سرمایہ داری کے بنیادی اصول
سماج کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔کبھی در پردہ اورکبھی کھلے عام۔اور یہ کشمکش طبقاتی خلیج سے پیدا ہوتی ہے
سماج کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔کبھی در پردہ اورکبھی کھلے عام۔اور یہ کشمکش طبقاتی خلیج سے پیدا ہوتی ہے۔ سری لنکا سے سورینام، کویت سے کوریا، جاپان سے جمیکا، آسٹریا سے آسٹریلیا اور مالٹا سے مالدیپ تک کون سا ایسا ملک ہے جہاں طبقاتی خلیج میں اضافہ نہیں ہورہا ہے؟ برصغیر کی تقسیم جس میں کہ انگریز استعماریت کی عیارانہ سازشیں کم تھیں جس کے تحت پاک و ہند کی تقسیم میں اٹھائیس لاکھ اور پاک بنگلہ دیش کی تقسیم میں تیس لاکھ انسان لقمہ اجل ہوئے۔ جب کہ تینوں ملکوں میں آج بھی بھوک، افلاس، غربت، ناخواندگی، لا علاجی، بے روزگاری، مہنگائی، خودکشی اور عصمت فروشی انتہا پر ہے۔
پاکستان جب بنا تو انیس سو اڑتالیس میں تین روپے کا ایک ڈالر تھا جب کہ اس وقت پاکستان اپنے دفاتر کے کاغذات کیکر کے کانٹے سے پن اپ کرتے تھے۔ آج اٹھائیس منزلہ عمارتیں ہیں،کھربوں کے بجٹ ہیں، اسمارٹ فون ہے، بلٹ پروف گاڑیاں ہیں اورایک ڈالرکی قیمت ایک سوچار روپے ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ اس کی بنیادی وجہ پاکستانی معیشت پر سامراج کا غلبہ ہے۔
پہلے ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مقروض نہیں تھے اورآ ج سارے پیسے انھیں کو دینے پڑتے ہیں اور پھر انھیں سے اسلحہ خریدتے ہیں۔ گزشتہ برس دو ہزار چودہ میں ہم نے کل خریدے جانے والے اسلحے کا بیالیس فیصد چین سے اور پینتیس فیصد امریکا سے خریدا۔اس وقت امریکی سامراج ہمیں ایک ڈالر دیکر چودہ ڈا لر لے جاتا ہے، جب کہ ہمارے حکمران شروع سے ہی سامراجی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بجائے غلامی کے طوق کو مزید مضبوط کر تے رہے۔
پاکستان میں اڑتیس سال آمریت رہی۔ اب یہ حکمرانی براہ راست فوج کی ہو یا فوج کی نگرانی میں یا نام نہاد سول حکومت کی ہو، ہر دور میں پچھلے دورکے مقابلے میں مہنگائی اور بے روز گا ری میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔اسی تناسب سے جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔
کون سا ایسا دور ہے کہ اس حکومت کے بعد کی حکومت نے مہنگائی اور بے روز گاری میں کمی کی ہو۔ذرا گہرائی میں جاکر دیکھیں تو سول حکومتیں بھی کسی کی نگہبانی میں یا مل کر یا لیبل لگا کر ہی حکمرانی کرتی رہیں۔ مثال کے طور پر سول حکومت کو ہٹاکر جنرل اسکندر مرزا نے اقتدار پر قبضہ کیا پھر انھیں بندوق کے زور پر ہٹاکر جنرل ایوب خان اقتدار میں آگئے ، بعدازاں ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ بنائی جس کے صدر ایوب خان خود بنے اور جنرل سیکریٹری ذوالفقار علی بھٹو تھے۔
جب بھٹو وزیر خارجہ تھے تو انھیں کے دور میں انیس سو ساٹھ میں کامریڈ حسن ناصر کو لاہور شاہی قلعہ میں شدید جسمانی تشدد کر کے قتل کردیا گیا تھا۔ بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ دیکر اقتدار میں آ نے کے بعد پہلا بیان یہ دیا کہ امریکا برسہا برس تک کمیونزم کو روک نہ سکا اور میں نے چند دنوں میں کر دکھایا۔ اسی قسم کا بیان بنگلہ دیش کے مرحوم وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن نے بھی دیا تھا کہ مغربی پاکستان کے حکمران بہت نالائق ہیں، ہم نے کمیونزم کو روکا۔ آخر ان دونوں رہنماؤں نے کس کو خوش کرنے کے لیے یہ بیانات دیے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکی سامراج کی خوشنودی کے لیے ایسے بیانات دیے گئے۔ پھر جب جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان سے منتخب لیڈر شیخ مجیب کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے وہاں فوج کشی کردی۔ ذوالفقار علی بھٹو چھ ماہ کے لیے ملٹری ایڈمنسٹریٹر بنے، اس کے بعد اقتدار انھیں منتقل کیا گیا ۔
بعد ازاں جنرل ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور نوے روز میں الیکشن کروانے کا وعدہ کر کے بارہ سال گذار دیے۔ انھیں کے دور میں کمیونسٹ پارٹی کے دو رہنماؤں سندھ کے کامریڈ نذیرعباسی اور دیر کے کامریڈ ڈاکٹر محمد تاج کو سامراجی آلہ کاروں نے قتل کردیا۔ جنرل ضیاالحق دور میں میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ جب نواز شریف بھاری اکثریت سے دوسری بار وزیر اعظم بنے تو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
اس تمام عروج و زوال میں اہم بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو اور جنرل ضیاالحق کے ادوار میں امریکی سامراج کے حکم پہ مدارس سے افغانستان میں طالبان بھیجے گئے۔ ان سارے واقعات میں ایک اہم واقعہ اصغرخان کیس سے نمایاں ہوتا ہے۔ پیسے لیکر آئی جے آ ئی بنواکر دائیں بازوکو جتوایا گیا۔
اب جتنے کرپشن کے مقدمات ہوئے ہیں ان میں بڑے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے؟ یہ قابل غور بات ہے کہ کل ان ہی طالبان کو اسلام کے سپاہی اور مجاہدین کہہ کر ریاست نے انھیں تربیت دی اور افغانستان میں داخل کیا گیا۔ ایک جانب افغان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے چین، امریکا، قطر اور پاکستان سرگرم ہوتے ہیں پھر اچانک نہ جانے کہاں سے گھنٹی بجتی ہے کہ مذاکرات ٹھپ ہوجاتے ہیں۔ادھر افغان حکومت اورامریکی حکومت پاکستان سے کہتی ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور دیگر کے خلاف کارروائی کی جائے۔
تاہم اب ان واقعات اور حکایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب یہ سرمایہ داری نظام چلنے کے قابل نہیں رہا۔ آپس میں لامتناہی ، اتنے گہرے تضادات اور مفادات کے تابع یہ خستہ حال نظام ختم ہونے کو ہے۔ یہ نظام عوام کو بھوک، افلاس، کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ محنت کش عوام برصغیر میں جنگی جنون کو ابھارنے کی سازش کو سمجھیں اور اپنے بنیادی مسائل مہنگائی، بے روز گاری، بھوک اور افلاس کے خلاف جدوجہد کریں ۔
جس طرح ہندوستان کے پندرہ کروڑ محنت کشوں نے ہڑتال کرکے حکومت کی چولیں ہلاکر رکھ دی ۔ یقیناً اس کے اثرات پاکستان اور افغانستان پر بھی پڑیں گے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے کہ اس خطے کے عوام سرمایہ داری کاخاتمہ کرکے کمیونسٹ انقلاب برپا کر کے انسانی برابری کو بروئے کار لاکر تمام مسائل حل کریں گے۔