرے میں ہیں۔کافروں کے ہاتھوں؟ نہیں۔ مسلمانوں کے ہاتھوں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے مسجدیں نرغے میں آ گئیں۔ اس کے صحنوں میں بم پھٹنے لگے۔ ان پر خود کش حملوں کی صورت یلغار ہونے لگی۔ شب رنگ تھا۔ نیت باندھ لی ہے۔ امام کے پیچھے رکوع و سجود میں مصروف ہیں۔ مگر کچھ دھڑکا بھی لگا ہوا ہے۔ پتہ نہیں برابر میں جو کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، کیا وہ واقعی کوئی نمازی ہے۔ پرانی مثل چلی آتی تھی بغل میں چھری منہ پہ رام رام۔ اب یہ مثل آؤٹ آف ڈیٹ ہو گئی۔ نئی صورت احوال یوں نمایاں ہوئی کہ بغل میں بم کا گولہ ورد زبان اللہ اللہ۔ تب فریضہ نماز پہرے میں ادا ہونے لگے۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے سیکیورٹی کے مراحل سے گزرو۔ پہرے والے اطمینان کرنا چاہتے ہیں کہ تم سچ مچ نمازی ہو۔
جب پہرہ سخت ہوا تب خود کش حملہ آور کے لیے مسئلہ پیدا ہوا اندر کیسے جائے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ وہیں گیٹ پر کھڑے کھڑے بٹن دبایا۔ لیجیے دھماکا ہوا۔ خود جان لے گیا تو کیا ہوا۔ کتنوں کو ساتھ لیتا گیا۔
اب تھوڑا سکون ہے۔ اس مرتبہ ایسی کوئی خبر نہیں سنی کہ نماز عید کے ہنگام کسی مشکوک نمازی کو گیٹ پر روکا گیا۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے اپنا فریضہ ادا کیا۔ خود بھسم ہوا۔ ساتھ میں ارد گرد کے کتنے لوگ جو جلدی جلدی مسجد میں داخل ہو رہے تھے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تو ہم نے اس برس نماز عید نسبتاً سکون سے پڑھی۔ ہاں دور سے ایک خبر آئی۔ ملک یمن سے۔ عید کا دن تھا۔ شاید وہاں بھی خانہ خدا کو وہی خطرہ درپیش تھا جیسا عیدین کے موقعوں پر ہماری مسجدوں کو درپیش ہوتا ہے۔ مگر کام کرنے والوں نے پھر بھی اپنا کام دکھایا۔ خود کش حملہ نہیں ہوا۔ جہاز منڈلاتا ہوا آیااور عین اس ہنگام جب نمازی مسجد کے اندر باہر صفیں باندھے کھڑے تھے بمباری ہوئی۔ کتنے نمازی نماز پڑھتے پڑھتے نماز سے گئے اور زندگی سے گزر گئے؎
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
ادھر امام کعبہ خطبہ حج پڑھ رہے تھے۔ حاجیوں سے مخاطب تھے اور کہہ رہے تھے کہ اسلام اس فعل کو جائز قرار نہیں دیتا کہ مسلمان مسلمان کو قتل کرے۔ مگر ان مسلمان جیالوں کے کانوں تک یہ آواز نہیں پہنچی جو آج کے مبارک دن' عید قربان کی سہانی صبح کو اپنے شکار پر نکلے ہوئے تھے۔
لندن سے ایک عزیز کا فون موصول ہوا۔ دیار غیر میں ہوں۔ سمجھو کہ ایک غیر اسلامی ملک میں عید منا رہا ہوں۔ دوڑا دوڑا مسجد میں گیا ۔کوئی پہرہ نہیں تھا۔ کسی سیکیورٹی والے کی تیز نگاہوں سے پالا نہیں پڑا۔ خود کش حملہ آور اس ملک میں عنقا ہے۔ نماز عید اطمینان سے پڑھی۔
ہم نے اسے بتایا کہ ادھر ہم بھی خیریت سے ہیں۔ نماز پہرے میں البتہ پڑھی۔ مگر فریضہ نماز ادا کر کے خیریت سے گھر آئے۔قصاب بھی جلدی مہیا ہو گیا۔ قربانی کا نرخ بہت بڑھ گیا ہے۔ پہلے جتنی رقم میں بکرا آتا تھا اب اتنی رقم قصاب کو ادا کی جاتی ہے۔ کتنی پھرتی سے وہ قربانی کے جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور جھٹ پٹ گوشت بنا کر یہ جا وہ جا۔ کتنے بکروں کے گلے اس کی چھری کا انتظار کر رہے ہوں گے۔
قربانی کے گوشت کی قدر اب ہمیں معلوم ہوئی۔کس اطمینان سے ہم بقر عید کے دسترخوان پر بیٹھے گوشت کی ڈشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔کتنے دنوں کے بعد یہ اطمینان میسر آیا ہے کہ ہم حلال گوشت کھا رہے ہیں۔ پچھلے کل تک ہم ہمارا حال یہ تھا کہ گوشت کی ڈش سے مفر بھی نہیں تھا۔ آخر ہم مسلمان ہیں۔ گوشت خوری ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ مگر ایک شک کہ واقعی یہ بکرے ہی کا گوشت ہے یا کسی اور جناور کا ۔ چھوٹے بڑے ہوٹلوں کے پھیرے لگاکر دیکھ لیا۔ مگر کیا کوفتے کباب' کیا پلاؤ اور بریانی' اور کیا اشٹو کیا قورمہ۔ کھانے رنگا رنگ۔ مگر ایک شک کہ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ جانے ہم مٹن اور بیف کے نام پر کیا الا بلا کھا رہے ہیں۔ اب اہل چین کی منطق سمجھ میں آئی کہ ہمیں آم کھانے سے مطلب ہے۔ پیڑ گننے میں کتنی کوڑی کا فائدہ ۔ جناور کوئی بھی ہو۔ اصل شے اس کا گوشت ہے۔
قصہ مختصر۔آگے کے چند دن اطمینان سے گزریں گے۔ قربانی کا گوشت جب تک ہمارے دسترخوان کا ساتھ دے گا، ہم اس اطمینان سے کھائے پئیں گے کہ ہم حلال کھا رہے ہیں۔ فی الحال یہ قربانی کا گوشت ہے۔ اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ اس سے آگے شاید اس عید قربان کی قربانیاں رنگ لائیں اور وہ سخت چیکنگ جس کے مراحل سے ہوٹلوں اور مذبحوں کا گزرنا پڑا ہے، وہ اپنا اثر دکھائے اور ہمیں اکل حلال کھانے کو ملے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آنے والے وقت میں ہماری قسمت میں کون کونسے ذبیحے لکھے ہیں۔