خیرات
عظیم پریم جی ایک سادہ ساانسان ہے۔سرپر سفیدبال، عام ساچہرہ۔مگرآنکھوں میں بلاکی ذہانت۔تقریباًستربرس کا ہوچکاہے
عظیم پریم جی ایک سادہ ساانسان ہے۔سرپر سفیدبال، عام ساچہرہ۔مگرآنکھوں میں بلاکی ذہانت۔تقریباًستربرس کا ہوچکاہے۔انتہائی کامیاب تاجر۔بلکہ ناقابل بیان حدتک کامیاب۔مگریہ قابل ذکربات نہیں ہے۔
محمدہاشم پریم جی نے1945ء میں مہاراشٹرامیں ایک چھوٹی سی کاروباری کمپنی قائم کی۔یہ امل نیرشہرمیں قائم کی گئی تھی۔خوردنی تیل بنانے کاسادہ ساکارخانہ اوراس کے ساتھ مختلف طرح کے صابن بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری۔کمپنی کانام "مغربی ہندوستان ویجیٹبل پروڈکٹس" Western Indian Vegetable Products Ltd.تھا۔محمدہاشم ایک اچھے کاروباری شخص تھے۔اس کے علاوہ ان کاچاول کاکاروباربھی تھا۔اکثر لوگ انھیں"چاول کابادشاہ"بھی کہاکرتے تھے۔
عظیم امریکا کی سٹن فورڈ(Stanford)یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھاکہ والد کااچانک انتقال ہوگیا۔عظیم کوکاروبارکی کوئی سوجھ بوجھ نہیں تھی۔عمرمحض اکیس برس تھی کہ اپنے والدکاکام بااَمر مجبوری سنبھالناپڑا۔نوجوان تاجرنے والدکے کام کوخوب ترقی دی۔کئی نئی چیزیں بنانی شروع کردیں۔بہتراندازمیںتجارت کرنے سے کاروبارچمک اٹھا۔مگرعظیم اس سے بہت آگے کی منزل پرنظررکھے ہوئے تھا۔1980ء میں ایک تنازعہ کی بدولت،کمپیوٹرکی کمپنیI.B.Mکوہندوستان چھوڑناپڑا۔اس وقت پورے ملک میں ایک بھی معیاری کمپیوٹرکمپنی موجودنہیں تھی۔
یہ وہ خلاتھا،جسکوعظیم نے نہ صرف محسوس کیا، بلکہ بھرنے کی بھرپورکوشش بھی کی۔اس نوجوان نے"وائپرو" (Wipro) نام کے ایک سافٹ ویئرہاؤس کی بنیادرکھی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ایک امریکی کمپنی سنٹینل (Sentinel)نے وائپروکے ساتھ اشتراک کرلیا۔دونوں نے کمپیوٹر،سافٹ ویئر اورپروگرام بنانے شروع کردیے۔عظیم کے لیے یہ اتنا بھرپور کاروبارثابت ہوا،اپنے دیگرکام بند یابہت کم کر دیے۔ بیس برس میں وہ کھرب پتی ہوگیا۔پورے ہندوستان کا امیرترین شخص۔میں بلاخوف تردیدکر سکتا ہوں، کہ برصغیر کا امیرترین آدمی!
بے تحاشہ دولت نے عظیم پریم جی کو عجیب سے خیالات سوچنے پرمجبورکردیا۔مثلاًاتنی زیادہ دولت اس کے کس کام کی ہے، وہ اتناامیرکیوں ہے اورلوگ اتنے غریب کیوں ہیں۔غریب اورامیرکے درمیان اتنافرق کیوں ہے۔دولت کے ارتکاز سے اسے کیافائدہ ہوسکتاہے۔انسان کی زندگی کابنیادی مقصد کیاہے۔یہ معاملات اس کے دماغ میں ہروقت پانی کے اَن گنت بلبلوں کی مانندموجودرہتے تھے۔اس کے پاس اکثر سوالات کاکوئی جواب نہیں تھا۔چنانچہ مختلف لوگوں سے مشورہ کرناشروع کردیاکہ اسے کیاکرناچاہیے۔کونساایساکام،جس سے اسے سکون اورراحت مل سکے۔ہرشخص اپنی ترجیحات کے مطابق جواب دیتاتھا۔
ایک دن،گہری سوچ میں مبتلا،اس شخص کواپنے تمام معاملات کاجواب مل گیا۔یہ جواب اس کے ذہن نے خودتشکیل دیاتھا۔اسے لگا،کہ اصل مقصدِحیات محض دولت کما نانھیں بلکہ دولت کوعام لوگوں کی فلاح وبہبودکے لیے خرچ کرناہے۔جولوگ،غیرمنصفانہ نظام کی بدولت پیچھے رہ گئے ہیں،انکوزندگی کی دوڑمیں دوبارہ شامل کرناہے۔عظیم پریم جی نے تعلیم کے میدان میں آنے کافیصلہ کرلیا۔ مگر صرف یہ ذہنی فیصلہ نہیں تھا۔یہ ایک ایساانقلاب تھا،جسکی بدولت نہ صرف اس کی اپنی زندگی تبدیل ہوگئی،بلکہ کروڑوں لوگ،اس سے مستفیدہوئے۔
اس شخص نے اپنے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔اس کا نام، "عظیم پریم جی فاؤنڈیشن"رکھاتھا۔یہ بنیادی طورپربغیرمنافع کمانے والی ایک این جی اوتھی۔مقصد،پورے ہندوستان میں ایلیمنٹری تعلیم کوبہتربناناتھا۔اس نے ایک حیران کن فیصلہ کر ڈالا۔اپنی کمپنی وائپروکے آٹھ سے دس فیصد شیئرزاس فاؤنڈیشن کے حوالے کردیے۔یہ تقریباً دو ہزار کروڑروپے بنتے تھے۔ادارہ نے کرناٹک، اترکھنڈ، راجھستان، اندرا پردیش،بہاراورمدھیاپردیش میں کام کرناشروع کردیا۔
عظیم پریم جی نے سرکاری اسکولوں کے ساتھ اشتراک کرنے کافیصلہ کیاہواتھا۔پورے ملک میں تیرہ لاکھ پرائمری اسکول ایسے تھے،جس میں حکومت کاعمل دخل تھا۔پریم جی کے مطابق اگرکسی قسم کی مثبت تبدیلی لانی ہے،توبچوں کی تعلیم پرخرچ کرنے سے بہترکوئی عمدہ ذریعہ نہیں ہوسکتا۔فاؤنڈیشن صوبائی حکومتوں سے رابطہ کرتی تھی۔وسائل اورمسائل کے معاملات دریافت کرتی تھی۔اس کے بعدحکومت کے اشتراک سے اسکولوں کوبہتربناناشروع کردیتی تھی۔اگراسکول کی چھت نہیں ہے، تو چھت ڈلوادیتی تھی۔
