لینا دوڑنا پکڑنا
’’وہ تم نے آسٹریلین بیل دیکھا؟ پہاڑ ہے پورا۔ جب گلی میں کھڑا ہوتا ہے تو گلی میں ٹریفک رک جاتا ہے
''وہ تم نے آسٹریلین بیل دیکھا؟ پہاڑ ہے پورا۔ جب گلی میں کھڑا ہوتا ہے تو گلی میں ٹریفک رک جاتا ہے۔''عماد نے کہا۔''ڈینوسار لگتا ہے۔'' فہد کے جسم کے سارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔اس نے بیل تو اپنی زندگی میں بہت دیکھے تھے مگر جس آسٹریلین بیل کا قصہ اس کا دوست عماد بتا رہا تھا۔وہ اس نے نہیں دیکھا تھا۔وہ دوڑتا ہوا تیسری گلی میں چلا گیا۔وہاں پہلے تو کھوپڑیاں ہی کھوپڑیاں نظر آئیں۔ نہ جانے کہاں کہاں سے لڑکے وہاں آکر جمع ہوگئے تھے۔طرح طرح کی آوازیں آرہی تھیں۔''دس لاکھ کا ہے۔''مقیم کی آواز آئی۔''فہیم بتا رہا تھا کہ پندرہ لاکھ کا لیا ہے۔''دوسرا بولا۔فہد کا دل زور سے زور سے دھڑکنے لگا۔اس لیے کہ اسے لاکھ کا مفہوم پتا تھا۔
''شام کو گگو کو میدان میں ٹہلانے لے جائیں گے۔''گگو بیل کا نام تھا ۔
سب بچوں کو جیسے کسی نے نوید سنا دی۔وہ ہاتھ اٹھا کر ہاہاہا کرنے لگے۔
فہد کو ابھی تک بیل کا دیدار نصیب نہیں ہوا تھا۔وہ لڑکوں کو کہنیاں مارتا ہوا آگے چلا گیا۔اب جو اس نے بیل کو دیکھا تو چیخ نکل گئی۔بیل بھی اسی کو دیکھ رہا تھا۔اس نے اپنے کھر زمین پر رگڑے اور نتھنوں سے فوں فوں فوں کی آوازیں نکالتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔فہد جتنی تیزی سے آگے آیا تھا اتنی ہی تیزی سے پیچھے ہٹا تو دو چار بچے اس کے ساتھ لپیٹ میں آگئے۔سب دھم سے زمین پر گر پڑے۔ایک تماشا بن گیا۔بیل کے بجائے سب ان کی طرف دیکھنے لگے۔اس لیے کہ چار لڑکے بیل کے گوبر میں گر پڑے تھے۔ ''توبہ توبہ توبہ،عاق تھو۔''ایک بزرگ نے انھیں ڈانٹا۔''جاؤ نہا کر آؤ۔''
خیریت ہوئی کہ بیل کھونٹے سے بندھا ہوا تھا ورنہ دوچار بچوں کا کچومر ضرور نکال دیتا۔کافی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ فہد کو دیکھ کر وہ مشتعل کیوں ہوگیا تھا۔اس لیے کہ فہد نے سرخ کپڑے پہن رکھے تھے۔گگو چونکہ بل فائیٹنگ میں بھی حصہ لیا کرتا تھا،اس لیے سرخ چیزوں کو دیکھ کر مشتعل ہوجایا کرتا تھا۔(شنیدن ہے کہ خواتین اس کے سامنے لپ اسٹک لگا کرآنے سے احتراز کرتی تھیں۔)
فہد کی امی نے جب یہ قصہ سنا کہ گگو ،فہد پر جھپٹ پڑا تھا تو انھوں نے گگو کو سیکڑوں کوسنے دیے۔جس طرح ہندوستانی خواتین ہٹلر کو دیا کرتی تھیں کہ اس کی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں۔انھوں نے سختی سے تلقین کی کہ فہدقطعی اسے ٹہلانے میدان میں نہ لے جائے۔ مگر وہ فہد ہی کیا جو والدین کی بات مان لے ۔غروب آفتاب کے بعد اس نے کپڑے تبدیل کیے اور عماد کے ساتھ تیسری گلی میں چلا گیا۔گگو کو نہلایا جا رہا تھا۔نہلانے کے بعد اس کے جسم پر تیل ملا گیا۔اس کے بعداسے ہار، پھول، رنگین لڑیاںاور جھن جھنے پہنائے گئے۔ وہ جھن جھنوں کا جمعہ بازار لگنے لگا۔
گگو کوٹہلانے کے لیے چار پانچ قوی ہیکل لڑکے مقرر ہوئے۔گگو کے گلے،ٹانگوں اور دم سے رسی باندھی گئی۔ یہ سوال کسی نے نہیں کیا کہ جانور کو ٹہلانے کیوں لے جا رہے ہو؟قربانی کے جانور کو ٹہلانا چاہیے ،کس کتاب میں لکھا ہے۔اس کے علاوہ جب بغیر ٹہلائے یہ ایک منزلہ عمارت کے برابر ہے تو ٹہلانے کے بعد کہیں دومنزلہ نہ ہوجائے۔
سب بچے ہا ہو ہاہو کرتے ہوئے اس کے پیچھے چل پڑے۔ایک مسلسل اسے چارہ کھلا رہا تھا۔دو بچے دف اٹھا لائے تھے اور اسے مسلسل بجا رہے تھے۔کچھ بچے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔
اچانک ایک نے شرارت میں اس کی دم کھینچ لی۔ دوسرے نے سرخ رومال اس کی آنکھوں کے سامنے لہرا دیا۔گگو بہرحال جانور تھا ۔نہ عقل نہ سمجھ،نہ کسی یونی ورسٹی میں پڑھا ہوا۔ رد عمل کے طور پر اس نے اپنے سینگ دائیں جانب والے لڑکے کی ٹانگوں پر مارے ۔وہ لڑکھڑا کر گر پڑا، رسی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔اب جو اس نے بائیں جانب والے لڑکے کو سینگ مارے تو وہ بھی گر پڑا۔پھر گگو نے دوڑ لگا دی۔بہت سے بچے اس کے پاؤں تلے آکر کچلے گئے۔فہد بہرحال بچ گیا۔وہ ایک دکان کے قریب ٹھہر گیا۔عماد کا کہیں پتا نہ تھا۔
میدان سامنے ہی تھا۔وہاں پہنچنے سے پہلے گگو نے دو موٹر سائیکل سواروں کو اچھال پھینکا اور ایک کار کے ونڈ اسکرین پر ٹکر مار دی۔ونڈ اسکرین ٹوٹا تو نہیں البتہ اس پر کرچوں کا جال بن گیا۔ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہوئی خاتون ہسٹریائی انداز میں چیخنے چلانے لگی۔گگو نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا۔اس کا ٹارگٹ بڑا میدان تھا۔معلوم نہیں وہ وہاں فٹ بال کھیلنا چاہتا تھا یا والی بال۔
دوڑو،پکڑو،بھاگو،جانے نہ پائے۔کائنات میں جیسے ہیجان مچا ہوا تھا۔کچھ بچے ڈر کر گلی کے نکڑ پر رک گئے تھے،چند اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔اسے روکنا مقصود تھا۔ایک نے اس کی دم تھام لی تو گگو نے پلٹ کر اسے بھی سینگ مار دیے وہ بیچارہ ''ہائے '' کہہ کر وہیں گر پڑا۔گگو کا مالک بھی بھاگتا ہوا وہاں آگیا۔دوسروں کی طرح اس کی سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا کہ جانور کو روکنے کے لیے کیا تدبیر اختیار کی جائے۔عمران خان کے دھرنے کو روکنے کے لیے اس نے کنٹینروں کا استعمال کرتے دیکھا تھا،لیکن اس پورے گراؤنڈ کو گھیرنے کے لیے ایک سو کنٹینر چاہیے تھے ،وہ کہاں سے آتے؟اسے کرین کی مدد سے بھی اٹھایا جاسکتا تھا،لیکن کرین کے آنے تک گگو دوڑ کرانڈا موڑ،بھینس کالونی یا مچھر کالونی تک پہنچ سکتا تھا۔پھر اس کے بعد اس پر قابو پانے کے لیے پولیس کا دستہ طلب کرنا پڑتا۔
گگو بڑا میدان کے وسط میں جاکر کھڑا ہو گیا۔ غالباً اسے اپنے مطلب کی کوئی چیز وہاں نظر نہیں آئی،اس لیے وہ مایوس ہوگیا تھا۔اللہ جانے اس میدان میں جاکر اسے کیا لینا تھا؟وہ ساکت کھڑا چاروں طرف نگاہ دوڑا رہا تھا،ممکن ہے اسے اپنا وطن مالوف آسٹریلیا یاد آرہا ہو۔ اس کے قریب جانے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ بہرحال اسے وہاں تک لے جانا تھا جہاں سے کہ وہ چلا تھا۔
بیلوں کے ماہرین بلوائے گئے۔انھوں نے پھندے تیار کیے اور فاصلے پر کھڑے ہوکر اس کی طرف پھینکے۔بیل اچھلتا کودتا رہ گیا۔پھر اس کی ٹانگیں باندھ دی گئیں۔ایک سوزوکی بلوائی گئی اور اسے مالک بیل کے دروازے تک پہنچا دیا گیا۔ مالک بیل ہاشم نے اطمینان کا کئی میل لمبا سانس لیا اور دوسرے دن اسے ذبح کر کے اپنے پل صراط پر چلنے کا سامان کر لیا۔
جانورہم اس لیے خریدتے ہیں کہ اسے گلیوں میں وحشیانہ طریقے پردوڑائیں، اس کے گلے میں گھنٹیاں ڈالیں اور اسے مہندی لگائیں۔پھر دوسرے دن چھری پھیریں اور کباب تکّے بنائیں۔ پھر بکرے کی ران کو روسٹ کرائیںیا تندوری میں سکوائیں۔جب یہ سب ہوجائے تو اسے معدے میں اتاریں۔اللہ اللہ خیر صلّا۔قربانی کی کہانی ختم ہوگئی۔
عید قرباں کیا ہے؟حضرت ابراہیم ،اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل کو کہاں لے جا رہے تھے۔ راہ میں ابلیس کی آمد اور حضرت اسمٰعیل کو گمراہ کرنے کی کوشش۔ اس کی ناکامی۔حضرت اسمٰعیل کا قربانی پر آمادہ ہونا۔حضرت ابراہیم کا بیٹے کو خدا کی راہ پر قربان کرنا۔حضرت ابراہیم کی جگہ فرشتے کا ایک مینڈھے کو رکھ دینا اور اس کی قربانی ہوجانا۔ یہ سب کیا ہے، ہم نے اس پر بھی غور کیا؟ہم کس کی سنت منا رہے ہیں یا آسٹریلین بیل کو گلیوں میں دوڑا کر ہلکان کیا پھر اس کی بوٹیاں بنا کر زینت معدہ بنا لیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس طرح سے قربانی کا مقصد پورا ہوجاتا ہے؟