جنگ ستمبر۔ گولڈن جوبلی
ریاست کے ہر شعبے کے اپنے فرائض ہوتے ہیں اگر ہر شعبہ یا ادارہ اپنا فرض ایمانداری اور یکسوئی سے ادا کرے
ماہ ستمبر اپنے اختتام کو پہنچ چکا، اگست میں وزیر دفاع اور وفاقی وزیر اطلاعات نے ذرائع ابلاغ کے مالکان اور اخبارات کے ایڈیٹرزکو پر جوش انداز میں خوش خبری سنائی تھی کہ ستمبر کے پورے مہینے کو حکومت کی جانب سے جنگ ستمبر(1965)کی گولڈن جوبلی کے طور پر منایا جائے گا۔ مگر پورے مہینے میں حکومتی سطح پر یا ذمے دار اداروں کی جانب سے خاص تقریب کا انعقاد یا کسی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
البتہ برقی ذرائع ابلاغ اورکچھ اخبارات نے ضرورکچھ سرگرمی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ۔ کم از کم ایسا کوئی پروگرام یا سلسلہ نظر نہیں آیا جو نوجوان نسل کو اس جذبے سے آگاہ کرتا جو 1965 میں پوری قوم میں ابھر کر سامنے آیا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے، ہر طبقے کے افراد تمام اختلافات پس پشت ڈال کر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنی پاک سر زمین کی حفاظت کررہے تھے، مگر آج جب کہ ہم اس فتح کا 50واں سال منارہے ہیں ایسے میں جب کہ قوم کو بیک وقت ایک نہیں کئی خطرات درپیش ہیں، وہ جذبہ حب الوطنی، وہ ایثار، وہ یکجہتی کیوں ناپید ہوگئی؟
ذرا غور کریں تو اس ''کیوں'' کا جواب با آسانی مل جائے گا کہ قوم کو متحد و یکجا رکھنے کے لیے حکمران اپنے عوام کے دکھوں کا مداوا اور مسائل کو حل کرکے ان کی تسکین قلب کا باعث بنتے ہیں، تعلیم، صحت، روزگار اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کی وجہ سے تمام فکروں سے آزاد قوم ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے ہمہ وقت محنت کرنے کے عزم اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوتی ہے۔
مگر جب ہر طرف آپادھاپی، افراتفری، مایوسی، جان و مال اور عزت وآبرو کی فکر دامن گیر ہو تو عوام ''پہلے جان پھرکچھ اور'' جیسی صورتحال سے دوچارہوجاتے ہیں۔ جب لوگ مسجد جانے اور بچوں کو درسگاہ بھیجتے ہوئے ڈرنے لگیں تو پھر کوئی بھی مثبت جذبہ کیوں اورکیسے پروان چڑھ سکتا ہے؟
ریاست کے ہر شعبے کے اپنے فرائض ہوتے ہیں اگر ہر شعبہ یا ادارہ اپنا فرض ایمانداری اور یکسوئی سے ادا کرے اور دوسروں کے معاملات میں بلا وجہ دخل نہ دے تو ریاست کا نظام رواں دواں رہتاہے، ہم سے بد تر حالات سے دو چارکئی ممالک نے اپنے حالات کی اصلاح کی ہے وہ ایسے مخلص اور وطن پرست افراد کو منتخب کرتے ہیں جو اپنی تمام ترصلاحیت، طاقت اور اقتدارکو ملک و قوم کی بھلائی کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ ملکی ترقی وخوشحالی کو ذاتی ترقی پر ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ملک خوشحال ہوگا، ترقی کر رہا ہوگا تو قوم کا ہر فرد اس ترقی سے مستفیض ہوگا۔
جب کہ ہمارے یہاں اس کے برعکس ہوتا رہا ہے کہ ہم اہلیت اور قوم خدمت کے بجائے دولت اور ذاتی حیثیت کو اہمیت دیتے ہیں پھر ایسے لوگ برسر اقتدار آکر اپنی ذاتی دولت کو بڑھانے اور اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے پر زیادہ متوجہ رہتے ہیں، ملکی ترقی واستحکام پرکم، ہمارے یہاں دولت مند ہی کرسیٔ اقتدار تک پہنچ سکتا ہے جب کہ انڈونیشیا میں ایک بڑھئی اور بڑھئی کا بیٹا اپنی قابلیت اور عوامی خدمت کے باعث اقتدار اعلیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور اس کے باوجود عوامی ذرائع آمد و رفت سے ہی سفر کرتا ہے اور جہاں جی چاہتا ہے عوامی بس سے اترکر وہاں کے حالات کا جائزہ لیتا ہے لوگوں میں گھل مل کر ان کے مسائل سے آگاہ ہوتا ہے۔ ادھر ادھر کے لوگ اس کو ''سب ٹھیک ہے'' کا مژدہ سناکر گمراہ نہیں کرسکتے۔
