بدلتے حالات

سانحہ منیٰ کے بارے میں میڈیا میں عینی شاہدین کے حوالے سے خبریں شایع ہوئی ہیں۔


Zamrad Naqvi October 05, 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

سعودی عرب میں حج کے موقع پر منیٰ میں رمی کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 48 پاکستانی حجاج شہید ہو چکے ہیں جب کہ درجنوں لاپتہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس بارے میں بہت کچھ دکھایا جا رہا ہے جو بہت درد ناک ہے خاص طور پر شہداء کے لواحقین کے لیے جو اس حادثے کا شکار ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں سے زیادہ تر معمر افراد ہیں جو دم گھٹنے اور کچلے جانے سے دم توڑ گئے۔ بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ جب حجاج کرام منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے میں مصروف تھے تو اس وقت وہاں درجہ حرارت 51 درجے سینٹی گریڈ تھا۔ گرمی کی شدت اتنی تھی کہ لوگ بے ہوش ہو کر گرنے لگے اور ان کے اوپر لوگ گرتے گئے۔ اسی طرح سے خوفناک افراتفری پھیل گئی۔ گرمی کی شدت کیا ہوتی ہے بیشتر پاکستانی اس سے بخوبی آگاہ ہیں جنھیں ہر سال کے پانچ مہینے قیامت خیز گرمی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اندازہ لگائیں 51 درجہ سنٹی گریڈ گرمی اور اس پر 25 لاکھ حاجیوں کا ایک مختصر مقام پر اجتماع جس کے نتیجے میں گرمی کی شدت میں اور اضافہ ہو گیا۔ سانس لینے میں دشواری پیش آنے لگی۔ گرمی کا توڑ کس طرح کیا جائے اس کا حل ہمیں ابھی سے سوچنا چاہیے کیونکہ اگلے پندرہ سال ایام حج شدید گرمیوں میں ہی آئیں گے۔

سانحہ منیٰ کے بارے میں میڈیا میں عینی شاہدین کے حوالے سے خبریں شایع ہوئی ہیں۔ اس سانحے میں بچ جانے والے مصری شہری کے مطابق اس نے دیکھا کہ ایک شخص وہیل چیئر جو معذوروں کے لیے استعمال ہوتی ہے پر پھسل کر گرا اور پھر بہت سے لوگ اس کے اوپر گرنے لگے صورت حال اتنی بگڑی کہ لوگ سانس لینے کے لیے ایک دوسرے کے اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے انسان لہروں کی طرح حرکت کر رہے ہیں۔ اچانک آپ آگے کی جانب بڑھنے لگتے اور پھر اچانک ہی واپس پیچھے کی جانب گرتے چلے جاتے تھے''۔ قارئین کرام اپ نے دیکھا کہ یہ بدنظمی نہیں تھی بلکہ ایک حادثہ تھا۔ جو لوگ نیچے تھے وہ یقینی طور پر جان سے گئے۔ اس طرح لاشوں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔ جو تصویروں میں بھی نظر آتا ہے۔

سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے اور وزارت مذہبی اور خارجہ امور کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ شہدا کے لواحقین کو ادھوری یا نا مکمل معلومات دی جا رہی ہیں جو ظلم ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے پیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے تو دوسری طرف حکومت انھیں ان کے پیاروں کے بارے میں صحیح معلومات دینے میں ناکام ہے۔

ستمبر کے مہینے کا شروع تھا۔ گروپ ایڈیٹر ایاز خان اور ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری اور دوسرے بیٹھے تھے۔ باتیں ہو رہی تھیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ اس دفعہ ستمبر کا پورا مہینہ احتیاط طلب اور خطرناک ہے۔ خاص طور پر دو گرہنوں کے درمیان کے اوقات بہت نازک ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں 13 ستمبر کو سورج گرہن ہوتا ہے۔ 11 ستمبر کو خانہ کعبہ میں کرین گرنے کا حادثہ ہو جاتا ہے۔ 28 ستمبر کو چاند گرہن ہوتا ہے اور 24 ستمبر کو سانحہ منیٰ ہوتا ہے اور انھی گرہنوں کے درمیان کے عرصے میں فضائیہ کے کیمپ بڈبیڑ کا حادثہ رونما ہوتا ہے۔

بہر حال عالمی سطح پر سیاسی اور موسمی حالات میں بڑی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ ان تبدیلیوں کے اثرات جنوبی ایشیاء اور وسط ایشیاء پر بھی پڑھ رہے ہیں۔ یوں پاکستان اور بھارت بھی ان تبدیلی سے متاثر ہو رہے ہیں۔افغانستان میں طالبان زور پکڑ رہے ہیں، قندوز کا واقعہ سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اگر اس خطے میں طالبان زیادہ مضبوط ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بھی ارد گرد کے ممالک متاثر ہوں گے۔ افغانستان سے ملحقہ وسط ایشیائی ریاستیں جن میں تاجکستان اور ازبکستان سرفہرست ہیں، وہاں بھی طالبان کی حامی قوتیں سر اٹھا سکتی ہیں۔ ماضی میں ان دونوں ممالک نے ایسی قوتیں متحرک رہی ہیں لیکن ان ممالک کی ریاستوں کی سخت پالیسی کے باعث یہ قوتیں زیر زمین چلی گئی ہیں لیکن انھیں جیسے ہی خوراک ملی وہ دوبارہ منظرعام پر آ سکتی ہیں۔یہاں سے یہ اثرات روس اور چین تک جا سکتے ہیں۔ چین کے صوبے سنکیانک میں ایسٹ ترکستان موومنٹ عرصے سے متحرک ہے۔ چین کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنے مسلم اکثریتی صوبے کو پرامن دیکھنا چاہتا ہے۔ سنکیانک میں قیام امن کے لیے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے چین کی یہ خواہش ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوں۔ لیکن حالات جس ڈگر پر جا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ مذاکرات کی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔

پاکستان کو موجودہ صورت حال میں انتہائی زیرکی سے اپنے معاملات حل کرنے چاہئیں۔عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں اور علاقائی طاقتوں کے اپنے۔پاکستان کو ان کے مفادات کے درمیان اپنے لیے جگہ بنانی ہے۔

موسم کی تبدیلی کا آغاز 8 سے 12 اکتوبر سے ہو جائے گا۔

سیل فون: 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں