سچ کہہ دوں…
پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے مجاہدین کو قیادت، حکمت عملی اور اسٹرٹیجی فراہم کی
لاہور:
گزشتہ دنوں ایک خبر پر نظر پڑی تو تھوڑی سی حیرت ہوئی۔ اب ہمیں ہر چیز پر ''تھوڑی سی حیرت'' ہوتی ہے کیوں کہ ہم تقریباً ''ہر چیز'' سے گزر چکے ہیں تو خیر خبر یہ تھی کہ باراک اوباما کے افغانستان اور پاکستان پالیسی کے سابق مشیر اور سی آئی اے کے اہلکار بروس ریڈل نے ایک کتاب لکھی ہے۔
جس کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی جریدے ''فارن پالیسی'' نے اپنی رپوٹ میں کہا ہے کہ 80ء کی دہائی میں سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کے لیے جو جنگ لڑی گئی وہ امریکا کی جنگ نہیں تھی بلکہ پاکستان کی جنگ تھی، سی آئی اے اس وقت افغانستان میں آپریٹ نہیں کر رہی تھی، اس لیے اس کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، جنگ میں سعودی عرب نے مجاہدین کی مالی امداد کی تھی اور نہ کسی مجاہد کی تربیت کی۔ امریکا نے اس سلسلے میں کوئی خطرہ مول نہیں لیا اس لیے اس کو کسی جانی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ افغان جنگ میں تمام قربانیاں افغانستان اور پاکستان کے لوگوں نے دیں۔
پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے مجاہدین کو قیادت، حکمت عملی اور اسٹرٹیجی فراہم کی، ریڈل نے کہا کہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ چارلی ولسن کی جنگ تھی، تاہم حقیقت اس کے برعکس تھی اور یہ جنگ ضیا الحق کی جنگ تھی۔ ریڈل نے پاکستان کے چھٹے صدر کو اسلام کا ایک پختہ پیروکار لکھا، ضیا الحق سمجھتے تھے اور انھوں نے مجاہدین کی تربیت اس لیے کی کہ بے دین، ملحد، کمیونسٹ پیروکاروں سے لڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
ریڈل نے لکھا ہے کہ افغان جنگ وہ تھی جسے دیگر لوگوں نے لڑا، تاہم اسے سی آئی اے کی حمایت حاصل تھی۔ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب بھی اس جنگ میں شامل تھا۔ امریکا نے اس جنگ میں ڈالر جھونکے، سعودی عرب نے نجی عطیات کی شکل میں افغان مجاہدین کی مدد کے لیے بھاری رقوم جمع کیں اور اس وقت فی ماہ 20 ملین ڈالر تک جمع کیے گئے۔
بہت دلچسپ کتاب ہو گی یہ جس کے ذریعے میڈیا میں بالواسطہ ایک رجحان کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ در اصل پاکستان ایک بے چین اور امن سے نہ رہنے والا ملک ہے اور اس کے مسائل خود اس کے پیدا کردہ اور ان کا حل بھی پاکستان ہمیشہ جنگ کی صورت میں نکالتا ہے، چاہے وہ بھارت ہو یا افغانستان، مغربی حکومتیں اور میڈیا وقت یعنی "Timing" میں بہت ایکسپرٹ ہیں ہر کام کو اس کے درست وقت پر کرنے کا شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں اور اس میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔
افغانستان کے موجودہ حالات اور فلسطین میں اسرائیل کی مدد کر کے۔ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ روس ایک ورلڈ پاور تھا اس وقت اور پاکستان وہی تھا جو اب ہے تو پاکستان کو کیا ضرورت تھی کہ ''بھینسے'' کے سامنے اپنے آپ کو ڈالے۔ ضیا الحق کو بیٹھے بٹھائے یہ خیال کیوں آ گیا کہ ''بھینسے'' سے ''سینگ لڑائیں'' اگر روس افغانستان میں آ رہا تھا تو کیا افغانستان پاکستان کی کوئی ریاست ہے جس میں روس آ رہا تھا کہ پاکستان کو تشویش ہو گئی کہ اس کی ریاست پر روس قبضہ کر لے گا۔ اگر آج روس براہ یا راست بالواسطہ افغانستان میں آ جائے جو وہ بھارت کے ذریعے موجود ہے ایک حد تک تو کیا پاکستان پھر جنگ چھیڑ دے گا۔
دنیا بھر میں سارے مسائل پیدا بھی وسائل سے ہوتے ہیں اور حل بھی وسائل سے کیے جاتے ہیں۔ امریکا نے جو ڈالر جھونکے وہ کس کے تھے۔ یہ بھی ہر با شعور سمجھ سکتا ہے۔ امریکا کی کوشش ہوتی ہے کہ ''ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آئے'' تو وہ ''چوکھا رنگ'' ضیا الحق کی معرفت امریکا نے حاصل کیا۔ پاکستان جب بھی اور اب بھی امریکا کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کر سکتا۔ ضیا الحق سے پرویز مشرف تک امریکا نے جو چاہا وہ کھیل اس خطے میں کھیلا اور اب آپ کی حیثیت ایک "USED ARTICLE" سے زیادہ نہیں اس لیے اس نے اپ کو ہیلی کاپٹر بھی دینے سے انکار کر دیا ہے۔
دنیا کچھ بھی کر لے وہ پاکستان سے زمینی راستے سے افغانستان گیا اور اسی راستے سے واپس جا رہا ہے اور اس کا صلہ آپ کو کچھ بھی نہیں مل رہا، آپ کا انفرا اسٹرکچر آپ کی سڑکیں تباہ ہو رہی ہیں یہ آپ کی اس جنگ میں شرکت کی ''سزا'' ہے۔ افغانستان میں فائدہ کسی کو بھی ہو وہ ''افغانستان'' کا فائدہ ہے اور پاکستان میں۔ کیا عرض کروں آپ کو علم ہے۔ یونہی تو نہیں سوئٹزر لینڈ میں لوگوں کے اکاؤنٹ قائم ہیں اور باہر لوگوں کی جائیدادیں ہیں اور ملک مفلوک الحال ہے۔
میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب امریکی میڈیا اسامہ کے قتل اور 9/11 کے واقعے کو بھی پاکستان کی جنگ قرار دے گا اور امریکا نے صرف ''مدد'' کی ہو گی۔ اس کے علاوہ ویت نام میں بھی تمام تر معاملات ''پاکستان'' کی وجہ سے خراب ہونے کی خبر آئے گی، اسرائیل کا فتنہ بھی پاکستان کا ''قائم کردہ'' کہلائے گا۔
جب پاکستان ایک ہندو اسٹیٹ کے ساتھ جس کا پاکستان کبھی ایک حصہ تھا 67 سال سے روک سکتا ہے اور اس کی تمام ریشہ دوانیوں کا بحسن و خوبی جواب دے سکتا ہے تو بھلا روس کے افغانستان آ جانے سے پاکستان کو کیا ہوتا۔ کیوں پاکستان ہندوستان اور اس کے درمیان Buffer کی صورت اختیار کر لیتا۔ کتابوں کی باتیں کچھ اور ہیں۔
ان حالات کے ذمے دار وہی لوگ ہیں جو ضیا دور میں انھیں امیرالمومنین بنانا چاہتے تھے اور جنھوں نے بھٹو جیسے ایک روشن دماغ کو بجھا دیا، ان لوگوں کو تاریخ سے شرم نہیں آتی، کھلے عام جھوٹ بولتے ہیں۔ ضیا الحق کی ایک سیاسی جماعت نے بے حد پشت پناہی کی اور وہ اب بھی طالبان سے بات چیت کی باتیں کرتے ہیں۔
انھیں اپنے شہید نظر نہیں آتے۔ قاتل ''شہید'' نظر آتے ہیں ایک عجیب ذہن ہے ان دوستوں کا۔ یہ دنیا خدا نے بنائی ہے اس میں تمام انسان خدا نے بنائے ہیں پیدا کیے ہیں اور ہر ایک کی اپنی سوچ اور خیالات ہیں۔ دین نے سب کا احترام کرنے کا درس دیا ہے اور کہا ہے کہ انسان سب برابر ہیں۔ ان کے حقوق برابر ہیں۔ دین اسلام خود اپنے لیے راستہ بناتا ہے اگر اس پر عمل کرنے والے باعمل ہوں اور محض ''اسلامی نعرے'' نہ لگائیں آخر نفاذ اسلام بالجبر کیوں؟
ہم سچے مسلمان نہیں۔ 72 فرقوں کو ختم کر کے اتحاد اسلامی کا مظاہرہ کریں۔ دنیا کو دکھائیں کہ اﷲ کے پیروکار کیسے ہوتے ہیں تو دنیا کیوں نہیں اسے پسند کرے گی اور تائید غیبی کیوں نہیں ہو گی۔ کچھ ظاہری کاموں سے یہ دنیا بے وقوف نہیں بنے گی سچے دل سے خود اسلام پر عمل کرنا ہو گا تب بات بنے گی۔ خیر یہ تو ایک الگ بات ہے ہر چند کہ اختلافی نہیں در اصل بات تو وہی ہے جو ہم نے مذکور کی تھی۔ جو لوگ افغانستان کو ملحدوں، مشرکوں سے بچانے کے لیے سرگرم تھے وہ اب کہاں ہیں۔ فلسطین میں ہونے والے مظالم پر ساری مسلمان دنیا وہ جو فلسطین کے قریب ہے خاموش ہے۔
امریکا ، اسرائیل کا سرپرست جو چاہے وہ کرتا رہے۔ اور حماس سے کہا جا رہا ہے کہ جنگ بندی قبول کر لے، جنگ کر کون رہا ہے۔ قابض کون ہے۔ توسیع پسندی کس کا پروگرام ہے جس پر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل گریٹر اور فلسطین چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا سو رہی ہے دنیا کا ضمیر مر رہا ہے۔ پر چند سال بعد اسرائیل فلسطین کے کچھ علاقوں پر ''دہشت گردی'' کے ذریعے قبضہ کر لیتا ہے اور اسے اقوام متحدہ کی ''خاموش حمایت'' حاصل ہوتی ہے اور مسلمان ملک اسرائیل کے سامنے دم دبا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے وسائل فلسطینیوں کو برباد کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ کب کوئی پیدا ہو گا جو یہ ظلم روکے گا؟