دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
اقبال کا یہ فرزند اس قوم نہیں بلکہ اس امت کے درمیان اکیانوے برس رہنے کے بعد اسی لاہور کی مٹی کے سپرد کر دیا گیا
کس قدر دکھ اور کرب تھا ان کے لہجے میں، وہ اس مملکت خداداد پاکستان کے عوام اور اس جمہوری نظام کا المیہ بیان کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا ''میں نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ''اس ملک میں عام الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح، میں اور میرا بیٹا ولید اقبال کیوں کامیاب نہیں ہوتا' اس لیے اس ملک پر طاقتور اور بالادست اشرافیہ کا قبضہ ہے جو ہمیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔'' یہ الفاظ تھے علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کے جو انھوں نے اپنے انتقال سے چند دن قبل میرے پروگرام ''متبادل'' میں ادا کیے۔ وہ بہت بیمار تھے، ان کے گھر میں اس وقت کسی وجہ سے پروگرام ریکارڈ نہیں ہو سکتا تھا لیکن وہ کمال مہربانی کرتے ہوئے اپنے بھانجے اقبال صلاح الدین کے قائم کردہ اس ادارے میں تشریف لائے جو اس نے فکر اقبال کے فروغ کے لیے قائم کیا ہے۔
علامہ اقبال کی دعاؤں، آراوؤں اور تمناؤں کا محور جاوید اقبال۔ یوں تو جاوید اقبال نے اپنے والد کی آغوشِ تربیت میں تقریباً تیرہ سال گزارے ہوں گے لیکن علامہ کی ان سے محبت ان کے کلام میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ ابن عربی کی فتوحات مکیہ، دانتے کی ڈیوائن کامیڈی دونوں عالم بالا کے روحانی سفر کی داستانیں ہیں۔ اقبال تیسرے شاعر ہیں جنہوں نے اپنے روحانی مرشد مولانا روم کی صحبت میں روحانی سفر کو منظوم کیا اور اس کا نام اپنے بیٹے کے نام پر جاوید نامہ رکھا۔ اقبال انگلستان گئے تو جاوید اقبال نے انھیں اپنی زندگی کا پہلا خط تحریر کیا۔ اس خط میں انھوں نے علامہ سے گراموفون لانے کی فرمائش کی۔ علامہ اقبال نے جواب میں ایک نظم تحریر کر کے بھیجی جس کا عنوان ''جاوید کے نام'' ہے اور اس کے ساتھ تحریر ہے ''لندن میں اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط آنے پر''۔ نظم کا خطاب تو جاوید اقبال سے ہے لیکن یوں لگتا ہے اس کا مخاطب پوری امت مسلمہ کے نوجوان ہیں۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احسان
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
اقبال کا یہ فرزند اس قوم نہیں بلکہ اس امت کے درمیان اکیانوے برس رہنے کے بعد اسی لاہور کی مٹی کے سپرد کر دیا گیا جہاں اس کے عظیم والد بھی آسودۂ خاک ہیں اور جن کے مزار کی مٹی لے جا کر ترکی کے شہر قونیہ میں مولانا روم کے مزار کے پہلو میں ایک اور مزار بنایا گیا ہے جو اقبا ل کے نام سے معنون ہے۔ شرافت، نجابت اور علم جس شخص کو اپنے عظیم باپ سے ورثے میں ملا۔ یہ 1970ء کے الیکشن کا زمانہ تھا۔ میری عمر چودہ سال کی ہو گی جب گجرات شہر میں جگہ جگہ پوسٹر لگے ہوئے تھے کہ فرزند اقبال کونسل مسلم لیگ کے جلسے سے ہارس شو گراؤنڈ میں خطاب کریں گے۔ میرے گھر میں علامہ اقبال کی حیثیت ایک ولیٔ کامل کی سی تھی جس کا خمیر عشق رسول سے گندھا ہوا ہو۔ میرے والد ان کے اشعار گنگناتے اور اکثر اوقات بے اختیار آنسو ان کی آنکھوں سے چھلک پڑتے۔ میری زندگی میں ادب سے پہلی آشنائی بھی اقبال ہی کی ہوئی تھی۔ میں نے اپنا پہلا شعر دس سال کی عمر میں اسکول میں یوم اقبال کی ایک تقریب میں اپنی تقریر کے لیے تحریر کیا تھا۔ اقبال میرا عشق تھا اور ہے۔ لیکن 1970ء کا عرصہ ایسا تھا جب مجھ پر الحاد غالب تھا اور کمیونزم کے جراثیم ذہن میں سرایت کر چکے تھے، لیکن اقبال کا عشق مسلسل اور پیہم رہا، یہی وجہ ہے کہ میں جاوید اقبال کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہو گیا۔ ان دنوں جلسوں کی منادی تانگے کے اوپر لاؤڈ اسپیکر لگا کر کی جاتی۔
