تہذیب عالم اور نظریہ پاکستان… پہلا حصہ
قدامت کے لحاظ سے بیت المقدس (فلسطین) اور خانہ کعبہ (سرزمینِ عرب) کی تہذیب اپنا ہی ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔
WASHINGTON:
قومی تشخص کے لبادے میں پہنچنے والے حضرتِ انسان کے محققانہ ارتقائی مرحلے کا وہ اظہار ہوتا ہے جو مادہ پرستوں کی صدیوں پر محیط نظامِ معاشرت میں تمام مادی وسائل و اسباب کے باوجود اپنے ہر ایک محققانہ نتیجے سے مکرنا پڑجاتا رہا ہے، جب کہ ان کے اس طرح مکرنے اور تحقیق کرنے کی ضد کے عرصے میں تب تک گردشِ لیل و نہار کے توسط سے ان کی تحقیقات کے (Side Effects) نے ارض و سماء کو قوانینِ مادہ نامی اس بَلا کے حوالے کردیا جاتا رہا ہے جس کا نظریاتی نام ناقابلِ اصلاح قوم پر عذابِ الٰہی ہے۔ جو کہ ان کی مادہ پرستی کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔ چاہے وہ موئن جو دڑو کی تہذ یب ہو یا اہرامِ مصر ہوں۔ ہر ایک تہذیب پر Expiry Date کندہ کی ہوئی ہے، جو کہ ان تہذیبوں کے کھنڈروں اور ان کے معمار مادہ پرست انسانوں کی حاصل ہونے والی ہڈیوں کے توسط سے کی جانے والی تحقیق سے ثابت کیا گیا ہے۔ اور ان کی مدد سے ان گزشتہ مادہ پرست انسانوں کے اندازِ معاشرت کو سمجھا جانے لگا ہے۔
موجودہ مادہ پرست و ترقی پسند محققین و مؤرخین ہی کی مرتب کردہ تاریخ اور ان کے شواہد کی موجودگی کی روشنی میں تہذیب عالم کے تمام ارتقائی مرحلوں میں عظیم الجثہ عمارتوں کا تسلسل بھی دکھایا گیا ہے، جو اہرامِ مصر، دیوارِ چین، ہینگنک گارڈن یا پھر آگرہ کے تاج محل کی ارتقائی شکل میں کرہ ارض پر موجود ہیں۔ لیکن قدامت کے لحاظ سے بیت المقدس (فلسطین) اور خانہ کعبہ (سرزمینِ عرب) کی تہذیب اپنا ہی ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ایک تہذیب نظامِ معاشرت اور دوسری تہذیب انتظام کائنات چلانے کے نظریہ پر رکھی گئی تھیں۔ نمرود کے ارتقائی مرحلے کے بعدکی تہذیب فلسطین کو نہ صرف اطراف کی اقوام بلکہ بابلیوں، یونانیوں اور رومیوں کی جانب سے بار بار مکمل طور پر تخت وتاراج کیا گیا۔ لیکن یہ تہذیب پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی رہی اور شباب حاصل کرتی رہی۔ جب کہ جناب عذیرؑ (عذرا کاہن) نے فلسطین کی تاریخ اور اس کے نظامِ معاشرت کی تمام تر تحقیقات پر مشتمل سترہ کتابیں تصنیف کیں، جو اس تہذیب کا سب سے بڑا اور لاثانی تحقیقی اور تخلیقی کارنامہ تھا، اس تہذیب کا یہ ارتقائی مرحلہ پندرہ صدیوں پر مشتمل عرصے پر محیط ہے۔
اس تہذیب نے نمرود کی ارتقائی شکل فرعون کے استبداد کو نہ صرف جھیلا بلکہ تعلیماتِ حضرت ابراہیمؑ کے زیرِ اثر حضرت موسیٰؑ کے ارتقائی اظہار میں جبر وبربریت کی بنیاد پر بننے والی تہذیبِ اہرامِ مصر کی وارث قومِ فرعون کا مکمل طور پر خاتمہ کرکے ان کی تہذیب سمیت انھیں قصۂ پارینہ بنا ڈالا۔ جب کہ قومِ موسیٰؑ (بنی اسرائیل سمیت فرعون کی غلامی سے نکلے دیگر اولادِ آدمؑ) جب حاصل وسائل واسباب کو اپنے حق میں جاننے کی بنیادی تعلیمات سے دور ہوئے تو بالآخر اس تہذیب سے الگ کرنے کے لیے ان پر ناقابلِ اصلاح رومی قوم مسلط کردی گئی۔ اس کے بعد ساڑھے پانچ صدیوں پر محیط عرصہ تہذیب بیت المقدس کی وارثی کے سوال پر یورپ کی عیسائیت کے لبادے میں اور ایشیا کی یہودیوں کے لبادے میں موجود مادہ پرست و ناقابلِ اصلاح اقوام کے مابین خانہ جنگی کا دور رہا۔ قوانینِ فطرت نے دنیا کی ناقابلِ اصلاح اقوام کو یہ ساڑھے پانچ سو سال کا عرصہ عظمتِ تہذیبِ بیت المقدس کے اقرار کے لیے فراہم کیا تھا۔
