کمسن بچیوں کا ڈگمگاتا مستقبل

تمام خواتین سیکنڈری پاس ہوں تو بچیوں کی شرح اموات میںنصف حد تک کمی ہوجاتی ہے


محمد عاطف شیخ October 11, 2015
گرل چائلڈ کے عالمی دن پر خصوصی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: ایک افریقی کہاوت ہے کہ '' اگر ہم ایک لڑکے کو لکھنا پڑھنا سکھاتے ہیں تو ہم صرف ایک فرد کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں ۔ جبکہ اگر ہم ایک لڑکی کو خواندہ کرتے ہیں تو ہم ایک خاندان بلکہ پوری قوم کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں''۔

یہ کہاوت دراصل اس ادراک کی غماز ہے جو افریقی معاشرے میں تو موجود ہے لیکن ہمارے معاشرہ میں مفقود! تبھی تو ہماری بچیاں تعلیمی گہواروں سے دور محرومیوں اور مصائب کا شکار ہیں۔ جو اُن کی سنگین نوعیت کی شرح اموات کابھی باعث بن رہے ہیں۔

کیونکہ پاکستان اس وقت دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شرح اموات کے حوالے سے 21 ویں نمبر پر ہے اور صورتحال کی نزاکت کو یوں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیاء میں افغانستان کے بعد دوسرا ایسا بد قسمت ملک ہے جہاں بچیوں کی شرح اموات خطے کے دیگر ممالک ( بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال اور مالدیپ) کی نسبت قدرے زیادہ ہے۔ عالمی ادارہ اطفال کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2015 ء کے مطابق پاکستان میں5 سال سے کم عمر بچیوں کی شرح اموات 82 فی ہزار ہے۔جو کہ جنوب ایشیاء کی اوسط شرح 57 اموات فی ہزار سے بھی زیادہ ہے۔



اس صورت حال کا تعلیم سے کیا تعلق؟ یہ تو صحت کے شعبے کا مسئلہ ہے۔ اکثر قارئین کے ذہن میں یقیناًیہ سوال اور اُس کا جواز ضرور ابھرا ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کی بنیاد دراصل بچیوں(Girl Child)کی تعلیم سے دوری ہی ہے۔ یہ ایک ایسا منحوس چکر (Vicious Circl) ہے جس کا آغازجہالت سے اور اختتام بھی جہالت پر ہوتا ہے۔

کئی ایک بین الاقوامی تحقیق اس امر کی واضح نشاندہی کرتی ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم بچوں کی شرح اموات میں کمی کا باعث بنتی ہے کیونکہ ان بچیوں نے ہی بڑے ہوکر ماں کے درجہ پر فائز ہونا ہوتا ہے۔ اور اگر بچیاںپڑھی لکھی ہوں گی تو مستقبل کی مائیں خواندہ ہوسکیں گی اور تب ہی بچوں کی اموات میں کمی واقع ہو گی۔

کیونکہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو اپنے حقوق کے بارے میں بہتر آگاہی ہوتی ہے۔ اور وہ تمام فیصلے پُر اعتماد طریقے سے آزادی کے ساتھ کرسکتی ہیںجو اُن کی اور اُن کے بچوں کی زندگی کو متاثر کرتے ہوں۔ جن میں صحت، خوراک، روزگار، شادی، بچوں کی تعداد اُن کی صحت ونشونمااور سکولنگ جیسے فیصلے اہم ہیں۔ بین الاقوامی تحقیق کے مطابق کسی بچی کا چوتھی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے کے ہراضافی سال کے نتیجے میں خاندان کے سائز میں 20 فیصد کمی، بچوں کی اموات کی شرح میں 10 فیصد کمی اور آمدن میں 20 فیصد اضافہ ہوتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ایک خواندہ ماں کے بچے کا 5 سال کی عمر تک پہنچنے کا امکان ناخواندہ ماں کی نسبت 50 فیصد زائد ہو جاتا ہے۔ اور اگر تمام خواتین پرائمری سطح کی تعلیم مکمل کرلیں تو دنیا میں بچوں کی اموات میں15 فیصد کمی واقع ہوجائے گی۔ اور اگر وہ سیکنڈری سطح کی تعلیم مکمل کرلیں تو بچوںکی اموات میں آدھی کمی لائی جاسکتی ہے۔ اور ہر سال 30 لاکھ معصوم زندگیوںکو بچایا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ بچیوں کے تعلیم یافتہ ہونے کا ایک طویل المدتی فائدہ بچوں کو بہتر غذائیت کی فراہمی سے بھی مشروط ہے۔ جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں میں خوراک کے حوالے سے برتے جانے والے امتیاز کو بھی ختم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پڑھی لکھی ماؤں کی حفظانِ صحت کے اصولوں سے آگاہی اور بچوں کی صفائی ستھرائی کا خیال انھیں بیماریوں سے دور رکھتا ہے۔ جبکہ بچوں خصوصاً بچیوں کو حفاظتی ٹیکہ جات (Immunization) لگوانے کے حوالے سے بھی مستعد کردار ادا کرتا ہے۔

