چھوٹی اقوام کی آزادی کا احترام
وعدوں کوپورا کرنےمیں ناکامی کےبعد اب نریندرمودی آر ایس ایس کیجانب سےتفویض کیےگئے 3اہداف کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہیں۔
KARACHI:
انتخابی مہم میں بھارت کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی کے بعد اب نریندر مودی آر ایس ایس کی جانب سے تفویض کیے گئے، تین اہداف کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہیں۔پہلا ہدف بھارت کو ہندوتوا کی تعلیمات کے عین مطابق ایک ہندو دیش بنانا، دوسرا پاکستان میں مزید دہشتگردی کا جال بچھا کر کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ بنانا اور تیسرا بھارت کے پڑوسیوں پر مستقل ہیبت طاری کرنے کے لیے بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانا۔ جہاں تک پہلے ہدف کا تعلق ہے اس سلسلے میں پہلے ہی تعلیمی نصاب کو ہندوتوا کا پرتو بنانے، تاریخی کتابوں میں مسلمانوں کے کردار کو مسخ کرنے اور متنازعہ ترانہ بندے ماترم کو اسکولوں میں گانے کے احکامات پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔
اس کے بعد اب پورے بھارت میں گائے ذبح کرنے اور اس کے گوشت کو فروخت کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس سے مسلمان اور عیسائی ہی نہیں بلکہ کروڑوں دلت بھی سخت برہم ہیں۔ مسلمانوں کے لیے تو خیر گائے کا گوشت برسوں سے شجر ممنوعہ بنا ہوا ہے۔ اب اس پابندی کو جموں اور کشمیر کی متنازعہ ریاست تک دراز کر دیا گیا ہے وہاں کی ایک عدالت نے ڈوگرہ راج کے دور کے گائے ذبیحہ کی بندش کے قانون کو نافذ کر کے کشمیریوں کے بنیادی حقوق کو چیلنج کر دیا ہے۔
کشمیری ہمیشہ سے ہی گائے ذبح کرتے چلے آ ر ے ہیں انھوں نے تو ظلم و جبر سے بھرپور ڈوگرہ راج میں بھی اس کے قانون کو نہیں مانا تھا تو وہ مودی کے توسط سے آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر سے جاری کیے گئے غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر شرعی حکم کو کیونکر خاطر میں لا سکتے ہیں وہ اس قانون کی خوب دھجیاں بکھیر رہے ہیں، شہر شہر بیچ چوراہوں پر گائیں ذبح کی جا رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ حیران و پریشان ہے کہ وہ کشمیریوں کو کیسے نریندر مودی کی خواہش کے طابع بنائے۔ خیر یہ تو جموں کشمیر کی بات ہے جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اب تو مودی جی بھارت کے پڑوسیوں کو بھی ہندوتوا کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ نیپال اس کی واضح مثال ہے نیپال ایک پرامن ملک ہے پہلے وہاں بادشاہت قائم تھی۔
راجہ کا دعویٰ تھا کہ وہ وشنو بھگوان کا اوتار ہے، چنانچہ وہاں کے لوگ اسے راجہ سے زیادہ بھگوان خیال کرتے تھے۔ بادشاہت کے زوال کے بعد وہاں جمہوریت کا بول بالا ہوا، اس کے ساتھ ہی ایک جمہوری اور سیکولر آئین کی تیاری کا کام شروع کر دیا گیا۔ نئے آئین کو نیپالی عوام کی عین امنگوں کیمطابق تشکیل دیا گیا ہے۔
اس سیکولر آئین پر مودی سرکار کو سخت اعتراض ہے کیوں کہ اس میں ان کی خواہش کیمطابق نیپال کو ایک ہندو ملک قرار نہیں دیا گیا ہے جب نیپالی حکومت نے ان کے اعتراض پر کوئی کان نہ دھرے تو مودی سرکار نے ناچار نیپال میں آباد بھارتیوں کے ذریعے نئے آئین کے خلاف مظاہرے شروع کروا دیے۔ خاص طور پر ترائی کے علاقے میں بھارتی نژاد مدھیشی سخت احتجاج کر رہے ہیں۔ پولیس سے ان کی جھڑپوں میں کئی جانوں کے ضیاع کے علاوہ امن و امان کی صورت حال گمبھیر ہو گئی ہے۔
مظاہرین نے بھارت کے اشارے پر نیپال کی مین شاہراہ جو اسے بھارت سے ملاتی ہے کو بند کر دیا ہے جس سے نیپال میں پٹرولیم مصنوعات اور غذائی اشیا کی سخت قلت ہو گئی ہے ذرایع کیمطابق بھارت نے اپنا نیپال پر دباؤ بڑھانے کے لیے کلکتہ سے ہی نیپال کے لیے ایندھن کی سپلائی روک دی ہے۔نیپال کے نئے آئین کے مسئلے پر بھارت کی کھلی مداخلت نہ صرف نیپال کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے اور غیر اخلاقی ہے۔
بھارتی حکومت نے نیپالی حکومت کو نئے آئین کے نفاذ کو روکنے کے لیے کہا ہے کیونکہ اس میں نیپال کے ایک ہندو اسٹیٹ ہونے اور ہندوتوا کو مرکزی نکتہ بنانے کی شق شامل نہیں ہے۔ نیپالی حکومت جس کے تمام اراکین پارلیمنٹ کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف نیپال سے ہے انھوں نے بھارت کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے اور ملک کا آئین جمہوری اور سیکولر اقدار پر رکھنے پر اصرار کیا ہے۔