تاریخ میں ظہورِ اسلام کے وقت اولادِ آدم کے اس ارتقائی مرحلے میں تہذیب فلسطین کے حقِ ملکیت )یا Copy Rights) انسانیت کے اگلے ارتقائی مرحلے کے لیے اسی کی ہم عصر اور ایک ہی خالق کی تخلیق کردہ تہذیبِ خانہ کعبہ کو منتقل کیے جانے کے جس خوبصورت اور دلنشیں طریقے سے اس کی ناقابلِ تردید وجوہات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس کی تمثیل حضرتِ انسان کی کسی دوسری تہذیبی و تمدنی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کیونکہ عہدِ فاروقیؓ میں اگر فلسطین فتح نہ کیا جاتا تو 70ء کے بعد بے دخل ہونے والی قومِ یہود اور عیسائیت قبول کرنے والی یورپی اقوام آپس میں کٹ کٹ کر مرجاتیں۔ یورپی اقوام کی جانب سے عیسائیت قبول کرنے کا عمل تہذیبِ بیت المقدس کے سامنے ان کے سر بسجود ہوجانے کے منفرد واقعے سے ناقابلِ اصلاح مادہ پرست انسانوں کے ایک انوکھے تاریخی مرحلے کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ تاریخ میں جس کی مثال اس سے قبل دستیاب نہیں ہے۔
اگر تاریخ کے اس مرحلے پر نظر ڈالی جائے تو ایک طرف یورپی اقوام سمیت دنیا کی تمام تہذیبوں کی وہ معمار اقوام تھیں جنھوں نے اپنے آباؤ اجداد کی جبر واستبداد سے تعمیر کی گئی تہذیبوں پر Expiry Date پڑھ لی تھی اور وہ اسی لیے تہذیبِ بیت المقدس کو اپنانے میں ہی اپنی بقا سمجھتے تھے۔ کیونکہ تہذیب بیت المقدس کی ابھی تنسیخ نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے صرف حقِ ملکیت تبدیل ہوئے تھے۔ جو تبدیلی تہذیبِ بیت المقدس اور خانہ کعبہ کے معمار، صاحبِ عمل محقق انسان حضرت ابراہیمؑ کو ''لاینال عہدالظالمین'' کے بتائے گئے اس قانون کے عین مطابق تھی جو قانون حضرت ابراہیمؑ کی جانب سے انتظامِ کرہ ارض و نظامِ معاشرت کے لیے بنیادی حیثیت دیے جانے کی تحقیق سے حاصل کیا گیا تھا۔ جس صداقت کو اکیس سو سال یعنی اکیس صدیوں کے بعد عملاً کرہ ارض میں بسے اولادِ آدمؑ کے تمام مادی وسائل واسباب پر تصرف حاصل کرنے کے مختلف ارتقائی مراحل میں موجود تمام انسانی گروہوں کو دکھایا بھی گیا تھا۔
یعنی یورپی تہذیب روم کے ہاتھوں جب ارضِ فلسطین سے قومِ یہود کو بے دخل کرکے تہذیبِ بیت المقدس کی وراثت سے عملاً انھیں ہٹادیا گیا تو قومِ یہود کے پاس تہذیبِ خانہ کعبہ (یعنی سرزمینِ عرب) کے سوا دنیا میں کہیں کوئی جائے پناہ نہ رہی تو قومِ یہود اپنی مادہ پرستی کی وجہ سے اپنے محققین (انبیائے کرامؑ) کے مرتب کردہ نظریہ حیات و کائنات (الہامی کتابوں) سے انحراف کے نتیجے میں اس دربدری کے ملنے کی اقراری ہوکر تہذیبِ خانہ کعبہ کی پناہ میں چلی آئی۔ نظامِ کائنات اور انتظامِ معاشرت کے لیے دو تہذیبوں کے معمار و محقق حضرت ابراہیمؑ کے بڑے بیٹے حضرت اسحاقؑ کی اولاد ہونے کے اعزاز کے ساتھ انھوں نے اپنے آس پاس کی اقوام میں پانچ سو سال تک خود ہی مشہور کررکھا تھا کہ تہذیب و تحقیقِ ابراہیمؑ کے وارث تہذیبِ خانہ کعبہ میں ظہور پذیر ہوں گے۔
(جاری ہے)