لیکن ماں کی ناخواندگی اِن تمام امور کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔ اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان میں5 سال سے کم عمر بچیوں کا 10 فیصد قد کے لحاظ سے کم وزن ہے جبکہ 27 فیصد عمر کے لحاظ سے کم وزن اور 42 فیصد عمر کے لحاظ سے پستہ قد ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں12 سے23 ماہ کی صرف 58 فیصد بچیوں کو حفاظتی ٹیکہ جات لگائے جاتے ہیں۔

ریکارڈ کی بنیاد پر مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق بچیوں کو سب سے کم حفاظتی ٹیکہ جات لگوانے کی شرح بلوچستان میں ہے جہاں مذکورہ بالا ایج گروپ کی صرف 29 فیصد بچیوں کی امیونائزیشن ہوتی ہے۔ لیکن ایک قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ صوبے میں بچیوں کو حفاظتی ٹیکہ جات لگوانے کی شرح لڑکوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔اس کے بعد 40 فیصد بچیوں کی شرح کے ساتھ سندھ کا نمبر ہے۔ خیبر پختو نخوا میں یہ شرح 58 فیصد اور پنجاب میں 68 فیصد ہے۔

بچیوں کے ناخواندہ ہونے کا ایک اور خمیازہ اور ان کے تعلیمی عمل کے مکمل ہونے پر ایک اور ضرب اُن کی بچپن کی شادی کی صورت میں پڑتی ہے۔ کیونکہ کم عمری کی شادی سے بچنے کا ایک موثر حل بچیوں کی تعلیم کے عمل کو برقرار رکھنا بھی ہے۔ انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ آن ویمن کی تحقیق بتاتی ہے کہ سیکنڈری سطح کی تعلیم سے بچیوں کی کم عمری کی شادی کے امکانات میں 6 گنا کمی واقع ہوتی ہے۔



اقوام متحدہ کے آبادی کے فنڈکے مطابق دنیا میں ہر سال ایک کروڑ 40 لاکھ بچیاں جن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں یعنی 38 ہزار روزانہ اور ہر 30 سیکنڈ میں 13 کم سن لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے مطابق پاکستان میں اس وقت 15 سے 19 سال کی 13.9 فیصد بچیاں شادی شدہ ہیں۔

جبکہ یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2015 کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی شرح کے حوالے سے دنیا بھر میں64 ویں اور 15 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کی شرح کے حوالے سے 70 ویں نمبر پر ہے۔ ملک میں 20 سے 24 سال کی شادی شدہ خواتین کے21 فیصد کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے اور 3 فیصد کی15 سال سے قبل ہوچکی ہے۔کم عمری کی شادی کا مطلب نو عمری میں لڑکیوں کا ماں بنناہے۔

جو ماں اور بچے دونوں کی جان اور صحت کے لئے بہت بڑا رسک ہے۔عالمی ادارہ اطفال کے مطابق 15 سے19 سال تک کی عمر کی ماں کا زچگی کے دوران مرنے کا امکان 20 سال کی عمر میں ماں بننے والی لڑکی کی نسبت دگنا ہوتا ہے اس کے علاوہ عمر ماؤں کے ہاں اکثر پری میچور پیدائش (وقت سے پہلے) کے زیادہ کیسز ہونے کا امکان ہوتا ہے جو کہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے کم عمری میں ماں بننے والی لڑکیوں اور ان کے نوزائیدہ بچوں کی اموات کا قریبی تعلق ماں کی صحت کے ساتھ بھی وابستہ ہے۔

یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 20 سے 24 سال کی شادی شدہ خواتین کی 8 فیصد 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی ماں کے رتبہ پر فائز ہوچکی ہیں۔ اس صورتحال کے ساتھ پاکستان جنوب ایشیاء میں چھٹے نمبر پر اور دنیا میں 76 ویں نمبر پر ہے۔

دنیا بھر میں بچیوں کو درپیش ایک اور بڑا خطرہ ان پر تشدد خصوصاً جنسی تشدد اور حملوں کی صورت میں موجود ہے۔ یو این ایف پی اے کے مطابق دنیا میں 50 فیصد جنسی حملوں کی شکارخواتین کی عمر15 سال سے کم ہوتی ہے۔ جبکہ 2012ء میں دنیا میں54 ہزار کم سن لڑکیوں جن کی عمر 10 سے 19 سال کے درمیان تھی تشدد کے باعث ہلاک ہوئیں۔

ان میں سے30 ہزار بچیاں جنوب ایشیاء میں تشدد کے باعث اس دنیا سے منہ موڑ گئیں۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 ملک میں بچیوں پر ہونے والے تشدد کے بارے میں جو حقائق سامنے لاتا ہے اُس کے مطابق ملک میں 15 سے 19 سال کی عمر کی 30 فیصد لڑکیاں جسمانی تشدد سہتی ہیں۔ بچوں پر ہونے والا کسی بھی قسم کا تشدد ان کی جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی صحت کو ناصرف متاثرکرتا ہے بلکہ اس تشدد کے اثرات آنے والی نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بچیوں پر گھریلو اور جنسی تشدد کے امکانات کو بھی اُن کی تعلیم ہی کم کرتی ہے۔

پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر فائزہ ربانی ملک میں ماں اور بچوں خصوصاً بچیوں میں حفظانِ صحت کے اصولوں سے آگاہی کی صورتحال کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہتی ہیںکہ اس کی بنیادی وجہ تعلیم کی کمی ہے کیونکہ وہ بچیاں جو کسی وجہ سے سکول نہیں جاتیں اور ناخواندہ ہیں اپنی تعلیم سے محرومی کے باعث بیماریوں کو دعوت دیتی ہیں اور ایسی بچیوں کی مائیں بھی چونکہ زیادہ تر ناخواندہ ہی ہوتی ہیں اس لئے وہ بھی صورتحال کی نوعیت کو بروقت اور بہتر طریقے سے نا سمجھنے کی وجہ سے بچیوں کی تولیدی اور عمومی صحت کے ساتھ ساتھ اُن میں غذائیت کی کمی کے مسائل کو اور زیادہ پیچیدہ کرلیتی ہیں ۔

اس کے علاوہ سکول جانے والی بچیوں کی بھی بڑی تعداد کسی نہ کسی صحت کے مسئلے کا شکار ہے اور یہ بات صحت اور صفائی کے حوالے سے کئی ایک سکول ہیلتھ پراجیکٹس سے سامنے آئی ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ گھر تو گھر اکثر سکولوں میں بچوں خصوصاً بچیوں کو تندرست رہنے اور اپنی صحت کو برقرار رکھنے کی کسی قسم کی کوئی تعلیم ہی نہیں دی جاتی یعنی ہماری بچیاں جہاں اپنی ناخواندگی کے باعث ذہنی اورجسمانی صحت کے مسائل کا شکار ہوتی ہیں وہیں سکولوں میں صحت وصفائی کی تعلیم کے فقدان کے باعث بھی بیماریوں کے شکنجے میں جکڑی جاتی ہیں۔

پاکستان کے لئے بچیوں(لڑکیوں) کی اہمیت یوں بھی دو چند ہے کہ دنیا بھر میں بچیوں ( اقوام متحدہ 18 سال تک کی عمر کو بچوں کی عمر شمار کرتا ہے) کی پانچویں بڑی تعداد کا حامل ملک پاکستان ہے یعنی دنیا کی3.56 اور جنوبی ایشیاء کی13.36 فیصد آبادی پاکستانی بچیوں پر مشتمل ہے۔

یو ایس سینسز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس سے حاصل کردہ اعداوشمار کے تجزیہ کے مطابق2015 ء تک ملک میں18 سال کی عمر تک کی بچیوں کی تعداد 4 کروڑ سے زائد ہے جو ملکی آبادی کا 20.18 فیصد ہے اس حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 65 ویں اور جنوبی ایشیاء میں افغانستان کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ جنوبی ایشیاء کی 26.21 اور دنیا کی 15.53 فیصد آبادی ایسی لڑکیوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 18 سال تک ہے۔