اس وقت نیپالی عوام بھارت کی مداخلت پر سخت ناراض ہیں وہاں کا میڈیا بھی بھارت پر سخت تنقید کر رہا ہے۔مسئلہ دراصل مودی سرکار کا ہی نہیں ہے تمام ہی بھارتی حکومتیں غریب ملک نیپال کو اپنے ہی ملک کا ایک حصہ سمجھتی چلی آئی ہیں اور اسے بنگلہ دیش کی طرح اپنا حاشیہ بردار بنانا چاہتی ہیں۔ جب کہ نیپال ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے اس کی ڈھائی کروڑ آبادی کی بھارت سے مختلف تہذیب و ثقافت ہے۔ اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہ تین اطراف سے بھارت سے گھرا ہوا ہے، شمال میں ہمالیہ پہاڑ ہے چنانچہ اس کی تمام بیرونی تجارت کا دار و مدار بھارت پر ہے۔ بھارت اس کی اس کمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنے انداز سے چلانا چاہتا ہے اور اس کے پاکستان اور چین سے کسی بھی قسم کے تعلق کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جب کہ نیپال تمام پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات کو قائم رکھنا اور مزید فروغ دینا چاہتا ہے۔
شاہ بریندرا ایک نڈر بادشاہ تھے انھوں نے بھارت کی پرواہ کیے بغیر پاکستان اور چین سے نیپال کی دوستی کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا جس کی پاداش میں بھارت نے نیپال کی بیرونی تجارت پر پابندی لگا دی تھی۔
1988-89ء میں نیپال تیز رفتاری سے ترقی کر رہا تھا اس کی شرح نمو بھارت سے کئی گنا زیادہ تقریباً 10 فی صد سالانہ تھی مگر بھارتی پابندی کے بعد یہ ایک فی صد پر آ گئے تھی دراصل بھارت نیپال کو بنگلہ دیش کی طرح اپنے اصولوں پر چلانا چاہتا ہے مگر نیپالی ایک خود دار قوم ہیں اور مداخلت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نیپال کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھارت کے ساتھ سرحد کھلی ہوئی ہے جس پر کوئی پہرے داری نہیں ہے حتیٰ کہ پاسپورٹ اور ویزے کی بھی پابندی نہیں ہے چنانچہ بھارت اپنے جاسوس اور دہشتگرد آسانی سے نیپال میں داخل کر سکتا ہے۔ کئی بھارتی لیڈر نیپال کو اس کی پاکستان اور چین کے ساتھ دوستی کی پاداش میں اسے بھارت میں ضم کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
بھارت کے اس جارحانہ رویے سے تنگ آ کر نیپالی حکومت اقوام متحدہ سے درخواست گزار ہے کہ اس کے چارٹر میں لینڈ لاک ممالک کو جو سہولتیں دی گئی ہیں نیپال کو ان کی رکاوٹ پر بھارت سے باز پرس کرے اور اسے اس کا حق دلایا جائے۔افغانستان بھی ایک لینڈ لاک ملک ہے اس کی بیرونی تجارت کے سلسلے میں پاکستان نے جس فیاضی کے ساتھ اسے راہ داری کی سہولت کے علاوہ محصولات میں رعایتیں دی ہیں کوئی دوسرا ملک نہیں دے سکتا مگر افسوس کہ افغان قائدین کا رویہ ہمیشہ پاکستان مخالف رہا ہے وہ پاکستان کے دشمن سے اپنی دوستی کو نہ صرف خاص اہمیت دے رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف دہشتگردی کا جال بچھا رہے ہیں۔
انھیں دراصل نیپال کے حالات سے سبق لینا چاہیے۔ جہاں تک بھارت کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کا سوال ہے تو وہ ہمیشہ سے انھیں کمتر سمجھ کر اپنے طابع بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے مگر سوائے بنگلہ دیش کے خطے کے کسی بھی ملک نے اس کی چوہدراہٹ کو قبول نہیں کیا ہے چنانچہ وہ خود کو منوانے کے لیے دہشتگردی کا سہارا لیتا رہا ہے۔ سری لنکا ایک عرصے تک بھارتی دہشتگردی کا شکار رہ چکا ہے۔نیپال پاکستان کا ایک پرانا قابل اعتماد دوست ملک ہے۔
پاکستان ہمیشہ نیپال کی آڑے وقت میں اس کی مدد کرتا رہا ہے۔ وہ موجودہ مشکل حالات میں بھی نیپال کی مدد کرنا چاہتا ہے کاش کہ بھارت ہوش کے ناخن لے اور اپنے پڑوسیوں کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر ان سے برابری کا برتاؤ کرے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ملک جو اپنے پڑوسیوں کو امن و سکون سے نہ رہنے دے اور بلاوجہ ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے اور مزید برآں سلامتی کونسل کی قراردادوں کا کھلا منحرف ہو، وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا اہل ہو سکتا ہے؟ اس وقت بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔
کئی مغربی ملک بھارت کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں حتیٰ کہ امریکا جو دنیا کی سپرپاور ہونے کے ناتے اقوام متحدہ کی عزت و وقار کا پاسبان ہے محض اپنے مالی مفاد کی خاطر بھارت کی طرفداری اور دلجوئی کر کے اقوام متحدہ کا حشر لیگ آف نیشن جیسا کرنے پر تلا ہوا ہے۔