مگر پاکستان میں اس کا تصور بھی محال ہے کہ کوئی معمولی حیثیت کا شخص ملک کے اقتدار اعلیٰ تک پہنچ پائے۔ ہمیں طرح طرح کے احساس کمتری میں مبتلا کردیاگیا ہے۔ طبقاتی فرق کو پروان چڑھایاگیا ہے۔ کچھ اہم شخصیات اور ان کی سیاسی جماعتیں جو خاندانی بادشاہت کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔ یہ اس مقام تک اسی نچلے طبقے کی جد وجہد اور قربانیوں کی رہین منت ہیں جو ان کی جماعت کے کارکنان ہیں۔ کارکن ہمیشہ کارکن ہی رہتا ہے جب کہ ایوان اقتدار میں اس سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچتا ہے، لہٰذا صاحبان اقتدار کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ قوم کو ایسے مسائل میں الجھائے رکھے کہ وہ ایوان کی کارروائی ٹی وی اسکرین پر تو دیکھ سکیں خود اس کا حصہ نہ بن پائے۔
یعنی جو قومی یکجہتی اور عوام کو متحد رکھنے کے ذمے دار ہیں اگر وہی انتشار و نفاق پیدا کررہے ہوں، ہر طرح کے تعصب کو ہوا دے رہے ہوں اور ان کی منشا و مرضی کے تحت ذرائع ابلاغ پر دشمنوں، دہشت گردوں کی بدعنوانیوں کا تذکرہ اور چرچا زیادہ جب کہ امن وامان قائم کرنے والوں کی ہمت و جرأت اور قربانیوں کا ذکر نہ ہونے کے برابر بلکہ اکثر قانون نافذ کرنے والے کے مختلف جرائم میں ملوث ہونے کا تذکرہ زیادہ ہو تو اس صورت میں قوم میں جوش و جذبہ پیدا ہونے کی بجائے مایوسی اور بد دلی پھیلنا ناگزیر ہے۔
یہی وجوہات ہیں کہ 1965 کا جذبہ آج مفقود ہے آج ہماری افواج بیک وقت کئی محاذوں پر برسر پیکار ہیں جب کہ جنگ ستمبر میں وہ صرف ایک محاذ پر لڑرہی تھیں اور پوری قوم اپنی افواج کی پشت پر موجود تھی، افواج دشمن سے مقابلہ کررہی تھیں، سرحدوں اور سرزمین وطن کی حفاظت میں ہمہ وقت مصروف تھیں اور عوام ملک کے اندر تمام شعبوں کو سنبھالے ہوئے تھے، ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، طلبہ، خواتین، رفاعی اور فلاحی ادارے حتیٰ کہ بوڑھے اور معذور افراد بھی اپنی اپنی بساط بھر ملک کے اندرونی محاذوں پر ڈٹے ہوئے تھے۔
آج کہا تو یہی جارہا ہے کہ ہم اپنی بہادر افواج کے ساتھ کھڑے ہیں مگر نظر یہ آرہا ہے کہ سرحدی جھڑپوں، دہشت گردوں، ملک دشمن عناصر کے ساتھ ساتھ فوج کو بد عنوان اداروں اور ملک کے لٹیروں سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے، یعنی اندرونی و بیرونی تمام محاذوں کو افواج ہی سنبھالے ہوئے ہیں یہ صورتحال اچانک رونما نہیں ہوئی بلکہ جمہوری و غیر جمہوری حکمرانوں کی خود غرضی اپنے اقتدار کو طول دینے کی خواہش کے لیے کیے گئے وہ اقدامات ہیں جنھوں نے قوم کو مختلف سوچ اور انداز فکر میں قصداً بانٹ دیا یعنی ہمارے ماضی کے آقاؤں کے فارمولے، ''لڑاؤ اور حکومت کرو'' پر عمل ہوتا رہا اور اب صورتحال یہ ہے کہ قوم بکھری ہوئی، مایوس، حیران و پریشان اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پر امید نظروں سے فوج کے سربراہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔
ملک سے پڑھے لکھے با ہنر، با صلاحیت افراد کا بڑی تعداد میں غیر ممالک میں منتقل ہونا خطرے کی وہ گھنٹی ہے جو عوام کو پریشانیوں میں مزید اضافے کا سبب ہے، اچھے ڈاکٹر، اچھے اساتذہ اور ہر شعبہ زندگی سے تمام ماہرین اگر ملک چھوڑ جائیں تو پھر ملک پر متعصب، جاہل، تنگ نظر افراد ہی کا قبضہ ہوگا مگر خطرے کی گھنٹی کی آواز ہمارے حکمرانوں کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی۔ ان حالات میں ہم جنگ ستمبرکی گولڈن جوبلی کیا منائیں گے؟