ہم اصل لیڈر سے محروم کیوں
NA-122 کا الیکشن سابق اسپیکر ایاز صادق اور علیم خان کے مابین ہو رہا ہے
LONDON:
NA-122 کا الیکشن سابق اسپیکر ایاز صادق اور علیم خان کے مابین ہو رہا ہے۔ دونوں طرف سے زبردست زور ہے شور ہے، نعرے ہیں، وعدے ہیں اور الزامات کی بوچھاڑ بھی۔ اب دونوں طرف سے زور ہے اور یہ الیکشن دونوں پارٹیوں کے لیے ان کی مقبولیت کا بیرومیٹر بھی ثابت ہوگا کہ لاہور سے لاہور تک کی ترقی کا سفر کہاں تک لاہوریوں کے اندر تک اترا ہے۔
عمران خان نئے پاکستان کے حوالے سے لاہوریوں سے بہت پرامید ہیں تو دوسری طرف (ن)لیگ وزرا بھی ایاز صادق کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیںخاص طور پر ماروی میمن۔ بہرحال الیکشن اب دور نہیں دیکھیے کون کتنے پانی میں ہے اورآیا اس الیکشن کے بعد دھاندلی کی کیا صورت ہوتی ہے۔
دونوں جماعتوں کے کارکن خوب خوب جوش وخروش کے ساتھ آگے آگے ہیں کہ بیچارہ کارکن حکم ملتا ہے تو ناچ لیتا ہے حکم ملتا ہے تو خاموش رہتا ہے۔جب سے ضرب عضب شروع ہوا ہے اور اس کے بعد رینجرزکا آپریشن کراچی میں شروع ہوا ہے آہستہ آہستہ ایک بہتری کی صورتحال بھی ملک میں نظر آنی شروع ہوئی گوکہ کچھ دل ہلا دینے والے حادثے بھی وقوع پذیر ہوئے مگر بہتری بہرحال نظر آتی ہے، صاف نظر آتا ہے کہ ملک میں اب بنیادی فیصلے ہونے چاہئیں۔
تمام تر جدوجہد کے ساتھ برائی ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی اور اس برائی کو جڑ سے کھینچ نکالنے کے لیے یقینا ملک گیر منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے شخصیات کے ساتھ پالیسیز بھی ختم ہوجاتی ہے پھر نئی شخصیت، نیا ویژن اور پھر نئی پالیسیز۔ آئین اور قانون کو اگر سپریم بنایا جائے تو پھر یہ تمام حالات کے لیے اور تمام شخصیات کے لیے ہو صرف 6 مہینے گرم اور 6 مہینے نرم نہ ہو۔ دہشتگردوں نے عام سے لے کر خاص لوگوں تک کو جو زخم دیے ہیں یقینا وہ کبھی نہ مٹنے والے ہیں مگر جو ریاست کی پالیسی ہو وہ شارٹ ٹرم کی بجائے لانگ ٹرم ہو۔ جرائم پیشہ افراد کی اکثریت شہروں سے بھاگ نکلتی ہے، لیکن کیا ان کا بھاگنا ہی کافی ہے؟
کیا عوام مختلف چھاپوں کی خبریں پڑھیں اور خوش ہوتی رہے کہ مجرم پکڑے گئے کیا عوام کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے مجرموں کے انجام کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور مجرم کو عبرت سمجھیں۔ ایک مجرم کو عبرت ملتی ہے تو دوسرے مجرموں کے لیے سبق بنتا ہے۔ صرف ناکہ بندیاں یا چھاپہ یا پکڑ دھکڑ کافی نہیں۔آصف علی زرداری دوست نواز مشہور ہوئے اور ان کے دوستوں نے خوب خوب مزے بھی اڑائے، زرداری صاحب کے بارے میں مشہور رہا کہ اپنے دوستوں کو خوب نوازتے ہیں یاروں کے یار ہیں۔شاید یہ بات اور دوسرے سیاستدانوں کو اتنی اچھی لگی کہ اب تو ہر وزیر یاروں کا یار نکلتا ہے۔
نہ صرف اپنوں کو نوازتے ہیں بلکہ اپنے دوستوں کو بلکہ ان کے دوستوں کو بھی خوب نوازا جاتا ہے اور جن کے ووٹ لے کر مسند پر بیٹھتے ہیں وہ بیچارے بے یارو کفن پڑے نظر آتے ہیں کہ ان کی لاشوں پر کوئی قل پڑھنے والا بھی نظر نہیں آتا۔حج کے دوران منیٰ کی شہادتیں 6 سے 7 پاکستانی سے شروع ہوئیں لوگوں نے اپنے لوگوں کے لیے چھان بین کرنی شروع کی، میڈیا پر مختلف چینلز نے اپنے سیل بنائے، بات کھلی جب کہ باہر کے اخبار قارئین نے 300 سے اوپر پاکستانیوں کی شہادتوں کی نشاندہی کی۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ 20 لاکھ کے اجتماع میں اگر چند ہزار شہادتیں ہوتی ہیں تو کیا اچھنبا! بات اپنی جگہ غلط نہیں مگر جن کا اپنا Missing ہو غم تو وہی جان سکتا ہے اور وہ بھی انجان ہو کہ زندہ ہے یا مردہ، مردہ ہے تو دفنایا گیا یا کچرے کے ڈھیر میں گم ہوگیا، وزیر حج سعودی عرب مقیم ہیں اور آخری بندے کی نشاندہی تک مقیم رہیں گے تا حکم وزیر اعظم۔ اب دیکھئے کہ یہ نشاندہیاں کتنی میتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کچھ سیاستدان میٹھا بولنے والے، کم فہم اور سادہ ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اپنی تصویر وہ کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہوجائیں، بالکل اسی طرح جس طرح کہ سگنل پر آپ کو کچھ پروڈکٹ بیچتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں جو 500 روپے میں پروڈکٹ کے ساتھ ساتھ آپ کو سونے کے Tops بھی گفٹ میں نکلنے کی امید دلاتے ہیں۔
گویا آپ نے 500 روپے خرچ کیے اور 2500 کا آپ کا فائدہ ہوگیا۔ اور ایسے لوگوں کو آسان زبان میں ''ٹھگ'' کہتے ہیں۔ پچھلے زمانوں میں کوئی ٹھگ مارکیٹ ہوتا تھا تو 2 یا 4 کو دھوکہ دینے کے بعد اس کی کہانی لوگ ایک دوسرے کو سنانے لگتے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کو بچانے کے لیے ٹھگ کی نشانیاں بھی بتاتے تھے اور ایک دوسرے کو ریڈ الرٹ بھی کرتے تھے، ٹھگ تک بھی یہ باتیں پہنچ جاتی تھیں اور تھوڑے ہی دنوں میں وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ لیا کرتا تھا، مگر آج کا دور ٹھگوں کے لیے سنہرا دور ہے۔ وہ لوگوں کو ٹھگتے بھی ہیں اور اپنے آپ کو معصوم اور سادہ بھی ظاہر کرتے ہیں ۔
ایسے ایسے سادہ سودا لوگ وزیروں کی مسند تک بھی پہنچ گئے ہیں۔ بے انتہا جانفشانی سے دن و رات عوام کی فلاح و بہبود میں ایسے لگے ہیں کہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک میں بھی ان کے اکاؤنٹ اور کاروبار دونوں عروج پر ہیں۔ بارش کی اموات ہو، زلزلے کی اموات ہو مہنگائی سے لوگ مریں یہ سب تو ناگہانی آفات ہیں ان میں ان کا کیا قصور؟ چاپلوسوں اور مشیروں کا ایک ایسا بڑا ٹولہ نظر آتا ہے کہ برسات ہوئی اور مینڈک باہر۔ سنہری برسات ہو رہی ہے اور خوب خوب برسات کے مزے لیے جارہے ہیں کہ ابھی تو مست رہے ،جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ ٹی وی چینلز ''بریکنگ نیوز'' کے چٹخارے عوام کو دیتے رہتے ہیں، آج یہ پکڑا گیا، اس پر اتنے الزام ہیں، وغیرہ وغیرہ مگر بات دو قدم سے بڑھتی نظر نہیں آتی اور امید بہار بہت۔صاحب علم افراد کا کہنا ہے کہ کرپشن ہو یا جرائم پوری دنیا اس عذاب کو بھر رہی ہے پاکستان واحد ملک نہیں جہاں رونا پیٹنا لگا ہوا ہے۔
مگر ہماری جو سب سے زیادہ تباہی کی وجہ بن رہی ہے وہ ہے دوغلا پن اور منافقت۔ کہیں اتنی زیادہ منافقت اور دوغلا پن دیکھنے کو نہیں ملتا جتنا پاکستان میں نظر آتا ہے۔ جھوٹا سچا نظر آتا ہے اور سچ کی تبلیغ کرنے والا جھوٹا۔ فرشتوں کے روپ میں شیطان اور شیطان کہلانے والے فرشتے نکل آتے ہیں۔ بے شک منافقوں کا ٹھکانہ جہنم اور عذاب بھی عظیم تر ہوگا مگر اس کے باوجود ہر شخص سیاستدان کا چولا پہننے کو تیار اور ہم اصل لیڈر سے محروم۔بات بہت سادہ ہے کہ سیاستدان قوم کے جذبات سے کھیلتا ہے ان کو بھڑکاتا ہے مگر صرف ایک لیڈر ہی ہوتا ہے جو جذبات کو عقل وشعور کے ساتھ لے کرچلتا ہے۔ لیڈر ہی قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور قوم کو تمام حقائق سے باخبر رکھتا ہے۔
مگر افسوس صد افسوس کہ منافقت اور دوغلے پن نے ہم سب کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ مذہب سے لے کر سیاست تک، تعلیم سے لے کر شہر تک کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس سے مستثنیٰ ہو۔ اور غضب کی بات یہ ہے کہ یہ انتہا درجے کی برائی ہم سب میں ایسے پل بڑھ رہی ہے کہ گویا ہمارے لائف اسٹائل کا حصہ ہو، یا شاید یہ بھی ایک ایسا شہر ہوگیا ہے جو ترقی کی طرف جلدی لے جاتا ہے، چاہیں اوپر سے دھڑام کرکے گرے یا مرے۔ بہرحال گزرے سالوں میں کچھ جرائم اور کچھ برائیاں ہماری قوم میں ایسے پروان چڑھیں کہ جیسے جنگل بیل کو ایک دیوار مل جائے اور بڑھتی چلی جائے۔اللہ کرے کہ ہم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں جس میں کوئی منافقت نہ ہو۔