اہم مقام پر ہونے کے باوجود کراچی پلانیٹیریم عدم توجہی کا شکار

کراچی کے واحد پلانیٹیریم کو فوری طور پر توجہ اور اپنے پروگراموں پر توجہ اور تبدیلی کی ضرورت ہے


سہیل یوسف October 06, 2015
پی آئی اے پلانیٹیریم بہت مشکل سے پروگرام چلاتا ہے کیونکہ اس کی مشینیں اور دیگر اوزار متروک ہوچکے ہیں۔ فوٹو: سہیل یوسف

KARACHI: ایک اہم ترین مقام پر ہونے کے باوجود کراچی کا پی آئی اے پلانیٹیریم (سیارہ گاہ) عدم توجہی کا شکار ہے اور ذرا سی توجہ سے اسے ایک بامنافع منصوبہ بنایا جاسکتا ہے۔

1984 میں اس پلانیٹیریم کو علاقے میں موجود اہم تعلیمی اداروں اور شہر کے مرکزی اور آسانی سے رسائی کے پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی روڈ پر تعمیر کیا گیا تھا تاکہ طالبعلموں کی بڑی تعداد اسے دیکھ سکے۔ لیکن مجاز اداروں کی غفلت کی وجہ سے پلانیٹیرم میں زبوں حالی کا شکار ہے اور گزشتہ 31 برسوں میں صرف ایک مرتبہ اس کا پروگرام تبدیل کیا گیا ہے۔ پلانیٹیریم کا اسٹاف بمشکل اس کے پروجیکٹر چلانے پر معمور ہے کیونکہ اس کی سلائیڈ اور آڈیو ٹیپس برسوں ہوئے بننا بند ہوگئی ہیں۔ اسی طرح پلانیٹیریم پروگرام نشر کرنے کے لیے یوایس بی اسٹک سے مدد لی جارہی ہے لیکن اس کی آواز کا معیار بہت خراب ہے اورکئی مقام پر آواز کانوں میں چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

پلانیٹیریم کے لیے بچوں کا ٹکٹ 50 اور بڑوں کا 70 روپے ہے جبکہ اس کے قریب موجود طیارے کا ٹکٹ بچوں کے لیے 40 اور بڑوں کے لیے 50 روپے کا ہے۔ اسی طرح دونوں کا مشترکہ ٹکٹ بچوں کے لیے 70 اور بڑوں کے لیے 100 روپے ہے۔ پلانیٹیریم میں فلکیاتی پروگرام چلتا ہے جبکہ پی آئی اے کے ایک زنگ آلود اور پرانے طیارے میں پاکستان کے شمالی علاقوں کی ویڈیو دکھائی جاتی ہے لیکن اس کی زبان انگریزی ہے۔

' میں پنجاب سے آیا ہوں اور طیارے میں انگریزی پروگرام دیکھ کر مایوسی ہوئی کیونکہ پاکستان میں اکثر افراد اردو ہی سمجھتے ہیں، ' ایک خاندان کے فرد نے طیارے میں فلم دیکھنے کے بعد کہا ۔

پلانیٹیریم میں 250 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے لیکن عام دنوں میں صرف 50 سے 60 افراد ہی آتےہیں۔ جبکہ ہفتے اور اتوار کو یہ تعداد 100 تک جاپہنچتی ہے لیکن کبھی کبھار پیر کے روز ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک فرد بھی نہیں آتا اور شو نہیں چل پاتا۔ اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ پلانیٹیریم کا پروگرام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اور عوامی توجہ سے محروم ہیں۔

حال ہی میں مریخ پر پانی کی خبریں دنیا بھر میں گرم ہیں اور پلوٹو کی تصاویر نے دھوم مچادی ہے۔ اسی طرح کی ان گنت فلکیاتی دریافتوں سے عوام کو باقاعدہ طور پر آگاہ کرتے ہوئے پلانیٹیریم میں کئی لوگوں کو راغب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تازہ تحقیقات سے عوام کو آگاہ رکھنے کے لیے پلانیٹیرم ہال میں سائنسدانوں کے لیکچر بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پلانیٹیریم کے اطراف میں موجود جگہ پر بچوں کو سائنسی تجربات اور دیگر تدریسی آلات بھی رکھے جاسکتے ہیں۔

پلانیٹیریم اور نئی انتظامیہ

ماضی میں کئی مرتبہ پلانیٹیریم کا انتظام دیگر اداروں کے حوالے کرنے کی تجاویز پیش کی گئیں اور اس پر غور بھی کیا گیا لیکن معاملہ گفتگو سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس ضمن میں پاکستان کے خلائی تحقیقی ادارے سپارکو نے بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں سائنس کے فروغ کا سرکاری ادارہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن (پی ایس ایف) اور ملک کے ممتاز سائنسداں اور ان کے رفقا کی جانب سے قائم کردہ فاؤنڈیشن فار دی ڈفیوژن آف سائنٹفک نالج ( ایف ڈی ایس کے) نامی تنظیم اسے بہتر طور پر چلاسکتی ہے۔ ایف ڈی ایس کے نے میری ٹائم میوزیم کراچی میں کھیل کھیل میں سائنسی تصورات سکھانے والی درجنوں نمائشیں رکھی گئی ہیں جہاں بچوں کے سائنسی تجسس کی تسکین کی جاسکتی ہے اور گزشتہ ایک سال میں 5 لاکھ سے زائد افراد یہاں کا دورہ کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر عطاالرحمان نے ایکسپریس ویب سائٹ کو بتایا کہ ان کا ادارہ پلانیٹیریم کے انتظامات سنبھالنے کے لیے تیار ہے لیکن اسے مکمل طور پر قابلِ عمل ہونا چاہیے اور یہ شہریوں کے لیے بہت اچھا ہوگا۔ دوسری جانب پاکستان سائنس فاؤنڈیشن نے اسلام آباد میں نیچرل ہسٹری میوزیم قائم کیا ہے جو سائنسی شعور پہنچانے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے اور پی ایس ایف کے پاس اس کا وسیع تجربہ بھی ہے۔

دوسری جانب پلانیٹیریم کے اعلیٰ حکام کا تعلق تو پی آئی اے سے ہی ہے لیکن اسے چلانے والا عملہ پی آئی اے سے تعلق نہیں رکھتا اور کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ عملے نے تمام مشکل کے باوجود پلانیٹیریم کو جاری رکھا ہوا ہے اور انہیں بڑی مشکل سے سالانہ بونس ملتا ہے اور طبی سہولیات سے محروم ہے۔

کئی برس قبل پلانیٹیریم کے پاس ٹاور پر سیاروں کی خوبصورت نیون روشنیاں دور سے نظر آتی تھیں اور آج یہ ٹاور اندھیرے میں ہے اور اس کے نیچے کا فوارہ بھی خشک ہوچکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں