نوٹس لے لیا
چونک گئے آپ بھی؟ ظاہر ہے چونکنا تھا۔ یہ لفظ ہے ہی ایسا کہ چوکنا کردیتا ہے
چونک گئے آپ بھی؟ ظاہر ہے چونکنا تھا۔ یہ لفظ ہے ہی ایسا کہ چوکنا کردیتا ہے سرکاری افسروں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں ان کی اور عوام نئی فلم کی ریلیز کی تاریخ کی طرح (ماضی کے حوالے سے) نتائج کا انتظار شروع کردیتے ہیں۔
ہر زبان کے اپنے لفظ، ان کے اپنے معنی اور ان کا اپنا لطف ہے۔ اب اگر ان دنوں کسی کو اطلاع مل جائے کہ کوئی ان کے یہاں ''قدم رنجہ'' فرمائیں گے تو مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، ناہمواری حالات کے سبب یہ ان کے لیے خاصے ''رنج'' کا سودا بھی ہوسکتا ہے، مہمان کی تمام تر رحمتوں کے ساتھ ساتھ کہ وہ تو بعد کی بات ہے فی الحال تو ''زحمت'' ہے (لوگوں سے معذرت کے ساتھ کہ یہی سچ ہے) ''نابکار'' کو اب لوگ زیادہ تر ''کار سرکار'' سمجھتے ہیں، اس میں تعلیمی لیاقت کے فقدان یا معیارکی گراوٹ سے زیادہ ''معاملہ فہمی'' کا تعلق ہے۔
تو نوٹس ابھی تک میری معلومات کے مطابق NOTICE ہے یعنی اردو میں لکھے جانے سے اس کی پیدائش کی موسومہ زبان سے علیحدگی کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔ اس نے جلاوطنی نہیں کی ہم زبردستی اسے اپنی زبان میں لے آئے بلکہ ''جلد زبانی'' بروزنِ ''بد زبانی'' زیادہ بہتر ہے تو لفظ انگریزی زبان سے ہے اور اب تک متروک نہیں ہے۔
ہمارے یہاں اس کا ترجمہ ''کار عدالت وکار سرکاری'' سے ہٹ کر توجہ دینا ہے''کارعدالت و کار سرکاری'' کے حوالے سے اس کی تشریح زیادہ اچھی ہوسکتی ہے۔ کوئی کسی سلسلے میں عدم توجہی کا مظاہرہ کررہا ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ اس سے کہا جارہاہے یا جو مطالبہ ہے وہ درست ہے وہ ''ٹال مٹول'' یا اغلاط عام میں ''ٹالم ٹول'' سے کام لے رہا ہو تو اسے نوٹس دیا جاتا ہے اور اسے نوٹس دینا کہتے ہیں۔
چاہے وہ عدالت کا ہو یا محکمے کا اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ نے اس بار بھی ٹال مٹول سے کام لیا تو آپ کے خلاف کارروائی کی جائے گی تو متعلقہ شخص یا ادارہ اس نوٹس کو وصول کرتا ہے تو خبر ہوتی ہے یا لکھا جاتا ہے کہ فلاں نے نوٹس وصول کرلیا، اس کا مقصد عام زبان میں یہ ہے کہ نوٹس لے لیا اب ہر زبان کی مترادفات، اختراعات اور مروجات ہوتی ہیں، جن میں ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معنیٰ بھی ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں، ہر دودھ پینے والے کو بھی شیرخوارکہنے پر اصرارکیا جاسکتا ہے۔
تو نوٹس کا مروجہ یا عام مطلب یہی ہے کہ متعلقہ فریق کو طلب مجاز اتھارٹی کے سامنے طلب کرنا کہ وہ اس بات کو سنے اور Go North یعنی گوشمالی۔ کرسکے کہ پھر یہ حرکت ان سے سرزد نہ ہو اور عموماً یہ طے کردیاجاتا ہے اگریہ حرکت نوٹس نہ لینے والی جاری رکھی گئی تو سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی، یہ سب انگریزی کا ترجمہ ہے جو ہم استعمال کرتے ہیںDrastic Action Will Be Taken ٹھیک ہے آسان ہے، زیادہ سمجھ میں آتا ہے، مقابلہ کار سرکار میں مداخلت کے جواز کو عدم پیشی فریق درکارکی صورت میں تعمیل کارروائی کی صورت دے کر افسر مجاز کو تعمیل ارشاد عدالت عالیہ، افسر مذکورہ کی انجام دہی سے بروقت آشنا و باخبر کیا جائے۔
بات ہے نوٹس کی تو اس میں بڑی خیریت ہے اور ہمارے سارے میڈیا والے چیخ چیخ کر اور لکھ لکھ کر اسے خبر بناتے ہیں اور یہ سنی جاتی ہے، پڑھی جاتی ہے جو اس کا مقصد ہوتا ہے اور جس شخصیت یا ادارے سے متعلق یہ خبر ہوتی ہے وہ بھی کالر اوپر کرکے اسے پڑھتے ہیں۔
شہباز شریف نہ جانے کیوں تصور میں آجاتے ہیں کہ کالر اوپر کرکے پڑھ رہے ہوں گے بقیہ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ زیادہ تر کالر سے محروم ہیں کیوں کہ کوئی ایسی قابل ذکر کارروائی نہیں، خبر میں آئی کہ وہ ایسا کرسکیں وجہ ہم ایک کالم میں لکھ چکے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی ملک کے وزیراعظم کبھی نہیں رہے، نہ اب امکان ہے صوبہ سرحد سابقہ اور خیبر پختونخوا حالیہ کے وزیراعلیٰ کی تو صحت اس کی متقاضی نہیں ہے، شاید وہ خوش خرام ہیں، خوش خوراک نہیں مولانا کی طرح۔
تو بات ہے نوٹس لینے کی تو نوٹس وہ لیتا ہے جس نے کام ٹھیک نہیں کیا ہوتا اور اسے کام کرنے کی ہدایت کرنا مقصود ہوتی ہے کہ وہ آیندہ درست کام کرے۔ یہ ایک معنی ہیں، دوسرے معنی وہ ہیں کہ کسی خاص معاملے، مسئلے یا بات پر اعلیٰ شخصیات کا نوٹس لینا اور اس کا بھی مفہوم بادی النظر میں یہی نکلتا ہے کہ اس ادارے کے حکام نے یا کسی فرد نے کسی کے ساتھ نا انصافی کی ہے۔
ظلم کیا ہے، انتظام درست نہیں ہوا ہے کہ اس متعلقہ ادارے کے اعلیٰ ترین نے نوٹس لیا ہے یعنی اب جنھوں نے کام نہیں کیا ، فرائض انجام نہیں دیے ان کی کھنچائی ہوگی، شہباز شریف اس مسئلے میں مشہور ہیں اور اپنا ٹائپسٹ یا PA ساتھ رکھتے ہیں فوری کارروائی کے لیے فوری عمل در آمد کے آرڈرز تو ہوجاتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے معلوم نہیں ، سیاست تیرا چراغ جلتا رہے، سارے رانا سلامت رہیں، اس دلچسپ موضوع کی وجہ سے ہم اصل موضوع سے بھٹک نہ جائیں لہٰذا واپس مسلم ٹاؤن معاف کیجیے گا اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں تو نوٹس کی بھی کچھ اہمیت ہونا چاہیے۔
سندھ کی سیاست بابا جی تو شاید عرضی چھوڑ کر دبئی چلے گئے ہیں بچے کے سپرد کرکے، بچے کو ابھی ٹائم لگے گا ان گرگ باراں دیدہ (بارش دیکھے ہوئے بھیڑیوں) سے نمٹنے بلکہ سمجھنے میں چونکہ ان کا تو اوڑھنا بچھونا ہی کرپشن ہے، رینجرز تھیلے بھر بھر کے ان کی کرپشن کے فائل لے جارہی ہے اب یہ الگ بات ہے کہ ایک کمیشن اس پر بھی بنایا جانا چاہیے کہ یہ افسران ایسے با صلاحیت اور با اختیار کیسے ہوگئے کہ خوف خدا کو تو چھوڑو خوف وزیراعلیٰ ، وزرا بھی نہیں رکھ سکے تو اگر تھیلے کھل گئے۔
فائلیں باہر آگئیں تو ان کے نیچے سے اور پیچھے سے بڑی بڑی ہستیوں کے نام نکل آئیں گے لہٰذا فائلیں واپس چلی جائیںگی دفتروں میں، اس بہانے کچھ فائلیں گم ہوجائے گی جن کے یہاں سے گئی ہیں وہ لے جانے والوں پر الزام لگا دیں گے اور لے جانے والے کہیں گے یہ فائلیں وہاں تھیں ہی نہیں بغیر لسٹ بنائے بوریوں میں فائلیں جاری تھیں تو یہ کام تو ہونا تھا اور دفتروں میں کام نہ ہونے کی وجہ فائلوں کی عدم دستیابی تو بننا تھی جو اگلے کئی سالوں تک چلتی رہے گی۔
مزے آگئے۔ کلرک، ہیڈ کلرک اور افسروں کے رینجرز نے اور کام اچھا کردیا، آمدن کے نئے ذرائع پیدا کردیے یہ ایک خیال ہے یہ ہم نے نوٹس لیا ہے حالات کا جو غلط بھی ہوسکتا ہے تو معذرت کیوں کہ نوٹس واپس بھی لے لیے جاتے ہیں۔ ہم بھی اس سہولت کا فائدہ اٹھالیتے ہیں حالانکہ یہ بھی موبائل فون کمپنیوں کی سہولت جیسی ہے کہ جو میسج میں تو ہے مگر Activate نہیں ہے تو نوٹس کا مطلب ہے سیدھا سادا نا اہلی افسران یا ادارہ، اور اس کا براہ راست تعلق بھی اس سے ہی بنتا ہے جو نوٹس لے رہا ہے یعنی اس کی ناک کے نیچے نا اہلی کا بازار گرم ہے اور اس کو خبر نہیں تو بہت معذرت کے ساتھ۔ ہم تو یہ سمجھے ہیں کہ میڈیا دراصل نوٹس لینے والوں کی نا اہلی کو دکھاتا، بتاتا ہے کہ یہ سوئے رہے اور افسر قیامت کی چال چل گیا۔
اور کیا دھرا ان کے کھاتے میں رہا تو کوئی بھی یہ نہ سمجھے اس خبر سے کہ لوگوں میں خوشی دوڑگئی (ان میں صرف تار ٹوٹنے سے کرنٹ دوڑتا ہے) اور وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ ہوجائے گا، دوسرے ملکوں میں کوئی نوٹس نہیں لیتا، وہ نا اہل کو باہر نکال دیتے ہیں نوٹس کے مرحلے سے پیشتر اور اس کارروائی کو طوالت میں ڈال کر عوام کو پریشان نہیں کرتے ہم صرف نوٹس کا نام لے کر ان کو موقع دیتے ہیں بچاؤ کا کہ وہ اپنا کام کرلیں، سفارش پکڑلیں، یا کچھ پکڑادیں۔
کسی کو ہم اب اس سے زیادہ کیا لکھیں کہ جب بھی ہم یہ خبر پڑھتے ہیں کہ فلاں نے نوٹس لے لیا تو ہم اس کی نا اہلی اور اپنے زیر انتظام ادارے یا اداروں اور افراد کی نا اہلی پر بہت شرمندگی محسوس کرتے ہیں کیوں کہ یہ ہیں تو ہمارے ملک کے ہی لوگ اور بدنام تو ملک ہی ہورہاہے اور پریشان عوام کہ ایک مصیبت کے متاثرین کو حکومت خاطر خواہ طریقے سے Adjust نہیں کرتی یہ رشوت خور افسران انھیں سب ٹھیک ہے کا سگنل دیتے رہتے ہیں اور دوسری مصیبت آجاتی ہے کیا کہیں قدرت تو بار بار خبردار نہیں کررہی کہ ہوشیار ہوجاؤ کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی مثال دینے کی ضرورت نہیں سارا نظام سارا ملک مثال ہے۔