سنگیتا نے کہا ہمدم غور سے سنو
میں اداکار قوی کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا کہ سنگیتا پروڈکشن کا منیجر یاسین میرے پاس آیا
میں اداکار قوی کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا کہ سنگیتا پروڈکشن کا منیجر یاسین میرے پاس آیا اور اس نے میڈم سنگیتا کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ میں پرسوں شام اپنا لکھا ہوا فلم ''میں چپ رہوں گی'' کا اسکرپٹ لے کر ان کے گھر پہنچ جاؤں۔ یہ سن کر اداکار قوی نے کہا یونس ہمدم! اب بحیثیت کہانی نویس بھی تمہارا میٹر ڈاؤن ہونے والا ہے ۔ چند روز پہلے بھی سنگیتا نے مجھ سے اپنی نئی فلم ''میں چپ رہوں گی'' کے لیے تاریخیں مانگی تھیں اور اس فلم میں میرا جو رول ہے وہ بھی سنایا تھا۔ فلم کا اسکرپٹ بہت اچھا ہے۔ میں نے قوی کا شکریہ ادا کیا۔
وقت مقررہ پر وہ اسکرپٹ لے کر ماڈل ٹاؤن میں واقع سنگیتا کے گھر پہنچ گیا۔ میں نے پورا اسکرپٹ سنایا۔ سنگیتا نے چند تبدیلیاں کروائیں چند سین حذف کردیے گئے اس دوران سنگیتا کی والدہ بھی موجود رہیں اور پھر مجموعی طور پر اسکرپٹ کو OK کردیا گیا۔
پھر سنگیتا کی والدہ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، یونس ہمدم ! اب جو بات ہم کہہ رہے ہیں وہ تم غور سے سنو اور برا نہ ماننا یہ بات سن کر۔ چند لمحوں کے لیے تو میں بھی پریشان ہوگیا کہ نہ جانے اب سنگیتا کی والدہ کیا فیصلہ سنانے والی ہیں اس دوران سنگیتا نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، اس بات کا تعلق تمہارے مستقبل کی بہتری سے ہے، پھر دوسرے ہی لمحے سنگیتا نے کہا تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ''میں چپ رہوں گی'' تم ہی لکھو گے مگر اس فلم میں تم کوئی گیت نہیں لکھو گے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنی ساری توجہ اس فلم کے اسکرپٹ پر ہی مرکوز رکھو۔ اب ہم دوسرے مسئلے کی طرف آتے ہیں۔
اس فلم میں اداکار قوی میرے ساتھ مرکزی کردار میں ہے، اب فلم کے لیے ایک روایتی ہیرو کی ضرورت ہے۔ آج کل دو ٹی وی آرٹسٹ میری نظر میں ہیں ایک طلعت اقبال اور دوسرا عثمان پیرزادہ۔ یہ دونوں آرٹسٹ اچھی شہرت بھی رکھتے ہیں اور باصلاحیت بھی ہیں۔ میں یہ فلم کم وقت میں مکمل کرنا چاہتی ہوں۔ اس میں ندیم، شاہد اور غلام محی الدین میں سے میں کسی کو کاسٹ نہیں کرنا چاہتی کیونکہ یہ تینوں آرٹسٹ میرے شوٹنگ شیڈول کے مطابق تاریخیں نہیں دے سکیں گے۔ تمہارے خیال میں ان دونوں میں سے تمہاری کہانی کو کون سوٹ کرتا ہے۔
میں نے پوچھا آپ کے خیال میں کسے ہونا چاہیے۔ پہلے تم بھی اپنی رائے دو میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ سنگیتا نے مسکراتے ہوئے کہا میں تو تمہاری رائے جاننا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا ویسے تو یہ دونوں آرٹسٹ میرے دوست ہیں دونوں ہی مجھے اچھے لگتے ہیں، لیکن میرے خیال میں عثمان پیرزادہ زیادہ بہتر ہے۔ سنگیتا نے کہا گڈ۔ تمہاری رائے نے میری رائے کو تقویت دی ہے۔
ان ہی دنوں ایورنیو اسٹوڈیو میں سنگیتا پروڈکشن کی فلم ''محبت اور مہنگائی'' کی شوٹنگ بھی مسلسل چل رہی تھی۔ ندیم کی دس دن کی تاریخیں ان کے پاس تھیں اور اب ایک آخری گیت سنگیتا اور غلام محی الدین پر آؤٹ ڈور میں فلمایا جانا تھا۔ سنگیتا نے مجھ سے کہا کہ یہ آؤٹ ڈور کا گیت ہمدم تم نے لکھنا ہے۔
بس مجھے موسیقارکمال احمد کا انتظار ہے آج کل وہ اردو فلموں کے ساتھ ساتھ کئی پنجابی فلموں میں بھی موسیقی دے رہے ہیں اب ان سے ریکارڈنگ کے لیے تاریخ مانگنی پڑتی ہے۔ میں چاہتی ہوں اسی شوٹنگ شیڈول میں وہ گیت بھی فلما لوں اور پھر فلم کی ایڈیٹنگ شروع کردی جائے گی کیونکہ دو ماہ بعد مذکورہ فلم کی نمائش کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے جب کہ ''محبت اور مہنگائی'' اپنے آغاز سے پہلے ہی بک گئی تھی۔
ابھی سنگیتا سے باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ موسیقار کمال احمد کا فون پر پیغام ملا کہ اگر سنگیتا اسی ہفتے اپنا گیت ریکارڈ کرالیں تو ان کے پاس وقت ہے پھر ان کی ایک ساتھ دو فلموں کی بیک گراؤنڈ میوزک شروع ہوجائے گی۔ تو پھر دو تین ہفتوں بعد فرصت ملے گی۔ سنگیتا نے موسیقارکمال احمد کو پیغام دیا کہ وہ پرسوں دوپہر آفس آجائیں گیت کی تیاری کرلیں اور پھر اسی رات ریکارڈنگ کا وقت بھی لے لیں۔ پھر سنگیتا نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا چلو یہ گیت کی ریکارڈنگ کا جو مسئلہ تھا وہ موسیقار کمال احمد نے خود ہی حل کردیا ہے۔
اب تم پرسوں آفس آجاؤ، کمال احمد کے ساتھ بیٹھ جاؤ اور''محبت اور مہنگائی'' کا یہ آخری گیت بھی لکھ کر فارغ ہوجاؤ۔ اور ہاں آج کل اخلاق احمد کے بڑے چرچے ہیں اس گیت کے لیے پرسوں اخلاق احمد کو بھی پیغام دے دو اب گلوکار اخلاق احمد کا بھی ہماری فلم میں کوئی گیت آجائے گا۔ آج کل ہر موسیقار اخلاق احمد کے گن گا رہا ہے۔ یہ کہہ کر سنگیتا کمرے سے اٹھ کر فلور میں اپنی فلم ''محبت اور مہنگائی'' کے سیٹ پر چلی گئی، میں کچھ دیر آفس ہی میں بیٹھا رہا اور اخلاق احمد کے بارے میں سوچتا رہا۔ جس کی محنت اب رنگ لاچکی تھی، مجھے اس کا وہ وقت یاد آگیا جب وہ اپنے اسکوٹر پر جس کی ہر کل ڈھیلی ہوتی تھی رات رات بھر کراچی کے فنکشنوں کی خوشبو سونگھتا پھرتا تھا۔
آج قدرت نے اس کے دن پھیر دیے تھے اب وہ ہر بڑے موسیقار کی آنکھوں کا تارا بن گیا تھا۔ اس کے مشہور گیتوں نے احمد رشدی اور اے۔نیئر کو کچھ دنوں کے لیے پیچھے کردیا تھا۔ سب سے پہلے ندیم نے اسے اپنی فلم ''مٹی کے پتلے'' کے لیے ایک ٹائٹل سانگ گوایا تھا جس کے بول تھے:
یہ ٹوٹے کھلونے یہ مٹی کے پتلے
یہ بھی تو انسان ہیں
یہ پلکوں کا کاجل یہ بہنوں کا کاجل
یہ ماؤں کے ارمان ہیں
اس گیت کی موسیقی مصلح الدین نے مرتب کی تھی اور گیت نگار سرور بارہ بنکوی تھے۔ اس فلم کے ہدایت کار احتشام تھے۔ مگر بدقسمتی سے یہ فلم بری طرح ناکام ہوگئی تھی لیکن اخلاق احمد نے حوصلہ نہ ہارا تھا اور پھر اسی سال فلمساز ہدایت کار و اداکار رحمان نے اپنی فلم ''چاہت''میں اخلاق احمد سے ایک گیت گوایا جس کے موسیقار روبن گھوش تھے۔ اور گیت نگار اختر یوسف۔ اس فلم کی مقبولیت نے ''چاہت'' کو باکس آفس پر ہٹ فلم بنادیا تھا اور اخلاق احمد کے اس ایک گیت نے گزشتہ چند سالوں کی فلموں کے بے شمار مقبول گیتوں کو گہنا دیا تھا اور اب ہر موسیقار گلوکار اخلاق احمد کے گیتوں کی تعریف کرتا تھا اور اخلاق احمد کے گائے ہوئے فلم ''چاہت'' کے گیت کو 1974ء میں نگار پبلک فلم ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ ان دنوں کراچی سے میں بھی نیا نیا لاہور آیا تھا۔ اداکار ناظم بھی اور پھر شباب کیرانوی کے بلاوے پر اداکار غلام محی الدین بھی لاہور کی فلم انڈسٹری کا حصہ بن چکا تھا۔
کبھی کبھی کراچی کے ہم چاروں دوست مل بیٹھتے تھے تو کراچی کی حسین شاموں اور کراچی کے خوبصورت فنکشنوں اور محفلوں کی یادیں تازہ کرلیا کرتے تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ اخلاق احمد مجھے اپنی سرخ رنگ کی نئی کار میں پک کرتا اور ہم دونوں انارکلی کے علاقے کی طرف نکل جاتے تھے اور پھر بغیرکار کے کافی دیر تک پیدل گھومتے رہتے تھے۔ اب یہ گلوکار صاحب کار بھی تھا اور فلمی دنیا کا نامور گلوکار بن چکا تھا۔
جس دن میں موسیقار کمال احمد کے ساتھ سنگیتا پروڈکشن کے آفس میں ''محبت اور مہنگائی'' کا گیت لکھ رہا تھا تو گلوکار اخلاق احمد بھی میڈم سنگیتا کے کمرے میں بیٹھا ہوا اس بات کا منتظر تھا کہ شاعر اور موسیقار فلم کا گیت مکمل کرلیں تو وہ ایک ریہرسل کرکے چلا جائے کیونکہ اسی رات دس بجے سے ایورنیو اسٹوڈیو میں مذکورہ گیت کی ریکارڈنگ بھی ہونی تھی۔ میں نے چند مکھڑوں کے بعد موسیقار کمال احمد سے کہا۔ کمال صاحب اگر آپ مجھے تھوڑی سی اجازت دیں کہ میں صرف مکھڑا پہلے لکھ دوں اور آپ اس کی دھن بنائیں پھر میں آپ کی بنائی ہوئی دھن پر انترے لکھ دوں گا کیونکہ میرے ذہن میں ایک خوبصورت ادبی انداز کا مکھڑا مچل رہا ہے۔ کمال احمد بولے۔ اگر ایسی بات ہے اور مکھڑا اتنا زیادہ مچل رہا ہے تو پھر اسے کاغذ پر لٹا کر مجھے پیش کردو۔ میں نے ان کے جملے کا مزا لیتے ہوئے پھر وہ مکھڑا کاغذ پر لکھ کر انھیں دے دیا، وہ مکھڑا کچھ یوں تھا:
چلو اک فیصلہ کرلیں
شریک زندگی بن جائیں
دامن پیار سے بھرلیں
چلو اک فیصلہ کرلیں
کمال صاحب کو وہ مکھڑا بہت پسند آیا۔ فوراً اس مکھڑے کو دھن کا لباس پہنایا گیا۔ پھر میں نے ان کی بنائی ہوئی دھن پر انترے لکھے، اخلاق احمد نے اس کی ریہرسل کرکے سنگیتا کو سنایا اور وہ گیت فائنل کردیا گیا پھر اسی رات اخلاق کے ساتھ ناہید اختر کی آوازوں میں اسے ریکارڈ کرلیا گیا۔ وہ گیت فلم میں بھی پسند کیا گیا اور عوام میں بھی بڑا مقبول ہوا تھا۔