اگرچاردیواری نہیں،توبنوادیتی تھی۔ اگر پرائمری اسکول کسی ایسے علاقے میں واقع تھا،جہاں پانی نہیں ہے،تویہ فاؤنڈیشن اپنے خرچ پربچوں کے لیے پانی کاانتظام کرتی تھی۔بچوں کووظائف،یونیفارم،کھانا،کتابیں،یعنی ہرسہولت مہیاکرتی تھی۔چندسالوں میں جہاں جہاں عظیم پریم جی فاؤنڈیشن نے کام کیاتھا،وہاں لوگوں کی قسمت بدلنے لگی۔ بنیادی تعلیم کی فراہمی نے بچوں اورانکے والدین کے ذہن کھول دیے۔ہندوستان کی ان ریاستوں میں ایک تعلیمی انقلاب برپاہوگیا۔
اہم اَمریہ بھی ہے،کہ فاؤنڈیشن نے ان اسکولوںپرتوجہ دی،جودیہی علاقوں میں واقع تھے۔تعلیمی معیار اس درجہ بہترہوگیا،کہ والدین نے اپنے بچوں اوربچیوں کو پرائیویٹ اسکولوں سے نکال کرسرکاری اسکولوں میں داخل کروانا شروع کردیا۔اس علمی معجزہ کی کامیابی صرف اورصرف عظیم کی دریادلی سے ممکن ہوئی۔ اسی طرح،بیس برس گزرگئے۔ خدا نے اس شخص پراپنی رحمتوں کی بارش کردی۔ اس کے وسائل میں اس درجہ اضافہ ہوگیاکہ وہ اپنے ملک کاامیرترین شخص بن گیا۔
چندماہ پہلے عظیم نے ایک اورعظیم فیصلہ کرڈالا۔اس نے اپنی کمپنی"وائپرو"کے 39%شیئر،تعلیم کے لیے مختص کرڈالے۔ یہ رقم پانچ ہزارکروڑبھارتی روپوں کے برابرتھی۔اگرآپ پاکستانی کرنسی میں تبدیل کریں،تویہ رقم آٹھ سے نوہزار کروڑ روپے بنتی ہے۔یہ محض اعلان نہیں تھا۔اس مردِعجیب نے "وائپرو"کے بورڈسے فیصلہ منظورکرواکے عملی طورپر تمام پیسے فاؤنڈیشن کے حوالے کردیے، جوا سے تعلیم کی بہتری کے لیے خرچ کررہی ہے۔
عظیم کے خیالات تمام امیرترین طبقہ سے بالکل مختلف ہیں۔کہتاہے"کہ تمام لوگ،جن کے پاس دولت ہے، ان کا فرض ہے کہ دنیاکوبہتربنائیں، ان کروڑوں لوگوں پرتوجہ دیں جنکے پاس وسائل نہیں ہیں"۔یہ بھی کہتاہے کہ )اسلامی( عقائداورترجیحات میں یہ فرض ہے کہ امراء، غریب لوگوں کی مستقل بنیادپرمددکریں۔یہ بھی کہتاہے،کہ"تجارتی اداروں کے مالکان پراپنے معاشرہ کوبہتربنانے کی بھاری ذمے داری عائدہوتی ہے۔انھیں اپنی دولت کوسوشل سیکٹرمیں لگانا چاہیے۔ تاکہ لوگوں کواس کافائدہ ہو"۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔دنیاکے امیرترین شخص بِل گیٹس نے ایک معاہدہ تشکیل دیاہے۔یہ ان افرادکے لیے ہے، جودنیاکی اَسی فیصددولت کے مالک ہیں۔اس معاہدہ کانام "The Giving Pledge"ہے۔اس معاہدے کووارن بوفے(Warran Buffet)اوربِل گیٹس نے ملکرترتیب دیاہے۔اس کے مطابق آپکواپنی دولت،معاشرہ کوبہتربنانے کے لیے خرچ کرنی ہے۔امریکا سے باہر،صرف تین غیرملکی کھرب پتی لوگوں نے اس پردستخط کیے ہیں۔
