کرپشن مزید بڑھے گی
زویونگ کانگ(ZhouYongkang)،چین کاایک دیومالائی لیڈرتھا۔
زویونگ کانگ(ZhouYongkang)،چین کاایک دیومالائی لیڈرتھا۔ماڈرن چین کے تیل اورگیس کے شعبہ کو ترقی دینے والابے مثال کردار۔والدین انتہائی غریب تھے۔ زندگی کی سانسوں کودھکادینے کے لیے،ایک جھیل سے مچھلیاں پکڑتے تھے۔انھی مچھلیوں کی فروخت سے گزارا ہوتا تھا۔
زویونگ غیرمعمولی طورپرذہین تھا۔مختلف سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتارہا۔تقریرکرنے اورنئے دوست بنانے کے فن پرحیرت انگیز عبورتھا۔پٹرولیم انسٹیٹیوٹ میں داخل ہوگیا اوربیجنگ میں پڑھتارہا۔پڑھائی ختم ہونے کے بعد اسے کسی قسم کاکام نہ مل سکا۔کیمونسٹ پارٹی کے حکم کے مطابق اب انتظارکرناتھا۔مگراسے انتظارکرنے کی عادت نہیں تھی۔ چنانچہ ڈاقنگ (Daqing) کے علاقہ میں موجودایک تیل کے کنواں پرمعمولی سی ملازمت کرنے لگا۔کسی کے ذہن میں خیال تک نہیں تھا،کہ چالیس سال بعد،چین کی قسمت پراثر انداز ہوگا۔ یہ1967ء کازویانگ ایک معمولی ساٹیکنیشن تھا۔
محنت بلکہ شدیدریاضت کی بدولت،پارٹی کی نظروں میں آگیا۔اسے لیاہوپٹرولیم بیورو(Liaohe Petroleum Bureau) کے ایک شعبہ کاانچارج بنادیا گیا۔یہ وہی معمولی سی کمپنی تھی جوآج چین کی قومی پٹرولیم کارپوریشن بن چکی ہے۔ایک ایسی کمپنی جسکاموجودہ بجٹ ہمارے جیسے ممالک کے قومی بجٹ سے زیادہ ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ زویونگ ترقی کرتاچلاگیا۔گیس اورتیل کے شعبہ میں اس کی ذہانت بے مثال تھی۔
اس نے سرکاری کمپنی کے کاروبار کوپوری دنیامیں پھیلادیا۔ سوڈان، وینزویلا اور قازقستان میں تیل اورگیس کاتمام کاروبارچین کی پٹرولیم کارپوریشن کے ہاتھ چلاگیا۔اس شخص نے اس شعبے میں بے انتہااصلاحات کیں۔ اپنے مزدوروں اورافسروں سے کام لینے کافن جانتاتھا۔جہاں اسے محسوس ہوتاہے کہ ان کے پاس رہنے کے لیے کوئی مناسب گھر نہیں ہیں،وہ سرکاری رہائش گاہیں بنواناشروع کردیتا تھا۔ ان کے بچوں کے لیے مناسب اسکول اورطبی سہولتوں کاانتظام کرتا تھا۔1998ء میں اسے وزیربرائے زمین اور وسائل (Minister of Land and Resources) بنادیا گیا۔
اس کی ترقی برق رفتار تھی۔ اسے "سی شوان" (Sichuan)صوبے کاپارٹی سیکریٹری بنادیا گیا۔ ایک طرح سے گورنرکے برابرکاعہدہ تھا۔وہ ایک ابھرتا ہوا ستارہ تھا۔ جلدہی اسے نائب وزیراعظم کامنصب دیاگیا۔ اس کے پاس چین جیسے بڑے ملک کی تمام پولیس،خفیہ ایجنسیاں اور عدالتوں کاکنٹرول آگیا۔چین میں اس ادارے کو Central Political and Legal Affairs Commission کہاجاتاہے۔ اپنے دشمنوں کے لیے انتہائی درشت رویہ رکھتا تھا۔
تمام ملک پراس کاسکہ چلتاتھا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ پولٹ بیورو کے ممبرتک ترقی کرگیا۔چین میں ایک پارٹی کی حکومت ہے وہاں پولیس اورسیکیورٹی کے اداروں کی قوت اورہیبت کیا ہوگی، اسے پاکستان جیسے ملک میں سوچنا بھی دشوارہے۔اسے چین کے"سیکیورٹی زار" کاخطاب دیاگیا۔2012ء میں زویونگ انتہائی عزت اور تکریم سے ریٹائر ہوگیا۔ریٹائرمنٹ کے وقت اسے آج کے ماڈرن چین کا معمارقراردیاگیا۔اسی برس، یعنی 2012 میں زی جنگ پنگ (Xi Jin Ping) کیمونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل بن گئے۔یہ چین کاسب سے بڑا منصب ہے۔
زی نے محسوس کیاکہ ملک میں بے مثال ترقی تو ضرور ہوئی مگراس بہتی گنگا میں سیاسی اورسرکاری عمال نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔زی کے ذہن میں پختہ خیال تھاکہ چین میں کرپشن کی بدولت مالیاتی وسائل کی تقسیم انتہائی نامناسب ہے۔کچھ لوگ ارب پتی تو ہیں۔مگرعوام کے پاس، ترقی کے درخت کاپھل مناسب طریقے سے نہیں پہنچ پایا۔ زی نے اپنی زندگی کاسب سے مشکل فیصلہ کیا۔کرپشن کے ناسورکوجڑسے اکھاڑنے کافیصلہ! ایک نئی اصطلاح کی بنیاد رکھی۔اس کے اعلان کے مطابق کہ وہ "مکھیوں اور چیتوں "پریکساں ہاتھ ڈالے گا۔ مطلب یہ کہ کرپشن میں ملوث مضبوط، طاقتور اور کمزورفریق تمام یکساں طور پرگرفت میں آئینگے۔
چینی حکومت کے علم میں تھاکہ زویونگ نے اپنے دورہ حکومت میں خاندان اوردوستوں کوبے انتہامالی فوائدپہنچائے ہیں مگراسے پتہ نہیں تھاکہ کرپشن کس مالیت کی ہے۔ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پرحکومت پریشان ہوگئی۔زویونگ اور اس کا خاندان،چودہ بلین ڈالرکی مالیاتی فوائدحاصل کرچکاتھا۔ دراصل یہ ایک گروہ تھاجس میں متعدد اداروں کے اہلکار، سیاستدان اورکمپنی کے اعلیٰ عہدیدران،سب شامل تھے۔
زویونگ کاسیاسی اورسماجی مقام اتنابلندتھاکہ اس پرہاتھ ڈالنا بہت مشکل تھا۔اس کے علاوہ پولٹ بیوروکے ریٹائرڈممبرکے خلاف کاروائی کی کوئی مثال موجودنہیں تھی۔زی جنگ نے یہ انہوناکام کرنے کافیصلہ اس لیے کیا،کہ لوگوں کویقین ہوپائے کہ احتساب سے کوئی بھی بالاترنہیں۔2013ء میں زی نے تمام تحقیقات کیمونسٹ پارٹی کی پولٹ بیوروکے سامنے رکھ دیں۔
چاردن خفیہ بحث کے بعدفیصلہ کیاگیاکہ کرپشن کے خلاف بلاامتیازکاروائی کی جائے گی۔زی نے تمام معاملات کیمونسٹ پارٹی کے ریٹائرڈ سیکریٹری جنرل کے سامنے بھی رکھ چھوڑے۔ ان میں جنگ زیامین(Jiang Ziemin) اور ہوجنتاؤ (Hu Jintao)بھی شامل تھے۔سیاسی رہنما ریٹائرڈ ضرور تھے مگرانکاحکومتی حلقوں میں بے انتہااثرتھا۔ دونوں، چین کے صدرکے عہدے پربھی فائزرہے تھے۔تمام سابقہ صدور نے بلاامتیازاحتساب کے حکومتی اقدامات کی توثیق کردی۔
زویونگ،دومرتبہ،چینی صدرکے پاس گیا۔اپنی لازوال قومی خدمات کو گنوایا۔ اپنے لیے، رعایت اور معافی کی درخواست بھی کی۔مگراس کی باتوں کوکسی قسم کی اہمیت نہیں دی گئی۔اگست2013ء میں،زویونگ کے تین سوساتھی گرفتار کر لیے گئے۔اس میں میئر،نائب وزراء،اہل خانہ یعنی ہرسطح کے آدمی تھے۔زویونگ کے بڑے بیٹے کے پاس1.6بلین ڈالر کے ناجائزاثاثے برامدہوئے۔اس میں تیل کی کمپنیوں سے رشوت،حکومتی اداروں میں کرپشن کے پیسے اورسیکیورٹی کے معاملات میں بے ضابطگیاں شامل تھیں۔زویونگ کوبھی گرفتارکرلیاگیا۔
اس کی شخصی اہمیت کے نزدیک اسے عام جیل میں نہ رکھاگیا،بلکہ ایک فوجی چھاؤنی میں قیدکردیا گیا۔ زویونگ کوپارٹی سے نکال دیاگیا۔اس پرتین الزامات کے تحت مقدمہ چلایاگیا۔کرپشن،اختیارات کاناجائزاستعمال اور حکومتی رازوں کوفاش کرناشامل تھا۔2015ء میں زویونگ کو عمرقیدکی سزاسنادی گئی۔ماضی میں سیکیورٹی کابادشاہ آج ایک جیل میں زندگی کے دن گن رہاہے۔14.5ارب ڈالرکے تمام ناجائز اثاثہ جات حکومت ضبط کرچکی ہے۔اسکابیٹابھی زندان کاحصہ ہے۔بیشترعزیزواقارب بھی تاریخ کاحصہ بن چکے ہیں۔