اس فن کے ماہرین مائیک ہاتھ میں پکڑے شعر پڑھتے جلسے کی منادی کرتے تھے۔ میں ایسے ہی ایک تانگے پر سوار ہو گیا۔ اقبال کے اشعار کا جادو تھا، جاوید اقبال کو دیکھنے کی لگن تھی کہ میری اس منادی یا اناؤنسمنٹ کو اس قدر پذیرائی ملی کہ اگلے تین دن صبح تانگے کو میرے گھر بھیج دیا جاتا تا کہ مجھے لے آئے۔ ان تین دنوں کا کمال یہ تھا کہ ایک بہت بڑے پر ہجوم جلسے میں مجھے اسٹیج پر جاوید اقبال کے ساتھ کھڑے ہونے کی جگہ مل گئی۔ میں نے وفور شوق سے اس سرخ و سفید چہرے والے شخص سے ہاتھ ملایا جس کی نرماہٹ آج تک مجھے یاد ہے۔ اقبال کے عشق میں گندھے ہوئے چودہ سالہ بچے کو کیا علم تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ یہی فرزند اقبال ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں میرے ساتھ مدعو تھے جو علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری پر تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کس قدر محبت اور فراخ دلی سے کہنے لگے، ''اقبال کی شاعری پر بات کرنے کے لیے تو اوریا کافی تھا، مجھے ویسے ہی زحمت دی آپ لوگوں نے'' یوں تو یہ فقرہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ایک بڑے دانشور اور صاحب علم اور ایک عظیم آدمی کے منہ سے ادا ہوا اس لیے مجھے اپنا اندازہ ہے کہ ان کے سامنے میرا علم ایک مبتدی اور سیکھنے والے سے زیادہ نہ تھا۔
میں گجرات میں تھا تو اکیس اپریل کو ہر سال لاہور میں ہونے والے مجلس اقبال کے سالانہ جلسے کی روداد اخباروں میں پڑھتا اور ایک شوق و تجسس مجھے گھیرے رہتا کہ کب میں اس جلسے کو دیکھ سکوں گا اور اس محفل کا حصہ بن سکوں گا جس کی بنیاد خود علامہ اقبال نے رکھی۔ میری خوش بختی کہ مجھے پہلی دفعہ جس جلسے میں شرکت کا موقع ملا اس کی صدارت جاوید اقبال کر رہے تھے اور میری پہلی شرکت اقبال کے ایک ہدی خوان کی حیثیت سے تھی۔ میری تقریر کے بعد جاوید اقبال کا وہ فقرہ بھی آج تک یاد ہے۔ ''اس قدر جوش'' آپ نے تو گرما دیا۔ میں نے زندگی میں کسی شخص کو اتنا وسیع القلب نہیں دیکھا جو کھل کر تعریف کرے اور سرعام اپنی غلطی کا اعتراف کرے۔ انھوں نے عدلیہ پر ایک کتاب لکھی اور اس میں عدالتی نظام کی خامیوں اور ججوں کی مجبوریوں کا ذکر کیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ انھوں نے اس میں اپنے کیے گئے فیصلوں پر بھی تنقید کی اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کا اپنے فیصلوں کے حوالے سے بتایا۔ ان کی سوانح حیات ''اپنا گریباں چاک'' میں انھوں نے اپنی زندگی کے جن گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے ہمارے معاشرے میں ایسی جرأت کی مثال نہیں ملتی۔ جب انھوں نے اپنے والد کی سوانح عمری ''زندہ رود'' لکھی تو بہت سے محبان اقبال کا یہ گلہ تھا کہ انھیں اپنے والد کے بارے میں اس قدر سچ نہیں لکھنا چاہیے تھا کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح ایک والد، ایک خاوند اور ایک دوست نظر آئیں۔
لیکن شاید جاوید اقبال کی تربیت کا خاصہ تھا کہ انھیں تو ان کے والد نے یہی بتایا تھا کہ معصوم اور غلطی سے مبرا صرف اور صرف ایک ذات ہے جو سید الانبیا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہے۔ ٹیلی ویژن میں ہم نے ایک پروگرام کا آغاز کیا جس میں علامہ اقبال کی حکمت کے موضوعات پر گفتگو کرنا تھا۔ اس پروگرام کی میزبانی میرے ذمے تھی اور اس کو رونق بخشنے والی دو عظیم شخصیات تھیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اور ڈاکٹر اسرار احمد، پہلا پروگرام ''جدا ہو دیں سیاست سے'' کے عنوان سے نشر ہوا۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد ڈاکٹر اسرار احمد انتقال کر گئے اور یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اس پروگرام کے آغاز میں تعارف کرواتے ہوئے میں نے کہا آج میں علامہ اقبال کے جسمانی بیٹے جاوید اقبال اور روحانی بیٹے ڈاکٹر اسرار احمد کے ہمراہ حاضر ہوں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس فقرے سے اس قدر خوش ہوئے کہ کہنے لگے ایسا جو آپ نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔ وہ زمانہ جب بڑے لوگوں کی میراث کے وارث ان کی قبروں تک کو بیچ کھاتے ہوں، جاوید اقبال جیسے حوصلے والے اور وسیع القلب انسان کو آپ کسی اور ہی دنیا کا فرد سمجھیں گے۔ وہ یقیناً کسی اور ہی دنیا کے فرد تھے۔ اس قدر عجز، انکساری اور فقر یقینا انھیںصحبت اقبال نے دیا اور یہ ان کے خون میں گردش کر رہا تھا۔ نہ چہرے پر ملال، نہ زبان پر غصہ، نہ گفتگو میں تلخی، ایسا چہرہ جو سوچ میں ڈوبا ہوا لگتا، مسکراتے تو آنکھیں بند ہو جاتیں اور ہنسی پورے چہرے پر پھیل جاتی۔
اقبال کی میراث کے تو وارث تھے ہی، ان کا ذاتی علم اور اس میں ان کا مقام بھی بلا کا تھا۔ ان کا یہ شکوہ بجا ہے کہ انھیں فرزند اقبال کی حیثیت سے ہی کیوں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن انھوں نے اس حیثیت سے کبھی انکار بھی نہیں کیا۔ اقبال کے خطبات پر جس قدر علمی کام ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب ''خطبات اقبال'' تسہیل و تفہیم میں کیا ہے اقبال پر لکھنے والوں میں سے کسی نے بھی نہیں کیا۔ وہ چیف جسٹس بھی رہے اور ایوان بالا کے سینیٹر بھی' جو براہ راست ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتے۔ براہ راست وہ 1970ء کے الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے۔ یہ لاہور کی نشست تھی۔ ان کے مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو نے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ یہ الیکشن اس ملک کی تاریخ کا حیران کن الیکشن تھا۔ اہل نظر کہتے ہیں اس الیکشن نے اس قوم کے لیے سزا و جزا کے پیمانے مقرر کر دیے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی گرو جنھیں وہ ڈیڈی کہہ کر پکارتے تھے، ایوب خان، انھوں نے قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی اور ان کے کنونشن مسلم لیگ کے سابقہ جنرل سیکریٹری ذوالفقار علی بھٹو نے فرزند اقبال کو شکست دے دی۔ جمہوریت، الیکشن اور اس قوم کی ''مداح سرائی'' میں اس سے زیادہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس قوم نے قائداعظم اور علامہ اقبال دونوں کا قرض خوب اتار دیا۔ عالم ارواح میں اقبال نے یقینا جاوید اقبال کا استقبال کیا ہو گا اور سرزمین لاہور کے باسیوں کا شکوہ بھی۔ وہ قوم جس کی تڑپ میں اقبال کی راتیں آنسوؤں کے چراغ جلاتی رہیں۔ اس نے ان کے فرزند کو اعتماد کے ایک ووٹ کے بھی قابل نہ سمجھا۔