بنکاک کی چڑیا
جہاز آسمان کی وسعتوں میں اڑ رہا تھا اور میں سوچ رہی تھی وقت واہمہ ہے یا حقیقت۔ ایک ہی دنیا میں کتنی دنیائیں ہیں۔
KRAKOW:
جہاز آسمان کی وسعتوں میں اڑ رہا تھا اور میں سوچ رہی تھی وقت واہمہ ہے یا حقیقت۔ ایک ہی دنیا میں کتنی دنیائیں ہیں۔ زمین کی حدود کے اپنے مناظر ہیں اور آسمان کی لامحدود وسعتوں کی الگ دنیا۔ آسمان سب کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس کے منفرد رنگ ہیں۔ اس کی وسعتوں میں حسین منظر آنکھوں کو طراوت بخشتے ہیں۔ آسمان آزادی اور وسعت کا استعارہ ہے۔ میں اپنی سوچوں میں غلطاں تھی کہ جہاز نے زمین کی طرف رخ کیا۔ آسماں کی وسعتیں پیچھے رہ گئیں۔
اب زمین کے رنگا رنگ مناظر تھے۔ بنکاک ایئرپورٹ پر ہر طرف زندگی رواں دواں تھی۔ ایئرپورٹ سے سیدھے سکھ مت روڈ پہنچے، جہاں ہنی ہوٹل میں کچھ دن ٹھہرنا تھا۔ ہوٹل پہنچ کر تازہ دم ہو کے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ بینکاک کی بلند و بالا عمارتیں جگمگا رہی تھیں۔
تھائی لینڈ، کمبوڈیا، لاؤس، ملائیشیا اور میانمار کے بیچ میں واقع ہے۔ یہاں انڈین اور چائنا ثقافت کے رنگ دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ ساؤتھ ایسٹ ایشیا کا ایسا ملک ہے، جسے ہزاروں مسکراہٹوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ 70 ملین آبادی پر مشتمل اس ملک میں مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں۔ یہاں ہر ثقافت بدھ ازم کے زیر اثر ہے۔
شام کے وقت سکھ مت روڈ پر ایک رنگا رنگ دنیا آباد ہوتی ہے۔ فٹ پاتھ پر واقع بازار کے اسٹالز پر زیادہ تر خواتین نظر آتی ہیں۔ تھائی عورت مستعد اور محنتی ہے۔ اکثر عورتوں کو موٹر سائیکل چلاتے دیکھا۔ یہ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ بنکاک سیاحوں کا شہر ہے۔ دنیا بھر کے لوگ یہاں نظر آتے ہیں۔ ایک ریسٹورنٹ میں کام کرنے والی لڑکی انادا نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی کی طالب علم ہے۔ شام میں وہ ریسٹورنٹ میں کام کرتی ہے۔ وہ ایک کنزرویٹو خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔
پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس نے بڑی مشکل سے والدین سے کام کی اجازت لی ہے۔ انادا کو اس بات کا افسوس ہے کہ اب بنکاک پر سیاحوں کا غلبہ ہے اور تھائی کلچر کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کا کہنا تھا کہ بظاہر تو عورتوں کے حقوق مردوں کے مساوی نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ تھائی عورت مرد کے ظلم کا شکار ہے۔ مرد ہی اسے جسم فروشی کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں 2.8 ملین لوگ جسم فروشی کی صنعت سے وابستہ ہیں۔
بقول معروف مصنف رجنیش کے کہ مرد نے عورت کو اپنے ہر فائدے کے لیے آزادی دی اور اسے شمع محفل بنا دیا۔ عورت کو اپنی محکومیت میں رکھنا یا نام نہاد آزادی دینے کی صورت میں بھی مردانہ سماج کا غلبہ ہر حال میں برقرار رہتا ہے۔بنکاک میں ایک طرف مساج شاپس، بارز، نائٹ کلب تو دوسری طرف جا بجا مزار اور اسپرٹ ہاؤسز نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر روحوں کے یہ گھر ہوٹلز، گھروں، آفیسرز، اسکولز اور مالز کے باہر بنے ہوئے ہیں۔ جو تھائی لوگوں کی روحانیت اور توہم پرستی کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ لوگ ماورائی کرداروں پر یقین رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی نیا گھر، بزنس یا ہوٹل بنایا جاتا ہے تو یہ لوگ بھٹکتی ہوئی روحوں کے لیے بھی اس عمارت کے باہر گھر بناتے ہیں تاکہ وہ مصیبت اور پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ گزشتہ مہینے بینکاک میں واقع اراوان مزار پر بم کا دھماکا ہوا جس میں بیس افراد لقمہ اجل بنے۔ جن میں14 غیر ملکی سیاح بھی شامل تھے۔ بظاہر اس دھماکے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ کوشش سیاحت کی فروغ پاتی ہوئی صنعت کو نقصان پہنچانے کی سازش بھی ہو سکتی ہے۔ تھائی لینڈ میں تقریباً 35 ہزار مندر پائے جاتے ہیں۔ یہ مندر تھائی بدھ ازم، چائنا بدھسٹ اور ہندوؤں کے ہیں۔ ان مندروں میں مذہبی رسومات اور تہوار باقاعدگی سے منائے جاتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں 97 فیصد لوگ بدھ ازم مذہب سے وابستہ ہیں۔ تھائی لینڈ میں بدھ ازم تیسری صدی قبل مسیح میں متعارف ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف چھا گیا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ان مذہبی اصولوں کا عملی طور پر اظہار ہے۔
تھائی لوگوں کے پاس آزادی کا احساس نظر آیا۔ جس کی جڑیں اندر کی آزادی کے احساس سے پھوٹ نکلتی ہیں۔ انسان کہیں نہ کہیں کسی غلامی کے جال میں الجھا ہوا ہے۔
یہ خواہشوں کی اسیری بھی ہو سکتی ہے اور چیزوں و رشتوں سے انتہا کی وابستگی بھی۔انسان کو وابستگی دکھ دیتی ہے۔ وابستگی مکڑی کے جالے کی طرح ہے، جس میں انسان کا ذہن الجھتا چلا جاتا ہے۔ خودغرضی، حرص و لالچ تکلیف دہ راستے ہیں۔ لہٰذا گوتم بدھ نے ان سے نجات پانے کے راستے بتائے ہیں۔
مراقبہ ان ذریعوں میں سے ایک ہے، جو انسانی ذہن کے انتشار کو ٹھہراؤ کی طرف لے کر آتے ہیں۔ مراقبے کا مقصد قلبی سکون، محبت، چستی و ہوشیاری اور آگہی حاصل کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھائی لوگوں کے پاس مربوط خاندانی نظام ہے۔ جس میں بڑوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ بڑوں کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ تھائی لوگوں کے درمیان گھومتے یا ان سے باتیں کرتے ہوئے محسوس ہوا کہ ان کا باطن سکون و مسرت سے ہمکنار ہے۔ ان کے ذہنوں میں سکون ہے۔
سکون ہی انسان کا قیمتی سرمایہ ہے۔ جو اندھیروں میں بھی اسے راستہ سجھاتا ہے۔ ہوٹل سے قریب سکھ مت روڈ پر واقع فٹ پاتھ پر واقع اسٹالز اور ان کے اردگرد ہجوم میں زندگی اور ہلچل تھی۔ کھانوں کے اسٹالز پر اچھا خاصا رش تھا۔ بازار میں فقیر بھی نظر آئے۔ ایک آنکھوں سے نابینا خاتون وہاں سے گاتی ہوئی گزری۔ ایک عورت جسے سہارا دے کر چلا رہی تھی۔ نابینا خاتون کے ہاتھ میں مائیک تھا۔ ریکارڈ کی ہوئی موسیقی پر وہ گا رہی تھی۔ اس کی آواز دل کی گہرائی کو چھو رہی تھی۔ آواز میں بلا کی خوبصورتی اور سوز تھا۔ لوگ اس کے ہاتھ پر پیسے رکھ رہے تھے۔ وہ ورڈزورتھ کے ککو پرندے جیسی آواز تھی جو سمندروں کی خاموشی کو توڑ کے رکھ دیتی ہے۔
ہر سمت رنگ و روشنی، خوبصورتی اور خوشیوں کی پھوار برس رہی تھی۔ اس رات نیند نہیں آئی۔ رات کے پچھلے پہر میں خاموشی و سکوت میں چڑیا کی آواز ہر طرف گونجنے لگی۔ اس قدر گہری اور پراثر آواز اس سے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ کھڑکی سے باہر بلند و بالا عمارتوں کی روشنیاں جاگ رہی تھیں۔ رات کے پچھلے پہر میں عجیب حسن تھا۔
آسمان کی وسعتوں میں چمکتا ہوا چاند بھی انہماک سے چڑیا کی آواز سن رہا ہو جیسے۔ صبح ہوتے ہی یہاں سارے ملک میں بہت ساری چڑیوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھولتی ہے۔ مگر وہاں فقط ایک چڑیا تھی جس کی چہچہاہٹ پورے ماحول میں گونج رہی تھی۔ ایک ایسی چونکا دینے والی سحرانگیز آواز جسے آپ مدتوں نہیں بھولتے۔