اس تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم پاکستان کے تعلیمی منظر نامہ پر نظر ڈالیںتو بچیوں کی تعلیم کی جو صورتحال ہمیں نظر آتی ہے وہ یقیناً دل کو دہلا دینے کے لئے کافی ہے۔اقوام متحدہ کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانٹرنگ رپورٹ2015 ء کے مطابق پاکستان میں دنیا بھر میں پرائمری سکولوں سے باہر بچیوں کی دوسری بڑی تعداد موجود ہے۔

جو رپورٹ کے مطابق 30 لاکھ 51 ہزار اور عالمی تعداد کا 10 فیصد ہے۔کیونکہ پاکستان میں پرائمری سکول جانے والی عمر کی بچیوں کے پرائمری سکول میں داخلہ کی شرح جنوب ایشیاء کے چھ ممالک (جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں)میں سب سے کم ہے جو پاکستان سوشل اینڈ لیوننگ اسٹینڈرڈز میئرمنٹ سروے 2013-14 کے مطابق صرف 53 فیصد ہے ۔

ملک میں بچیوں کے داخلے کی سب سے کم تر شرح بلوچستان میں ہے۔ جہاں پرائمری سکول جانے والی عمر کی صرف 30 فیصد بچیاں سکولوں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کے بعد صوبہ سندھ ہے جہاں 43 فیصد بچیاں سکولوں میں داخل ہو پاتی ہیں۔اس کے بعد 46 فیصدداخلہ کی شرح خیبر پختونخوا کی ہے۔



جبکہ پنجاب میں بچیوں کے داخلہ کی شرح 63 فیصد ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ پاکستان میں پرائمری سکولوں میں داخل بچیوں کا 39.4 فیصد اپنی پرائمری سطح کی تعلیم مکمل کر پاتی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان دنیا کے 57 ممالک( جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ) میں کم تر شرح کے ساتھ 47 ویں نمبر پر ہے۔ لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ملک میں پرائمری سے آگے کی سطح کی تعلیم میں بچیوںکے داخلہ کی شرح اور بھی توجہ طلب ہے۔ پاکستان میں اس وقت 10 سے 12 سال کی عمر کی صرف20 فیصد بچیاں مڈل کی سطح تک کے سکولوں میں داخل ہوتی ہیں۔

اسی طرح 13 سے 14 سال کی عمر کے گروپ کی صرف13 فیصدبچیاں میٹرک کی سطح کے سکولوں میں داخلہ لے پاتی ہیں۔ مڈل کی سطح تک بچیوں کی سب سے کم داخلہ کی شرح بلوچستان میں ہے جہاںمذکورہ عمر کی صرف8 فیصد بچیاں سکول جا پاتی ہیں۔ اور میٹرک کی سطح میں بھی سب سے کم داخلہ کی شرح بلوچستان کی ہے۔

جہاں صرف3 فیصد لڑکیاں جن کی عمر 13 سے 14 سال کے درمیان ہے سکول کا منہ دیکھتی ہیں۔ ملک میں اس وقت پرائمری سکولوں میں بچیوں کے داخلہ کا تناسب لڑکوں کے مقابلے میں عشاریہ88 فیصد اور سیکنڈری سکولوں میں عشاریہ 84 فیصد ہے جسے ملینئم ڈویلپمنٹ گولز 2015 ء کے ٹارگٹ برائے پرائمری سطح کے مطابق 1.00 فیصداور سیکنڈری سکولوں میں اعشاریہ 94 فیصدکرنا ہے۔ اس وقت وطن عزیز میں10 سے 14 اور15 سے 19 سال تک کی بچیوں میں خواندگی کی شرح 66 فیصد ہے جو اسی ایج گروپ کے لڑکوں کی شرح خواندگی کے مقابلے میں بالترتیب 15 اور 13 فیصد کم ہے۔

یہ تمام صورتحال متقاضی ہے کہ ملک میں بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی خود کو با اختیار بنانے، اپنے خاندان کو معاونت فراہم کرنے ،اپنی کمیونٹی کی مدد کرنے اور اپنے ملک کے حالات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ خواتین جیسے جیسے زیادہ تعلیم یافتہ ہوتی ہیں وہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو مردوںکی نسبت کم سپورٹ کرتی ہیں۔ اس لئے یہ امر ضروری ہے کہ روشن اور پر امن پاکستان کے لئے بچیوں کو بہتر تعلیم ، مناسب خوراک اورصحت کی سہولیات فراہم کرتے ہوئے ان کی نو عمری میں شادی کے عمل کو روکا جائے تاکہ جن کی گود میں پاکستان کے مستقبل نے پروان چڑھنا ہے وہ ہر لحاظ سے ایک بہتر اور معیاری تربیت گاہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں