سنجیونی وٹی سے کشمیریوں کی دل آزاری

لیجیے، مسلمانوں کے دل دکھانے اور شر پھیلانے میں جو کمی رہ گئی تھی، وہ بھی پوری کرنے کی کوشش کر لی گئی ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid October 12, 2015
[email protected]

KARACHI: لیجیے، مسلمانوں کے دل دکھانے اور شر پھیلانے میں جو کمی رہ گئی تھی، وہ بھی پوری کرنے کی کوشش کر لی گئی ہے۔ ''انڈین سسٹم آف میڈیسن'' (ISM) کے تحت بھارتیوں نے ایک ایسی دوائی ایجاد کی ہے جس میں گائے کا پیشاب بکثرت استعمال کیا گیا ہے۔ اسے سنجیونی وٹی (Sangeevani Vati) کا نام دیا گیا ہے اور فساد انگیزی کے لیے دانستہ اس کی پہلی بڑی کھیپ مقبوضہ کشمیر میں بھیجی گئی ہے۔ بزرگ کشمیری رہنما جناب سید علی گیلانی کی قیادت میں ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے جملہ اہلِ کشمیر اس دوائی کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوری طور پر سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے ''سنجیونی وٹی'' کو ہٹایا جائے۔ اس ''دوائی'' کو متعارف کروانے اور مفت پھیلانے میں مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حکومت کے غیر مسلم وزیرِ صحت چوہدری لال سنگھ نے بنیادی اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی حکومت نے ایک خاص شرارت کے تحت مسلم اکثریتی والے مقبوضہ کشمیر میں اس پلید میڈیسن کو زیادہ مقدار میں بھجوایا ہے۔ حیرت ہے کہ ریاست کا مسلمان وزیر اعلیٰ، مفتی محمد سعید، خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔

ہندوستان میں، سرکاری سرپرستی میں، پلید اور حرام اشیاء کو متعارف کروا کر مسلمانوں کی دل آزاری اور ان کے اسلامی جذبات سے کھیلنے کی ''روایت'' خاصی پرانی ہے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی اور انگریز حاکم کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت کا آغاز ہی اس لیے ہوا تھا جب انگریزوں نے ایک ایسا کارتوس ایجاد کیا جسے بندوق میں ''بھرنے'' سے قبل اس کا ایک بیرونی رِنگ دانتوں سے توڑنا پڑتا تھا۔ یہ رِنگ خنزیر ایسے حرام اور پلید جانور کی چربی سے بنایا گیا تھا۔ انگریزوں کے اصرار اور مسلمان سپاہیوں کے انکار سے کشیدگی بڑھی تو مسلمانوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے یہی حربہ اور ہتھکنڈہ اب ہندو بنیاد پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں آزمایا گیا اور اسے تیزی سے آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جناب علی گیلانی کی قیادت میں تمام کشمیری مسلمان ردِعمل میں آگ بگولہ ہیں۔ اگر ہندو گائے کے پیشاب کو پوتر، مقدس اور شفا سمجھتے ہیں تو مسلمان اسے پلید اور ناپاک خیال کرتے ہیں (یہی تو دو قومی نظریے کی ایک شکل بھی ہے) ہم نے سن رکھا ہے کہ ایک سابق بھارتی وزیر اعظم (مرار جی ڈیسائی) بڑے ذوق و شوق سے گائے کا پیشاب نوش کیا کرتے تھے۔

اس بارے میں جب بھی خیال کیا، کراہت اور ابکائی ہی آئی۔ بھارتی ہندو ''گاؤ مُوتر'' کے احترام میں اتنے آگے نکل جائیں گے، یہ تو ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ بھارت کے کئی اسپتالوں کے آئی سی یوز (انتہائی نگہداشت کے کمروں) میں گائے کا پیشاب چھڑکا جاتا ہے۔ اس پر بھارت کی نامور ادیبہ اور بہادر صحافی محترمہ ارن دھتی رائے نے احتجاج کرتے ہوئے لکھا کہ بظاہر چمکتا بھارت اتنا بھی جاہل ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ پہلے کبھی نہ لگایا جا سکا: ''آئی سی یوز میں گائے کا پیشاب چھڑک کر مریضوں کو قبل از وقت موت کی وادی میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔'' اس بے باک خاتون نے اپنے ٹویٹ میں لکھا۔ نریندر مودی اور ان کی ہندو جماعت نے بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی انگیخت کے لیے مقبوضہ کشمیر کے ایک ہندو وزیر کو استعمال کیا ہے۔ چوہدری لال سنگھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی کا ایک لڑاکا رکن ہے۔ یہ پلید حرکت اس وقت کی گئی ہے جب مقبوضہ کشمیر میں گائے کے ذبیحہ کے خلاف ایک عدالتی فیصلے نے پہلے ہی کشمیری مسلمانوں کے جذبات بھڑکا رکھے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ جب سے آر ایس ایس اور بی جے پی کی شکل میں نریندر مودی وزیر اعظم بنے ہیں، بھارت میں ہندو بنیاد پرستی اور اینٹی مسلم جذبات میں زیادہ اضافہ ہوا ہے اور بھارتی مسلمانوں پر بھارتی بنیاد پرست ہندوؤں کے حملے بڑھ گئے ہیں۔ اکتوبر 2015ء کے پہلے ہفتے ریاست دہلی کی سرحد کے کنارے واقع ''دادری'' کے علاقے، جو مغربی اُترپردیش کا حصہ ہے، میں محمد اخلاق سیفی نامی بزرگ مسلمان کو متعصب اور جنونی ہندوؤں نے اس شبہے میں اینٹوں اور پتھروں سے مار مار کر ہلاک کر ڈالا کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا تھا اور گھر میں محفوظ رکھا تھا۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ مقتول محمد اخلاق نے تو بکرا ذبح کیا تھا اور گھر کے فریج میں محفوظ گوشت بھی بکرے ہی کا تھا۔ کسی بھی قاتل ہندو سیاستدان نے مگر اس ظلم پر احتجاج کیا نہ اس امر کی مذمت کہ محمد اخلاق پر جھوٹا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے گھر پر حملہ کیا گیا اور پھر اس کی زندگی چھین لی گئی۔ اس درندگی نے سارے بھارتی مسلمانوں کو مزید خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ پاکستان میں بیٹھ کر ہم مگر خوف اور سراسیمگی کی اس کیفیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں ہر وہ صوبہ جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں گائے بچھڑے اور بیل کے ذبیحہ پر سختی سے سرکاری پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔

بھارتی مسلمان مجبوراً اس کی پابندی تو کرتے ہیں مگر بھارتی کٹر ہندوؤں کے ہاتھ اب ایک نیا ہتھیار لگ چکا ہے۔ انھیں جب بھی مسلمانوں کا خون بہانا ہو، ڈرا دھمکا کر ووٹ حاصل کرنے ہوں، ان پر الزام عائد کر دیا جاتا ہے کہ انھوں نے گائے ذبح کی ہے۔ اس ظالمانہ اقدام کی کہانی خود ایک ہندو صحافی سمیتا گُپتا، جو بھارتی انگریزی اخبار ''دی ہندو'' سے وابستہ ہیں، نے بیان کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ گزشتہ دنوں جب بریلی شہر کے نزدیک گائے بھینسوں کے ہندو اسمگلروں نے ایک پولیس والے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تو اس کا ملبہ بھی مقامی مسلمانوں پر یہ کہہ کر ڈال دیا گیا کہ مقتول پولیس والے نے مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے سے روکا تو مسلمانوں نے غصے میں آ کر پولیس والے ہی کو قتل کر دیا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کٹّر اور بنیاد پرست ہندو وزیر اعظم نریندر مودی کے آج کے بھارت میں مسلمانوں کا کس وحشت و بربریت کے ساتھ استحصال کیا جا رہا ہے اور عالمِ اسلام صم بکم کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔

پاکستان کا دم غنیمت ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح سے بھارتی مسلمانوں پر بھارتی ہندوؤں کے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھتی رہتی ہے۔ بھارت میں گائے بچھڑے کے ذبیحہ کے خلاف بی جے پی کی وحشتوں کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ سمیتا گُپتا لکھتی ہیں کہ مشرقی پنجاب، جہاں شرومنی اکالی دَل اور بی جے پی کی اتحادی حکومت ہے، میں بھی گائے بچھڑے کے گوشت پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں حالانکہ مسلمانوں کی طرح سکھ بھی گائے بچھڑے کا گوشت کھانے کے شوقین ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور مغربی اترپردیش، مشرقی اترپردیش، راجھستان، گجرات، چھتیس گڑھ اور مشرقی پنجاب سمیت سارا بھارت بجرنگ دَل، بی جے پی اور آر ایس ایس کے وابستگان کے نعروں سے گونج رہا ہے کہ ہم کسی کو بھی گائے بچھڑے کا گوشت نہیں کھانے دیں گے۔

کیا اسے محض اتفاق کہنا چاہیے کہ جس روز ''دادری'' میں خونخوار ہندوؤں نے گھر میں گھس کر محمد اخلاق کو شہید کیا، اسی روز ممبئی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 9 سالہ پرانے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے سات بھارتی مسلمانوں کو سزائے موت دے دی؟ جج شندے کے ہاتھوں سزا پانے والے ان بدقسمت بھارتی مسلمانوں کے نام یہ ہیں: کمال انصاری، شیخ فیصل، عطاء الرحمن، احتشام صدیقی، نوید خان اور آصف خان۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے 2006ء کے دوران ممبئی شہر میں ٹرین پر بم حملے کر کے 188 لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے برعکس، آزاد ذرایع گزشتہ نو سال سے مسلسل یہ کہتے اور اصرار کرتے آ رہے تھے کہ یہ دھماکے مسلمانوں کو پھانسنے اور بدنام کرنے کے لیے انڈین انٹیلی جنس ایجنسی اور بی جے پی کے باہمی اشتراک سے بروئے کار لائے گئے، جیسا کہ بھارتی گجرات میں (نریندر مودی کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران) مسلمانوں کو پولیس اور بی جے پی کے غنڈوں نے تہ تیغ کیا۔ کسی بھارتی عدالت نے ان خونیوں کو ایک ماہ کی سزا بھی نہ دی جب کہ ممبئی دھماکوں کے الزام میں سات بھارتی مسلمانوں کو موت اور آٹھ کو عمر قید کی سنگین سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ یہ ہے ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' کے ''روشن چہرے'' کی ایک نئی مثال۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں