رومانی گلیمر سے گالی تک
ارے ہم تو بقول شاعر یہ سوچ کر گھر میں مقید ہوگئے تھے کہ مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت۔
KARACHI:
ارے ہم تو بقول شاعر یہ سوچ کر گھر میں مقید ہوگئے تھے کہ مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت۔ باہر ہڑبونگ مچی ہوئی ہے۔ باہر نکل کر کیا کرو گے۔ مگر آخر ہم آدمی ہیں۔ پاؤں میں چکر ہے۔ سنیچر سر پہ سوار ہوا تو باہر نکل کھڑے ہوئے۔ ارے رے' یہ تو یہاں سے وہاں تک رستے ہی بند ہیں۔ مرے کو ماریں شاہ مدار۔ رستے پہلے ہی کونسے کھلے ہوئے تھے۔ شہر کی ساری سڑکیں کھدی پڑی تھیں کیوں' اس لیے کہ سڑک بن رہی ہے۔ پل تیار ہو رہا ہے۔ یہ سب استاد ذوقؔ کا کیا دھرا ہے۔ وہ تو شعر لکھ کر سرخرو ہوگئے۔ ہم پر وہ شعر بھاری پڑ رہا ہے
پل بنا' چاہ بنا' مسجد و تالاب بنا
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
مالکان شہر کو نام منظور ہے سو وہ رکنے ہی میں نہیں آ رہے۔ نئی شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر کے نام پر کھدائی جاری ہے۔ سڑک بند ہے بہر تعمیر پل۔ موٹر سوار آج مشکل میں ہیں۔ کل نئی شاہراہوں اور پلوں پر سے فراٹے کے ساتھ گزریں گے۔ مارا گیا پیادہ۔ وہ اب بھی مشکل میں ہے۔ آیندہ بھی مشکل میں رہے گا۔ پیادہ فٹ پاتھ مانگتا ہے' اس کے لیے نئی تعمیر میں گنجائش کم نکلتی ہے۔
خیر یہ تو ایک مشکل تھی۔ مروں کو مارا شاہ مدار نے باقی جو رستے بچ رہے تھے اور ہم آڑے ترچھے ہو کر گزرتے تھے ان رستوں کو بند کیا الیکشن والوں نے۔ الیکشن والوں کی ہڑبونگ کے بیچ سے گزرنا شرفا کو ویسے ہی مشکل نظر آ رہا تھا۔ اس پر مستزاد' یہ سڑک آگے چل کر بند۔ کیوں۔ انتظامیہ نے الیکشن کی مخلوق کی سہولت کے خیال سے شہریوں پر جا بجا رستے بند کر دیے۔
ارے رستے بند کرنے سے پہلے یہی سوچ لیا ہوتا کہ یہ جو شہر کی ہر سڑک' ہر گلی' ہر چوراہا بڑے بڑے اشتہاروں سے ٹپا پڑا ہے اور ہر اشتہار پر لیڈران کرام کے خوش رنگ چہرے۔ مگر جب رستے بند ہوں گے تو کون ان رستوں سے گزرے گا اور کون ان لیڈروں کے روئے زیبا کا دیدار کرے گا۔ ویسے اس کا زیادہ نقصان تو پی ٹی آئی ہی کا ہو گا۔ لو اب یہ ذکر چل ہی نکلا ہے تو دل طالبان دیار سے انصاف طلب ہے۔ دیدار کے لائق سب سے بڑھ کر عمران خاں کا روئے زیبا ہے۔ ایک تصویر میں آنکھیں رومانٹک انداز میں آسمان کی بلندیوں کا جائزہ لے رہی ہیں۔ دوسری تصویر میں آنکھیں موندی ہوئی ہیں جیسے کسی سہانے خواب میں کھوئی ہوئی ہوں۔ وزارت عظمیٰ کے خواب سے بڑھ کر اور کونسا خواب ہو سکتا ہے۔ تیسری تصویر میں سیاہ شیروانی زیب تن ہے۔ چوتھی تصویر میں دو شالا گلے کی زینت بڑھا رہا ہے۔ تصویروں پر نظریں دوڑاتے جاؤ۔ الیکشن کون جیتتا ہے' اس کا فیصلہ ہوتا رہے گا۔ چہرہ جاتی الیکشن تو عمران خاں نے جیت لیا۔ نظر بد سے دیکھنے والے پر خدا کی مار۔ نظر انصاف سے دیکھو اور تسلیم کرو کہ عمران خاں اپنی رومانٹک جلوہ آرائی کے ساتھ سب پر چھائے ہوئے ہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا
یہانتک منظر بہت سہانا ہے مگر ان کے حریف انھیں یہ کہہ کر رسوا کرنے پر تلے ہیں کہ موصوف کی زبان بے لگام ہے۔ گالیوں پر اتر آتے ہیں۔ دھرنے کے وقت سے ان کے مخالف گالی کی تہمت لگا کر انھیں رسوا کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں وزیر اعظم میاں نواز شریف تقریر میں جب اس طرف اشارہ کرتے ہیں تو ان کا لہجہ میرؔ کے لہجہ سے جا ملتا ہے۔ کچھ اس طرح گویا ہوتے ہیں
دین گالیاں انھیں نے وہی بے دماغ ہیں
میں میرؔ کچھ کہا نہیں اپنی زبان سے
ویسے اگر میاں صاحب کے رفقا چاہیں تو ہم ان کے لیے کچھ ایسے شعر 'فیڈ' کر سکتے ہیں کہ جو گالی کے ذیل میں نہیں آتے۔ مگر اس ذیل میں ضرور آتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ملاحظہ فرمائیے
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
اصل میں سیاست کے بھنگڑ خانے کا دستور یہ ہے کہ پہلے تقریر کا جواب تقریر سے اور نعرے کا جواب نعرے سے آتا ہے۔ اس سے آگے کا مرحلہ یہ ہے اور جو اسمبلیوں میں وقتاً فوقتاً دیکھنے میں آتا ہے کہ آخر نعرہ بازی بھی غیر موثر ہو جاتی ہے۔ پھر بات جوتی لات تک پہنچتی ہے اور لپا ڈگی ہونے لگتی ہے۔
بات اگر جوتی لات تک پہنچ سکتی ہے تو گالی بازی کا نسخہ بھی آزما لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ آخر جب ہم شریفانہ زبان میں بات کرتے کرتے بدزبانی پر اتر آتے ہیں تو سمجھنا چاہیے کہ زبان کی نزاکتوں اور اشاروں کنایوں کی طرح بدزبانی کی بھی اپنی بدّیا ہے۔ ابتذال' عامیانہ پن' فحش کلامی' ایسے کتنے رنگ یا بدرنگ بدزبانی کی بدیا کا حصہ ہیں۔ سب سے آخر میں گالی کا مقام ہے۔ نخالص گالی۔ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے۔
جب یار و اغیار نے ایک مرتبہ شائستگی کا جامہ اتار دیا تو باقی مراحل آپ تیزی سے طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ روا ہے۔ بس یہی معاملہ سیاست کا ہے۔ ہم اپنی قومی سیاست کو دیکھ ہی رہے ہیں۔ یہاں سب کچھ روا ہے
یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں
پھر گالی سے کب تک آپ دامن بچائیں گے۔ سارے حربے آزما لیے۔ اس حربے سے اجتناب کب تک۔ چلو یہ بھی سہی۔ سنتا جا شرماتا جا۔