اس میں رچرڈبرونسن اورڈیوڈسانس بری جیسے لوگ شامل ہیں۔ تیسرا غیرامریکی شخص عظیم پریم جی ہے،جواس معاہدہ کے تحت اپنی پچاس فیصددولت انسانیت کی فلاح وبہبودپرخرچ کرنے کا پابندہے۔یہ پیسے پانچ سال تک دس ہزارکروڑبن جائینگے۔ کسی مسلمان بادشاہ، سلطان، شہزادے، وزیر یا تاجر نے اس معاہدہ پردستخط نہیں کیے۔عظیم فضائی سفرمیں بزنس کلاس استعمال نہیں کرتا۔وہ اکانومی میں سفرکرتاہے۔اس نے کوئی رولزرائس یاقیمتی گاڑی نہیں رکھی۔وہ مقامی تیارکردہ "کرولا" گاڑی استعمال کرتاہے۔اس نے کوئی ذاتی ہوائی جہاز نہیں خریدا۔اس کے بیٹے، رشیداورطارق بھی حددرجہ سادہ زندگی گزاررہے ہیں۔
سب کچھ بیان کرنے کے بعد،میری گزارش ہے کہ آپ پاکستان کے کسی بھی دیہات،قصبہ یاشہرمیں رہتے ہوں۔اپنے چاراطراف،غوروفکرکرکے سنجیدگی سے پانچ مقامی امیرلوگوں کی فہرست بنائیے۔فہرست کوسامنے رکھ کرچندمنٹ کے لیے آنکھیں بندکرلیجیے۔ان پانچ لوگوں کو ذہن میں لائیے۔نناوے فیصدلوگوں میں آپکوایک قدر مشترک نظر آئیگی۔یہ تمام ارتکازدولت پرایمان کی حدتک یقین رکھتے ہونگے۔اس میں کسی مذہب،نسل یاعمرکی کوئی تمیزنہیں۔ اگر کوئی کارخانے دارہے،تواس کی شدیدخواہش ہوگی کہ مرنے سے پہلے ایک کی جگہ تین کارخانے چھوڑ کر جائے۔اگرکوئی زمیندارہے تواس کی خواہش ہوگی ،کہ ہرسال اپنے رقبے میں اضافہ دراضافہ کرتاجائے۔اپنے بچوں کے لیے کسی طرح ایک جاگیر بنالے۔ اگرآپ کسی بڑے شہرمیں رہتے ہیں،جیسے لاہور، کراچی، سیالکوٹ یافیصل آباد، تو آپ اس لسٹ کوپانچ سے بڑھا کر پچاس تک لے جائیے۔
آپ کو حرص،لالچ اور نمائش کاایسا تعفن زدہ بازارمحسوس ہوگا،کہ آپ کی روح خوشبو کو ترس جائے گی۔پچاس میں سے واضح اکثریت، ہر طریقے سے دولت کمانا،اپناحق گردانے گی۔اکثریت نے کئی حج،عمرے اوردیگردینی فرائض تندہی سے انجام دیے ہونگے۔مگرعام انسان کی فلاح کے لیے یہ دھیلاخرچنے کواپناذاتی نقصان سمجھے گی۔یہ اکثریت،لوگوں کی جیب کاٹ کرمسرت محسوس کریگی۔اگرآپ انھیں یہ کہیں کہ اپنی دولت کادس، بیس یاتیس فیصدحصہ عام لوگوں کی تعلیم،صحت یاصاف پانی کی فراہمی کے لیے مختص کر دیں، تو آپ کودیوانہ یاپاگل سمجھیں گے۔
ہوسکتا ہے کہ مشورہ دینے والے کودھکے مارمارکرکمرے سے باہرنکال دیں۔آپ سے گالی گلوچ شروع کردیں۔یہ دراصل دولت مندنہیں،بلکہ ذہنی طورپرانتہائی مفلس لوگ ہیں۔ان کی غربت دیکھ کرافسوس ہوتا ہے۔برصغیرمیں دولت مندلوگوں کے مختلف نام ہوسکتے ہیں۔مگران میں سے ایک بھی عظیم پریم جی نہیں بن سکتا! اس لیے کہ تعصب کے بغیر،معاشرہ کی بلاغرض خدمت، عظیم ترین لوگوں کاکام ہے،دولت مندفقیروں کا نہیں۔ پانچ ہزارکروڑ کا چندہ یاخیرات توالف لیلیٰ کی کہانی نظرآتی ہے۔یہاں کوئی غرض کے بغیرپانچ روپے بھی خرچنے کوتیارنہیں۔