ان واقعات کوبیان کرنے کامقصدسادہ ساہے۔ جس ملک کی سیاسی قیادت کرپشن کے خلاف یکسوہوجاتی ہے،وہاں معاملات انتہائی سادگی اختیارکرلیتے ہیں۔ ہمارے دوسابقہ وزراء اعظم مالی بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ ضمانت ہوجانے کے بعد،انتہائی فاتحانہ انداز سے عدالت سے باہرنکلتے ہیں۔ہوامیں وکٹری"V"کانشان بناتے ہیں۔ پورے میڈیاپران کی باڈی لنگوئج دکھائی جاتی ہے۔بغیرکسی پشیمانی کے وہ،لینڈکروزرمیں بیٹھتے ہیں اور محافظ دستوں کی چھاؤں میں اپنے محلوں میںواپس چلے جاتے ہیں۔وہ دل میں ضرورہنستے ہونگے کہ اس غریب قوم کوکس عمدگی سے بیوقوف بنایا!ذراسی سختی پر"سیاسی انتقام"کے بے فیض نعرے لگنے شروع ہوجاتے ہیں۔
لوگوں کی اکثریت کیونکہ،حقائق تک رسائی نہیں رکھتی،چنانچہ وہ مزیدذہنی تقسیم کاشکارہوجاتی ہے۔دورمت جائیے۔ ڈاکٹر عاصم کے کیس کودیکھ لیجیے۔ کراچی رینجرزکی بارہ صفحات پرمشتمل رپورٹ اب ہراخبار میں چھپ چکی ہے۔ان پرمالی بدعنوانی کے الزامات ہیں۔مگرتلخ حقیقت یہ ہے،کہ جیسے ہی وہ ایک اسپتال میں بطورمریض داخل ہوئے،وزیراعلیٰ سندھ، ان کی طبیعت پوچھنے فوراًتشریف لے گئے۔اس سے عام آدمی کیااخذکریگا۔بچوں کے لیے اخلاقی سبق کیا ہوگا۔ پیغام بالکل واضح ہے۔
کہ اگرڈاکٹرعاصم نے کرپشن کی ہے،توکوئی فرق نہیں پڑتا۔ہم ان کا ہرطریقے سے احترام اور حفاظت کرتے ہیں۔ان معاملات میں سابقہ صدر کے خیالات سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔ کیاسندھ کے قابل احترام وزیراعلی،بلدیہ ٹاؤن حادثہ میں سیکڑوں غریب مزدوروں کے زندہ جل جانے پر تشریف لے گئے تھے؟ ہمارے ملک میں، روز درجنوں معصوم لوگ،قتل ہوتے ہیں، لوٹے جاتے ہیں، برباد ہوتے ہیں یاکردیے جاتے ہیں، کیا کوئی مقتدر سیاستدان تصویربنوانے کے سوا وہاں جاتا ہے۔ آپکا جواب یقینانفی میں ہوگا۔کیاچین کاموجودہ صدر یا پارٹی کا سیکریٹری جنرل،زویونگ کوجیل میں "A"اے کلاس دلوا سکتا ہے۔
ساری صورتحال کو ایک متضادزاویہ سے بھی دیکھیں۔ جب بھرپورکرپشن کی جارہی تھی،توتمام قومی ادارے موجود تھے۔نیب،انٹی کرپشن اوردیگرفعال ادارے اپناکام کررہے تھے۔پھرکیاوجہ ہے،کہ یہ سب کچھ ہوتارہا۔اسکو،اسی وقت گرفت میں کیوں نہیں لیاگیا۔اس وقت کس مصلحت کے تحت کاروائی نہیں کی گئی۔ وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ یہاں ہرسطح پر، ڈاکٹرعاصم جیسے درجنوں کرداربیٹھے ہوئے ہیں اوربیٹھے رہینگے۔انھیں یقین ہے کہ کوئی بھی ادارہ انکاکچھ نہیں بگاڑ سکتا۔وہ ہرحکومت سے زیادہ مضبوط اورتواناہیں۔
قلیل مدت کے لیے شوراٹھے گا،کچھ بازپرس ہوگی،پھرمعمولات پہلے کی طرح شروع ہوجائینگے۔دراصل ہمارے جیسے ممالک میں ایمانداررہنے کاکوئی مثبت فائدہ نہیں۔پھل فروخت کرنے والے سے لے کرمل مالکان تک،چپڑاسی سے لے کرادارہ کے سربراہ تک،تقریباًسب کاعملی رویہ بالکل ایک جیسا ہے۔طالبعلم کی دانست میں حقیقت پسندنتیجہ یہی ہے کہ ملک میں ایمانداری کے نام پرکرپشن مزیدبڑھے گی۔یہ اکثریت کے اجتماعی زندگی بسرکرنے کاطریقہ ہے۔ ہاں۔ چھوٹاموٹااحتساب ہوتا رہیگا،مگراصل کام ہمیشہ کی طرح جاری وساری رہیگا۔بلکہ ترقی کریگا؟